ہری پور کے مصیبت زدہ باپ اور بیٹی کی آس !

ہمارے ایک انکل ہوا کرتے تھے جو اپنے سامنے آنے والے ہر بچے کو کچھ پیسے دے دیتے تھے۔ہم نے پوچھا تو کہنے لگے کہ کوئی بھی بچہ جب آپ کی طرف دیکھتا ہے تو اس کو آپ سے اچھے کی توقع ہوتی ہے، ہم بھی بچپن میں ہر ملنے والے بڑے سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی ہی توقع رکھتے تھے ۔

گزشتہ چند سال کے دوران مجھے خیبر پختون خواہ کے مختلف علاقو ں سے مختلف مصیبت زدہ افراد کے چند خط موصول ہوئے جن میں انہوں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد،معاونت کے لئے مجھے سے کالم لکھنے کی درخواست کی تھی۔پہلا خط ایک چند سال کے معصوم بچے کے دل کے آپریشن کے اخراجات سے متعلق تھا۔اس نے پشاور کے سرکاری ہسپتال کے متعلقہ شعبے کے رابطہ نمبر بھی خط میں لکھے تھے۔ کالم شائع ہونے کے چند روز بعد اس کے والد نے فون پر بتایا کہ بیرون ملک سے کسی شخص نے آپ کی کالم پڑھ کر پشاور کے ہسپتال میں فون پر رابطہ کیا ہے اور آپریشن کے تمام اخراجات ادا کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔ وہ مزید بتانے لگا کہ ڈاکٹر نے آپریشن کی تاریخ بھی دے دی ہے۔ اتفاق کی بات کہ ایک روزنامہ اخبار نے دل کے مریض بچے کے حوالے سے لکھا گیا میرا کالم چند ہفتے تاخیر سے شائع کیا۔ اسی دن مجھے اسلام آباد سے ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا جو اس بچے کے آپریشن کے لئے مالی معاونت کرنا چاہتے تھے۔میں نے ان صاحب سے کہا کہ وہ خود بچے کے والد سے فون پر رابط کریں۔میں نے بچے کے والد کو فون کیا تو اس نے بتایا کہ بچے کا آپریشن ہو گیا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ آپریشن کے بعد استعمال ہونے والی دوائیاں بہت مہنگی ہیں جس کی وہ استطاعت نہیں رکھتے۔یوں ایک اخبار میں کالم تاخیر سے شائع ہونا اس بچے کی دوائیوں کے اخراجات بھی پورے ہونے کا ایک سبب بن گیا۔

اس کے بعد بھی چار ، پانچ خطوط ملے جن میں زیادہ تر دل کے آپریشن کے اخراجات سے متعلق ہی تھے۔ایک خط ایک بیوہ خاتون کا تھا جو اپنی بچی کی شادی کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر و عاجز تھی ۔یہی سوچ کر مصیبت میں گھرے ایسے افراد کے لئے لکھ دیتا ہوں کہ کسی نے بڑی آس ، توقع سے مجھے یہ خط لکھا ہے ، قدرت نے مجھے لکھنے کا ہنر دیا ہے ، شاید میرے لکھنے کے وسیلے سے انسانیت کی مدد کے اعلی جذبے سے سرشار افراد کی نظر میں یہ معاملہ آجائے،جو مصیبت زدہ مجبور کی مدد و معاونت کو ہی سب سے اچھا کام اور اپنے لئے رحمت و نجات کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔

دو دن پہلے ڈاک سے ایک غریب ،مجبور والد کا ایسا ہی ایک خط موصول ہوا جس میں ایک نوجوان لڑکی کے دل کے عارضے،اس بچی کی حسرتوں اور اپنے باپ سمیت ہم سب سے اپنی مدد کی آس و امید کی منظر کشی نے افسردہ کر دیا۔خط کے ساتھ میڈیکل رپورٹ کی کاپی،بچی کی تصویر اور والد کے شناختی کارڈ کی کاپی بھی ہے۔نامعلوم کہ کس نے ہری پور کے اس غریب مصیبت زدہ کو میرا بتایا کہ اس نے مجھے خط لکھ دیا۔

'' بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے '' کے عنوان شروع ہونے وا لا خط پیش ہے۔

