تحریک ایک چیلنج

اگر ہم دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتا چلے گا کہ اللہ تعالٰی نے انسان کی فطرت میں مستقل جستجو ،فکر میں لگے رہنے ،مقصد کو پورا کرنے ،احداف حاصل کرنے اور ترقی کرنے کی ایک تحریک پیدا کر رکھی ہے. جو اسے ہمہ وقت ذہنی اور جسمانی طور پر مصروف رکھتی ہے. اسی تحریک کی وجہ سے انسان نے اپنی ارتقاء سے لے کر آج تک جس قدر تیزی سے علمی, مادی اور معاشرتی ترقی کی ہے وہ خاصی حیران کُن ہے. یہ اسی ذہن اور جسم کا آپس کا تال میل اور تحریک کا نتیجہ ہے کے دنیا نے کئی سائنسی ،صنعتی اور معاشرتی انقلاب برپا ہوتے ہوئے دیکھے. دنیا میں کسی نہ کسی جگہ ،کوئی نہ کوئی تحریک ہمہ وقت چل رہی ہوتی ہے. یہ تحریک چاہے آزادی کی ہو یا کسی بھی اور طرح کے حقوق کی،اس کے پیچھے جذبہ ،کوشش اور محنت شامل ہوتی ہے. دنیا نے ان تحریکوں کے حوالے سے بڑے بڑے لوگ پیدا کیے ہیں جن کی محنت اور کوششوں سے بڑی بڑی قومیں نہ صرف آزاد ہو سکیں، بلکہ انہوں نے پھربے تحاشا ترقی بھی کی. دنیا میں جہاں کچھ ایسے افراد پیدا ہوتے رہتے ہیں جوکہ اپنی اپنی جگہ دنیا کی ترقی و بہبود میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں ،وہیں کچھ ہمارے جیسے تن آسان اور نکمے لوگ بھی دنیا کی اس بھیڑ میں قارئین آپ کو کہیں نہ کہیں ضرور ٹکراتے رہے ہوں گے کہ جن کے مقصدِ پیدائش کا علم نہ صرف ان کو بلکہ ان کے جاننے والے کسی بھی اور شخص کو نہ ہو سکا ہوگا. وہ تو صرف اس بات سے ہی خوش اور مطمئن رہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کے اللہ نے کچھ بھی دنیا میں فالتو اور فضول نہیں بنایا تو ضرور مرنے سے پہلے یہ معاملہ بھی حل ہو ہی جائے گا کہ آخر ان کو کس مقصد کے تحت پیدا کیا گیا. اب تک تو جتنا ہم سمجھ سکے ہیں اس کے مطابق ہمیں لوگوں کے لئے نقشِ عبرت بنا کے پیش کیے جانے کے لیے ہی بنایا گیا ہوگا. کیونکہ اللہ کی قدرت میں جو ایک چیز ہم نے نوٹ کی ہے وہ یہ ہے کہ ہر چیز کی ایک الٹ یا مخالف چیز ضرور پیدا کی گئی ہے، جس سے کہ ایک اسُ بہت ہی اہم چیز کی اہمیت اجاگر ہو سکے. جیسے کے عقل مند کے مقابلے میں بے وقوف, پڑھے لکھے کے مقابلے میں جاہل, گورے کے مقابلے میں کالے وغیرہ وغیرہ. جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہمارے ماں باپ رشتےدار, آس پڑوس, دوست یار اور سب سے بڑھ کر ہمارے متاثرین میں سے ہمارے میاں نے اپنی پوری جان لگا دی کہ ہمارے اندر کوئی تحریک پیدا کر سکیں ، لیکن ہم بھی لگتا ہے کہ اللہ کے گھر سے قسم کھا کر چلے تھے کہ جس طرح ثابت و سالم بغیر نقص کے دنیا میں آئےہیں ،اسی طرح پورے کے پورے واپس پہنچیں گیں ، نہ ایک عضو کم نہ ایک زیادہ. ورنہ تو دنیا میں لوگوں کو محنت کر کر کے اپنا حال تباہ کرتے ہم نے خوب ہی دیکھا ہے. نہ ہی کام کا ٹینشن لیں اور نہ ہی بلڈ پریشر ، شگر اور گھٹنوں کی کمر کی بیماریوں میں مبتلا ہوں. ارے بھئی ہم سب دنیا میں اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں اور ہم اس قدر بے ایمانی کے نہ تو قائل ہیں نہ عادی ہیں اور نہ ہی اس کے متحمل ہو سکتے ہیں. اب بھلا بتائیے کہ کام کرکر کے اگر ہم نے اپنی مشینری گھس دی تو ٹوٹے پھوٹے اللہ کے پاس پہنچتے کیا اچھے لگیں گے. لیکن دنیا کا یہ مسئلہ ہے کہ یہاں لوگوں کو عقل کی باتیں زرا کم ہی سمجھ میں آتی ہیں. اب دیکھیں اب لوگوں کو کاپی کرنے کے چکر میں بھلا ہم کیونکر اپنا نقصان کریں ، یا کیوں کفران نعمت کریں. ویسے تو ہمارے اپنے میاں جی سے اکثر ہی اس پر مکالمے ہوتے رہتے ہیں مگر جب وہ خاص طور پہ یہ کہتے ہیں کہ حرکت میں برکت ہے تو بس ،ہمارا ان کی عقل پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے. ارے کوئی انہیں یہ سمجھائے کہ اگر حرکت کیے بغیر ہی ہمارے یہاں اتنی برکت ہے تو پھر حرکت کی کیا ضرورت ہے-

Shazia Rehman
About the Author: Shazia Rehman Read More Articles by Shazia Rehman: 4 Articles with 6510 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.