موت کا ذمہ دار کون؟

ایک ماں باپ کی ہمیشہ یہی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے بچے زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں اور معاشرے میں ایک اچھا مقام حاصل کریں ماں گھر کے ساتھ ساتھ بچوں کی اچھی دیکھ بھال کرتی ہے اور باپ اپنے بچوں کے لیے دن رات انتھک محنت کرتا ہے نہ گرمی دیکھتا ہے نہ سردی دیکھتا ہے نہ ہی بارش دیکھتا ہے باپ کے دل اور دماغ میں اگر کچھ ہوتا ہے تو وہ ہے اپنے بچوں کا اچھا مستقبل جس کے لیے وہ دن رات محنت کرتا ہے نہ اپنی خوشیاں دیکھتا ہے اور نہ ہی اپنی بیماری دیکھتا ہے ہر وقت ہر پل اسے اپنے بچوں کا اچھا مستقبل ہی نظر اتا ہے افسوس کہ جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں اور کچھ بچے اچھی پوسٹ پر چلے جاتے ہیں تو وہی بچے ماں باپ کو ایسے بھولتے ہیں جیسے وہ ان کو جانتے ہی نہیں ہیں ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے گھر کے پاس ہوا صبع کا وقت تھا جب میں ناشتہ لینے گیا تو پتہ چلا کہ چاچا انور نے خودکشی کر لی ہے میں ناشتہ لینا بھول گیا اور چاچا انور کے گھر کی طرف چل دیا جب اس گھر کے پاس پہنچا تو وہاں لوگوں کا کافی رش تھا میں نے کچھ لوگوں سے معلومات لی کہ اخر ہوا کیا ہے کیوں اس بندے نے خودکشی کی ہے تو ایک دوست نے بتایا کہ یہ بندہ کچھ دنوں سے کافی پریشان تھا میری بھی ایک دو بار ملاقات بھی ہوئی تھی اس سے پریشانی کا سبب پوچھا تو اگے سے بس ایک ہی جواب دیتا تھا کہ جب انسان بچوں کے لیے حد سے زیادہ محنت کرتا ہے اور بچوں کی فرمائشوں کو اپنی اوقات سے زیادہ مدنظر رکھتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ اپنی پہنچ سے زیادہ سہولیات فراہم کا بچوں کو نقصان دے بھی ہو سکتا ہے تو پھر ایسے واقعات اکثر اوقات دیکھنے کو ملتے ہیں مگر میں اس کی باتوں کو سمجھ نہیں پاتا تھا پھر میں نے اپنے گھر جا کر یہ بات بتائی کہ چاچا انور کچھ دنوں سے کافی پریشان ہے اور باتیں بھی عجیب عیجب کر رہا ہے جو میری سمجھ سے باہر ہوتی ہے میں ان باتوں کو سمجھ نہیں پاتا یہ کل ہی کی بات ہے میری امی جان ان کے گھر آئی اور چاچا انور کی بیگم سے پتہ کیا کہ کیا ہوا ہے میرے بیٹے نے بتایا ہے کہ بھائی انور کافی پریشان اور بیمار ہے کچھ دنوں سے کیا ہوا ہے پھر چاچا انور کی بیگم نے میری امی جان کو بتایا کہ انور نے اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے دن رات محنت کی اور بچوں کی ہر خواہش اور فرمائش پوری کی کبھی بھی کوئی پریشانی نہ آنے دی بچوں کی زبان سے بات نکلنے سے پہلے بچوں کی ہر فرمائش ہر خواہش پوری کی جیسے کہ آپ کو پتہ ہے ہماری بڑی بیٹی نورین جو کہ ابھی دو سال پہلے ڈاکٹر بنی ہے اس کے لیے انور نے کبھی اپنی کوئی خواہش پوری نہیں کی جب بھی میں بولتی تھی کہ انور اپنی زندگی کے بارے بھی سوچا کروں اپنی صحت کا خیال رکھا کروں تو اگے سے یہی کہتا تھا کہ میرے لیے اپنے بچوں کی تربیت اور خواہشات ہی میری زندگی کا مقصد ہے ان کی خواہش ہی میری خوشی ہے نورین کی شادی کے لیے بھی انور نے کافی کچھ بنایا ہوا ہے انور کو یہ بھی خواہش تھی کہ میں اپنی بیٹی کی شادی بہت دھوم دھام سے کروں گا اپنی بیٹی کی خواہش کے مطابق کروں گا مگر انور یہ بھول چکا تھا کہ جس طرح اس نے بچوں کی ہر خواہش پوری کی ہے بچوں کے دماغ اب اس طرح کے نہیں رہے جیسے انور سوچتا تھا بچے بڑے ہو گئے ہیں ان کی خواہشات