یہ حقیقت ہے کہ اسلام نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی
مزدور کے حقوق متعین کر دیے تھے ۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام کے ماننے
والے معاشرے و ممالک میں ہی مزدوروں کو ان کے حقوق حاصل نہیں ہیں ۔پاکستان
میں مزدور کی جو حالت اس وقت ہے اسے ایک مزدور ہی جان سکتا ہے ۔اس دن ہر
سال مزدوروں کے حق میں،حقوق کیلئے پروگرام منعقدہوتے ہیں اور یہ
تقریبات،سیمینار وہ لوگ کرتے ہیں جن کو مزدوروں کے حالات کا علم بھی نہیں
ہوتا ،حکمران اس دن مزدوروں کے لیے کچھ اعلانات کرتے ہیں ۔ اس دن کو بڑے
زور و شور سے منایا جاتا ہے ،ٹی وی پروگرام ہوتے ہیں ،اس خاص دن کے حوالے
سے اخبارات ،مزدوروں کی حمایت ،حقوق سے بھرے ہوتے ہیں اور آقا ؤں کے بیانات
پڑھ کر لگتا ہے جیسے ان کا دل مزدوروں کے لیے ہمدردی سے بھرا ہوا ہے ۔یہ دن
آتا ہے گزر جاتا ہے ۔اس دن مزدوروں کی باتیں ہوتی ہیں، اس دن مزدور مشہور
ہوتا ہے ۔
سال تو سارا ہی گمنامی میں کٹ جاتا ہے
بس ـ"یکم مئی" کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
مزدور کی مشہوری میں یہ دن گزر جاتا ہے لیکن مزدوروں کے حالات نہیں بدلتے ۔ایسا
ہی ہوتا آیا ہے ،ہو رہا ہے ۔ پاکستان میں اس دن سرکاری تعطیل ہوتی ہے ۔اس
دن ان مزدوروں کی محرومیوں اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم پر مگرمچھ کے
آنسو بہانے والے خو د محلات میں رہتے ہیں۔ان کی اولاد کی فیس لاکھوں میں ہے
ان کو کیا علم کہ مزدورکیا ہوتا ہے ،اور غربت کس بلا کا نام ہے ،اور غربت
کا بیماری سے چولی دامن کا ساتھ ہے ۔یہ مزدوروں کے حقوق پر پروگرام کرنے
والے بڑے بڑے ہوٹلوں میں سیمینار کرنے والے جن کے بچوں کے علاج بھی دوسرے
ممالک میں ہوتے ہیں ،مزدور کے روز و شب سے واقف نہیں ہوتے ۔ اور اس دن لمبی
لمبی تقریریں مزدور کے حق میں کرتے ہیں ،لیکن کیا ان تقریروں سے کسی مزدور
کا پیٹ بھر سکتا ہے جناب جبار واصف کے بقول۔
پیٹ بھر دیتا ہے حاکم مرا تقریروں سے
اُس کی اِس طفل تسلی پہ تو رنجُور ہوں میں
دین اسلام نے مزدوروں کے جو حقوق متعین کیے وہ سرمایہ دار ان کو نہیں دے
رہے ، بوجہ مزدور وں میں اتحاد نہیں ہے ،کیونکہ مزدوروں کا لیڈر مزدور نہیں
ہوتا ،مزدور بھی اپنے جیسے مزدور کو اپنا لیڈر نہیں بناتے ،ان کی تنظیموں
کے رہنما لمبی کار والے ہوتے ہیں ،کاش اس بات کی مزدوروں کو سمجھ آ سکے کہ
ان کے حقوق کیا ہیں جو ان کو نہیں مل رہے اور یہ کہ اس کے لیے ان کو اتحاد
کرنا ہے ،اپنے میں سے اپنے جیسا لیڈر چننا ہے حق مانگے سے نہیں ملتا حق
چھیننا پڑتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ داروں کو بھی اس حقیقت کو سمجھ
جانا چاہیے کہ اس دنیا میں کوئی رہا نہیں ہے ۔اور حقوق العباد کی معافی بھی
نہیں ہے، ان کو اپنے زیر دستوں کا خیال رکھنا چاہیے ،دین اسلام نے مزدورکو
جو حقوق دیے مزدور کے حقو ق کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے
جس میں نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک
ہونے سے پہلے ادا کردو۔مزدور کی مناسب اجرت کیا ہو نی چاہیے ؟ اسلام نے
ساڑھے چودہ سو سال قبل اس کا صحیح حل پیش کر دیا تھا۔ نبی پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا "جو خود کھاؤ ا یسا انہیں کھلاؤ ، جو خود پہنو ویسا ان کو
پہناؤ"
ہاتھ پاؤں یہ بتاتے ہیں کہ مزدور ہوں میں
اور ملبُوس بھی کہتا ہے کہ مجبور ہوں میں
جناب جبار واصف صاحب کا شعرپڑھ کر ایک حدیث نبوی ﷺ یا د آئی ہے ۔ایک مرتبہ
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک شخص سے مصافحہ کرتے وقت اس کے ہاتھوں پر کچھ
نشانات دیکھے ، وجہ پوچھی تو اس نے بتایا روزی کمانے میں محنت مشقت کرنے کی
وجہ سے ، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ چوم لیا۔اﷲ تعالی نے مالکوں
کاریگروں مزدوروں یا محنت کشوں کا منافع میں کتنا حصہ مقرر کیا ہے ،مختصر
یہ کہ منافع کو تمام ملازمیں بشمول چیف ایگزیکٹو کے درمیان ان کی محنت و
مشقت کے معیار اور مقدار کے حساب سے تقسیم کر دیا جائے۔
اﷲ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ـ"اور اﷲ نے تم میں سے بعض کو بعض پر
روزی میں فضیلت دی پھر جنہیں فضیلت دی گئی وہ اپنے حصہ کا مال اپنے غلاموں
( ملازموں ) کو دینے و الے نہیں کہ وہ اِس میں برابر ہو جائیں پھر کیا اﷲ
کی نعمت کا انکار کرتے ہیں " ۔النحل 16-71۔ اپنے منافع میں سے برابر کا حصہ
تو کیا دینا تھا مزدور کی تنخواہ کم از کم بارہ ہزار کے با ر بار اعلانات
تو حکومت کی طرف سے ہوئے مگر بیچارے مزدورکی قسمت میں آج بھی سات ہزار
ماہانہ ہیں بلکہ اس سے بھی کم ہے ،پھر یہ کہ ڈیوٹی کا وقت 10 یا12گھنٹے ہے
،حکومت اعلان تو کر دیتی ہے مگر اپنے کیے ہوئے اعلان پر عمل نہیں کرواتی
،حکومت پاکستان میں کارخانوں ،ملوں ،فیکٹریوں،بھٹوں ،ہوٹلوں ،دکانوں ،
پرائیویٹ سکولوں وغیرہ میں سروے کیوں نہیں کرتی کہ ایک مزدور کو کیا دیہاڑی
مل رہی ہے ،اور اپنے ہی کیے اعلان پر عمل کیوں نہیں کرواتی ۔ محنت کشوں کو
ان کے بنیادی انسانی حقوق کوئی بھی حکومت دینے کو تیار نہیں ہے۔
اب مزدوروں کے حقوق کے لیے بننے والی ٹریڈ یونین چند ایسے چند افراد کی
مٹھی میں ہیں جو حقیقت میں مزدوروں کے حقوق کے غاصب ہیں ، کارخانوں میں
معذور ہو کر بے کار ہو جانے والوں کی تعداد بھی کم نہیں۔اور کم دہاڑی پر
کام کرنے والوں کے ساتھ ساتھ آج بھی 10 یا12گھنٹے کام کرنے والوں کی بھی
کمی نہیں ہے۔پاکستان میں مزدور بھٹہ مزدور ،چھابڑ ی فروش ۔ٹھیلا
والے،ملازمین ،کلرک ،چپڑاسی ۔مالی ،وغیرہ کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور وہ
انتہائی تنگ دستی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔بے شک کہ اس دن پاکستان میں چھٹی
ہوتی ہے لیکن مزدور کو اس دن دیہاڑی بھی نہیں ملتی ۔
یومِ مزدور ہے، چھٹی ہے، مرا فاقہ ہے
پھر بھی یہ دن تو مناؤں گا کہ مزدور ہوں میں
پہلے پہل سب مل جل کر رہتے تھے ،طبقے تب بنے جب طاقت ور نے کمزور کو غلام
