مزدور کا حق تقریر سے؟

دیگربرسوں کی طرح آج ایک مرتبہ پھریومِ مزدورمنایاجارہاہے اس دن کی مناسبت سے روایتی طورپرجلسے جلوس منعقدکئے جائینگے تقریبات کاانعقادکیاجائیگااورحسبِ معمول تقاریرہونگیں جن میں شکاگوکے مزدوروں کوخراجِ تحسین سمیت وطن عزیزمیں مزدورکوحاصل ’’مراعات‘‘پرروشنی ڈالی جائیگی یہ سب ہم عشروں سے دیکھ اورسن رہے ہیں مگراس کاکوئی فیض آج تک مزدورکونہ مل سکاویسے تومزدوردنیابھرمیں جہاں سرمایہ دارانہ نظام موجودہے وہاں استحصال کاشکارہے مگرممکت خدادادمیں مزدورکیساتھ جوظلم روارکھاجارہاہے ٹھنڈے کمروں اوراے سی ہالزمیں بیٹھ کراس کااندازہ لگاناممکن نہیں ہمارے ہاں سال میں ایک مرتبہ یعنی آج کے دن شکاگوکے مزدوروں کواس حوالے سے ضروریادرکھاجاتاہے کہ انکی قربانیوں سے مزدورسے کام لینے کے اوقات مقررہوئے ورنہ تواس سے پہلے مزدورکوانسان والے حقوق بھی دستیاب نہیں تھے اسکے ساتھ جانورسے بدترسلوک روارکھاجاتاتھااس سے زیادہ کام لیکر کم اجرت دی جاتی تھی مگرکبھی کسی حکمران ، وزیریامزدوروں کے حقوق کے چیمپئین کسی ممبرپارلیمنٹ نے آج تک یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اس دورِ جدیدمیں بھی پاکستان کامزدورکئی حوالوں سے استحصال کی چکی میں پس رہاہے بات اگرکی جائے کارخانوں کی تواس ملک کے ان گنت کارخانے مزدورسے بارہ گھنٹے کام لیتے ہیں ،انہیں کسی قسم کی طبی سہولیات حاصل نہیں ، ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ، اسے انسان سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی اورسب سے بڑھکریہ کہ اسے حکومت کی جانب سے مقررکردہ معاوضہ بروقت مہیانہیں کیاجارہاخیبرپختونخواجہاں تحریک انصاف کی حکومت کوچھ برس ہونے کوہیں یہاں اکثرانڈسٹریل اسٹیٹس میں مزدورکااستحصال دھڑلے سے جاری ہے حکومت نے جومزدورکی اجرت سولہ ہزارروپے مقررکی ہے یہاں لاکھوں مزدوراس سے محروم ہیں یہاں کام کے دوران مزدورکوسیفٹی فراہم کرنے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی اوراکثرنام نہادصنعتی یونٹس میں مزدورکی اجرت چھ سے آٹھ ہزاردی جارہی ہے ، ڈیوٹی بارہ گھنٹے لی جارہی ہے آنے جانے کے دوگھنٹے بھی شامل ہوں توچودہ گھنٹے کام یا’’بیگار’’ لیاجارہاہے تنخواہ حکومت کی مقررکردہ حدسے آدھی دی جارہی ہے یہ توہے صنعتی مزدورکی زبوں حالی ،ریڑھی لگانے والے مزدورسے ریڑھی چھینی جارہی ہے ، رکشہ چلانے والے مزدورکے اتحصال کیلئے ٹریفک پولیس کاایک سپاہی کافی ہے ،ہوٹلوں ، دوکانوں اورورکشاپوں کے مزدورکاکوئی پرسانِ حال نہیں ’’لیبرانسپکٹر‘‘ ہرمہینے آکرگرم جیب کیساتھ رخصت ہوجاتاہے اورریاست کی ذمے داری پوری ہوجاتی ہے آج جوحکومتی زعماء منہ سے جھاگ اڑاکر’’ مزدورکے حقوق کاتحفظ کریں گے‘‘ مزدورریاست کاستون ہے‘‘ مزدورکے خون پسینے سے ملک کاپہیہ چلتاہے ‘‘ مزدورکواسکے حق سے زیادہ دیر محروم نہیں رکھاجاسکتا‘‘ جیسے خوش کن نعرے لگارہے ہیں آج کے دن اخبارات کی سرخیاں یہی بیانات ہونگے نیوزچینلزکی ہیڈلائنزاوربریکنگ نیوزمزدورسے شروع ہوکرمزدورپرختم ہونگیں مگریہ سب صرف آج