وہ نہیں رہی جیسے ہم غریب ماں باپ سوچتے ہیں اور انور کو بھی یہی دکھ تھا جیسے ہی نورین نے میڈیکل کورس مکمل کیا اور ایک ہسپتال میں اسے اچھی نوکری مل گئی کچھ عرصہ تو وہ اپنے باپ کا سہارا بھی بنی رہی مگر ابھی کچھ ماہ سے نورین نے گھر بھی آنا کم کر دیا اور خرچہ بھی دینا بند کر دیا میں بار بار انور سے کہتی رہی کہ بچی جوان ہے اس پر نظر رکھے مگر انور میرے ساتھ ہی جھگڑا کرنا شروع کر دیتا تھا کہ نورین بڑی ہو گئی ہے اس کی اپنی بھی کچھ ضروریات ہے پھر نورین نے کئی کئی دن گھر سے باہر رہنا بھی شروع کر دیا جب بھی کبھی آتی تو ہم پوچھتے کہ گھر کیوں نہیں اتی تو جھوٹ بولتی کہ کام کی مصروفیات زیادہ ہوتی ہے اس لیے میں ہسپتال میں ہی ایک کمرہ لیا ہے وہاں ہی رہتی ہوں ابھی کچھ دن پہلے جب نورین گھر آئی تو کچھ پریشان تھی ہمارے بار بار پوچھنے پر نورین نے کچھ نہیں بتایا شام کا وقت تھا جب نورین کی طبعیت خراب ہو گئی تو ہم اسے لے کر یہ ساتھ والے ہسپتال لے گئے جب ڈاکٹروں نے نے بتایا کہ مبارک ہو آپ کی بیٹی ماں بننے والی ہے تو ہمارے تو پاؤں سے جیسے زمین ہی نکل گئی ہو ہسپتال میں ہم لوگ تماشہ لگاتے اس سے بہتر ہم نے سمجھا کہ نورین سے گھر جا کر بات کرتے ہیں گھر پہنچ کر جب ساری بات نورین کو بتائی کہ ڈاکٹروں نے یہ کہا ہے پہلے تو نورین خاموش رہی ہمارے باربار پوچھنے پر نورین نے بڑے غصے سے جواب دیا کہ اپ لوگوں نے میرے لیے آج تک کیا ہی کیا ہے مجھے جو بہتر لگا میں نے وہ کیا اپنے اچھے مستقبل کے لیے اپنی اچھی زندگی کے لیے میں نے نکاح کر لیا ہے آپ کو مناسب وقت پر بتانا چاہتی تھی مگر نہیں بتا سکی جس کے لیے میں آپ لوگوں سے شرمندہ ہوں اور پھر نورین خاموش ہو گئی دوسری طرف انور کو پتہ نہیں کیا ہو گیا بس اتنا ہی بول پایا کہ میں نے آج تک تمھارے لیے کیا نہیں کیا میری عزت مٹی میں ملا دی ہے تم نے میں کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہا اس سے زیادہ ایک الفاظ بھی اپنی زبان سے نہیں نکلا اور اپنے کمرے میں چلا گیا دو دن تک نہ کچھ کھایا اور نہ ہی کوئی بات کی۔ابھی ایک دو دن سے باہر نکل جاتا ہے اور کچھ دیر بعد واپس آ جاتا ہے اتنے میں میری امی جان نے پوچھا کہ نورین بیٹی کہاں ہے نظر نہیں آ رہی تو چاچا انور کی بیگم نے کہا کہ وہ ہسپتال چلی گئی ہے ابھی کوئی رابطہ بھی نہیں کر رہی نورین تو کم از کم باپ سے معافی ہی مانگ لے آ کر مگر آج کل کے بچوں کو اتنی عقل کہاں ہوتی ہے کہ کوئی ہمارا بڑا بھی ہے سر پر اتنے میں میری امی جان نے کہا اﷲ تعالیٰ سب بچوں کو ہدایت دے اتنی بات کرکے امی جان واپس اپنے گھر آ گئی اور اگلے ہی دن یہ بری خبر ملی کہ چاچا انور نے پنکھے کے ساتھ رسی ڈال کر پھندا لے لیا افسوس کی بات یہ ہے کہ انور تو اب چلا گیا اس دنیا سے مگر وہ بیٹی جس کے لیے انور نے دن رات محنت کی وہ بیٹی باپ کو اخری بار دیکھنے بھی نہیں آئی نورین کو اتنا بھی احساس نہیں رہا کہ وہ باپ جس نے دن رات ایک کرکے نورین کو ڈاکٹر بنایا اچھی تعلیم دی اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا اب وہ باپ دوبارہ کبھی نہیں آئے گا اسے ایک بار تو دیکھ لیتی مگر نورین باپ کو دیکھنے کے لیے بھی نہیں آئی-

Zakeer Ahmed Bhatti
About the Author: Zakeer Ahmed Bhatti Read More Articles by Zakeer Ahmed Bhatti: 23 Articles with 15466 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.