''قابل قدر جناب اطہر مسعود وانی صاحب(کالم نگار) اسلام علیکم ! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔اللہ تعالی آپ کو ہمارے جیسے غریب لوگوں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔میرا نام شفیق احمد ہے ۔میں ہری پورکا رہنے والا ہوں اور پیشے کے لحاظ سے حجام ہوں۔میرا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔بڑی بیٹی عنایہ ایک دن اچانک زمین پر گر پڑی تو بیٹی کو مقامی سول ہسپتال ہر ی پور لے گئے جہاں پر ایمر جنسی میں ڈاکٹروں نے بیٹی کا طبی معائنہ کیا۔پھر ڈاکٹر صاحب نے مجھے راولپنڈی ہسپتال عسکری ادارہ امراض قلب ریفر کیا ۔میرے پاس راولپنڈی آنے جانے کا کرایہ نہیں تھا۔قریبی رشتہ داروں سے قرض لے کر بیٹی کوAFICہسپتال راولپنڈی لے گیا ۔AFICہسپتال راولپنڈی کے امراض قلب ڈاکٹر لیفٹنٹ کرنل محبوب سلطان نے میری بیٹی کا مکمل چیک اپ کیا اور کئی ٹیسٹ کرائے۔جس سے معلوم ہوا کہ بیٹی دل کے مرض میں مبتلا ہے۔بیٹی ہر وقت روتی ہے کہ اس کی وجہ سے ہم کس کرب اور تکلیف سے گزرتے ہوئے قرض اٹھا رہے ہیں۔وہ کہتی ہے کہ میرا علاج نہ کرائیں۔یقین جانئے بیٹی کے ہاتھوں میں انجکشنوں کی سوئیوں نے نقوش بنا دیئے ہیں،ڈاکٹر صاحب نے بیٹی کو کچھ ادویات تجویز کئے ۔کچھ ادویات خرید سکا،کچھ نہ خرید سکا اور پھر ایک ماہ بعد دوبارہ آنے کو کہا۔جب ایک ماہ بعد دوبارہ ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے تو دربارہ معائینہ کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے آپریشن تجویز کیا اور آپریشن کے اخراجات چار لاکھ روپے بتائے۔ آپریشن کے پیسے نہ ہونے کہ وجہ سے میں نے بیٹی کے علاج کے لئے صحت انصاف کارڈ کے لئے تگ و دو شروع کر دی ۔

صحت انصاف کارڈ کے لئے بہت کوششیں کیں مگر مجھے کارڈ نہیں ملا ۔اس پر میںبہت مایوس ہوا۔مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ کارڈ بھی سیاسی لیڈروں کے رشتہ داروں اور سفارشی لوگوں کو ملیں گے۔بہر حال مجھے وہ کارڈ نہیں ملا۔میں ایک غریب حجام ہوں ۔دن رات لوگوں کی حجامت کر کے تھک گیا ہوں ۔بمشکل تین چار سو روپے کماتا ہوں ۔کرائے کے گھر میں رہتے ہیں ،میں چار لاکھ روپے کہاں سے لائوں گا۔اس سے پہلے میں نے اپنی بیمار بیٹی کے لئے کوئی خیراتی ادارہ نہیں چھوڑا یہاں تک کے زکواة اور بیت المال کے دفتروں کے چکر لگا لگا کر تھک چکا ہوں ۔مالی مشکلات کی وجہ سے بیٹی کا صحیح علاج نہیں کر سکا تو میں بیٹی کو دم درود کے لئے بڑی مشکل سے آزاد کشمیر لے گیا ۔لوگ جہاں کہتے میں وہاں بیٹی کو دم درود کے لئے لے جاتامگر کوئی افاقہ نہیں ہوا۔

میں اور میری بیٹی گھر کے دروازے کی طرف ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی اللہ تعالی کا نیک بندہ میری بیٹی کو ہسپتال لے جا کر اس کا آپریشن کروائے گا۔قرآن پاک میں ارشاد ہے اور ایسے لوگ بھی اللہ تعالی کو پسند نہیںہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالی نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے ،اسے چھپاتے ہیںاور وہ لوگ بھی اللہ تعالی کو ناپسند ہیںجو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔(سورة النسائ)آپ کی تھوڑی سے مالی امداد سے آپ لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا مگر میری بیٹی کی زندگی میں بہت فرق پڑے گا۔جو لوگ مدد کر سکتے ہیں وہ مدد کریں جو لوگ مدد نہیں کر سکتے وہ میری بیٹی کی صحت یابی کے لئے دعا کریں ۔اس کار خیر کا بدلہ دنیا اور آخرت دونوں میں ملے گا۔آخر میں میں یہ کہتا ہوں کہ بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے ۔کوئی ہمدرد شخص اور انسانیت کا درد رکھنے والا جو اولاد کا درد سمجھتے ہیںان سے اپیل ہے کہ میری بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھ کر اس کے آپریشن کے لئےAFICہسپتال راولپنڈی میں چار لاکھ روپے جمع کرا دیں ،جس سے میری بیٹی کا آپریشن ہو سکے اور اس کے بدلے ایک غریب والدین کی ڈھیروں دعائیں لیں۔بیٹی کے آپریشن کے سلسلے میں مجھ سے اس نمبرپر0310-7769799 رابطہ کر سکتے ہیں۔بیٹی کے تمام میڈیکل رپورٹس لف ہے۔ شفیق احمد ولد عبدالرحمان تحصیل ہری پور۔''

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614983 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More