دن کیلئے ہے یکم مئی کے بعدمزدورجیتاہے یامرتاہے ،اس کاپیٹ بھراہے یابھوکاہے ،تن کپڑے سے عاری ہے یاڈھانپاہواہے اس سے کسی لیڈر ، وزیریاراہنماکوکوئی سروکارنہیں کسی نیوز چینل کی بریکنگ نیوزغریب مزدورکے مسائل ہوہی نہیں سکتے یہ ساراایونٹ صرف آج دن کیلئے مخصوص ہے آج سے پہلے بھی مزدورکاخون نچوڑنامعیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی آج کے بعد دوبارہ وہی سلسلہ شروع ہوجائیگاکسی حکومت کومزدورکے حقوق کاخیال نہیں کسی سیاسی راہنماکے پیش نظرمزدورکے حالات نہیں مزدورکے نام پرمتعددادارے صرف نام کی حدتک فعال ہیں مزدورکے نام پہ وزارتِ محنت کابجٹ نجانے کن تندوروں کی خوراک بن جاتی ہے ،مزدورکانام لے لے کریکم مئی کوسیاسی دکانیں چمکائی جاتی ہیں مگرعملی طورپرکچھ نہیں ہوتاآج چونکہ اس ملک میں تبدیلی کی علمبردارحکومت موجودہے یہ حکومت کسی اورشعبے میں تبدیلی لائے یانہ لائے کم ازکم مزدورکے حقوق کاخیال ضروررکھے چھوٹے بڑے کارخانوں کوپابندکیاجائے کہ وہ مزدورسے آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی لے اسے حکومت کی جانب سے مقررکردہ معاوضے کی فراہمی یقینی بنائی جائے ٹریفک پولیس کی جرمانوں والی بک چیک کی جائے توپچانوے فیصدجرمانے رکشہ ڈرائیوروں سے وصول ہوتے ہیں میونسپل کمیٹی کاریکارڈچیک کیاجائے تواس کاکام محض مزدورکی ریڑھی اٹھاکردفترپہنچانااوراسکی مزدوری سمیت روزی روٹی کاذریعہ چھیننا رہ گیاہے مزدورکی عزت نفس ریاست ہی کے ہاتھوں مجروح ہورہی ہے مگرحکومتی زعماء تقریروں سے کام چلالیتے ہیں ان روایتی خالی خولی نعروں اورتقریروں سے مزدورکاپیٹ نہیں بھرتامزدورکوبھی ریاست کاشہری تسلیم کرکے اسے وہی حقوق دئے جائیں جسکے دعوے آج کی تقریروں میں ہونگے مہنگائی کے بے قابو جن کے آگے مزدوربے بس ہے پورے مہینے کی خون پسینے کی کمائی صرف بجلی یاگیس کابل ڈکارجاتی ہے حکومت کواس جانب سنجیدہ توجہ دینی ہوگی اب پندرہ ہزارسے بات کافی آگے نکل چکی ہے حکومت کومزدورکی اجرت پچیس ہزارروپے کرنی ہوگی اورتمام اداروں کواس بات کاپابندبناناہوگاکہ وہ اپنے ہاں کام کرنے والے ہرمزدورکوحکومت کی مقررکردہ اجرت کیمطابق معاوضہ فراہم کرے ،اس سے زیادہ ڈیوٹی لینے والوں پربھاری جرمانے عائدکئے جائیں اوریہ جرمانے مزدوروں میں تقسیم کرنے کاقابل عمل اورشفاف نظام وضع کیاجائے سوشل ویلفئراوروزارتِ محنت میں ایماندارلوگ لائے جائیں جنہیں خداکاخوف ہو ،جوخودکومزدورکی جگہ رکھ کرسوچیں اورجن کی حریصانہ نظرمزدورکی جیب پرنہ ہوکسی بھی ریاستی مشینری یاپرزے کومزدورکے استحصال کی اجازت نہ دی جائے اس قسم کی قبیح فعل کاارتکاب کرنے والوں کوکڑی سے کڑی سزادی جائے ریاست مزدورکے حوالے سے اپنی ذمے داریوں کومحسوس کرے حکومت اوراسکے زعماء بیانات اورپریس ٹاکس کی بجائے مزدورکے انسانی حقوق کیلئے نظرآنے والے اقدامات اٹھائے مزدورکواس کاحق تقریروں سے نہیں عملی اقدامات سے مل سکتاہے ۔

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 57967 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.