بنایا ،جب طاقت ور نے وسائل پر قبضہ کر لیا ۔اور طاقت کے بل بوتے پر کمزور
لوگوں سے جبری مشقت لینے لگے ۔کمزوروں کو بیچا جانے لگا ،ان کی بولیاں
لگتی۔مظلوموں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی ،وقت گزرتا گیا ،اﷲ تعالی اس غلامی
سے نجات کے لیے مظلوموں میں اپنے انبیاء بھیجتا رہا ،سائنس ترقی کرنے لگی
،لوگوں میں شعور آنے لگا ۔ مذاہب بھی آتے رہے محنت کش بغاوت کرتے ،غلامی
ملازمت میں بدلی ،وہ وقت آیا جب یکم مئی 1886 ء کو امریکا کے صنعتی شہر شکا
گو کے محنت کشوں نے اعلان بغاوت کر دیا۔
یہ محنت کش (HAY) مارکیٹ چوک پر جمع تھے ،ان محنت کشوں نے اس وقت کے
حکمرانوں، مل مالکوں، کارخانہ داروں، صنعت کاروں، سرمایہ داروں سے اپنا حق
لینے کے لیے ہڑتال کی تھی اور کہا تھا کہ ہمارے اوقات کار مقرر کرو۔ ہمیں
روزگار دو، ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرو، سرمایہ داروں کو مزدوروں کا یہ
نعرہ پسند نہ آیا ۔ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی ۔ شکاگو کی سڑکوں پر
مزدوروں کا خون بہنے لگا۔اسی دن ایک مزدور نے اپنے مزدور بھائی کے خون میں
اپنی قمیض بھگو کر لہرائی یہ سرخ رنگ بعد میں دنیا بھر کے مزدوروں کا پرچم
قرار پایا ۔ آخر کار حکمرانوں نے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کیے اور اس
طرح آٹھ گھنٹے اوقات کار مقرر ہوئے ۔ یورپ میں اوقات 6 گھنٹے ہو گئے ہیں ۔
ہمارے ملک پاکستان میں 1886ء سے زیادہ مشکلات ہیں۔
سب سے اہم یہ ہے کہ مزدور ں میں اتحاد نہیں ہے ،پاکستان میں جو جماعتیں
سیاسی ،مذہبی ہیں سب ہی مزدوروں کے حق کا نعرہ لگاتی ہیں اور مزدور ان سب
میں تقسیم ہو چکا ہے ۔اس طرح مزدور کی اپنی کوئی پاور نہیں رہی ،یہ کہا جا
سکتا ہے مزدور استعمال ہو رہا ہے ،اس کی وجوہات میں اول تو مہنگائی ، پھر
بے روزگاری کا عفریت ہے ، بیماری ہے ،غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر
سکتا، اس لیے جاہل ہے یعنی جہالت ہے ،مزدور کو اپنے حقوق کا علم ہی نہیں ہے
، اسے یہ بھی علم نہیں کہ جن کے خلاف اسے بغاوت کرنی ہے انہی حکمرانوں،
سرمایہ داروں، فرقہ پرستوں، سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اپنے اپنے مقاصد کی
خاطر مذہبی ،سیاسی ،گروہ ، حتیٰ کہ مزدورو ں کے حقوق کی نام نہاد تنظیمیں
بنا لیں ہیں ۔اس کے علاوہ مزدور سیاسی جماعتوں کے علاوہ مذہب کے نام پر،
فرقہ پرستی کے لیے ، زبان اور قومیت، لسانیت اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم
ہو کر اپنی طاقت کھو رہے ہیں اور اس کا ان کو شعور نہیں ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ
مزدور کی ایوانوں میں سنی نہیں جا رہی ۔اور جیسا کہ لکھا جا چکا ہے ہر
سیاسی و مذہبی پارٹی کے منشور میں مزدوروں کے حقوق کی بات کی گئی ہے ۔اس
لیے آخر میں مجھے کہنا ہے کہ پاکستان کے محنت کشوں کو اپنے مقدر کا فیصلہ
خود کرنا ہو گا ۔کیونکہ بقول جبار واصف ۔
بات سنتا نہیں میری کوئی ایوانوں میں
سب کے منشور میں گو "صاحبِ منشور" ہوں میں |