تحریر۔۔۔ ڈاکٹربی اے خرم
پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور مزاحیہ اداکارمنور ظریف نے اپنے فلمی کیریئر
کا آغاز 1961ء میں فلم ’’ڈنڈیاں‘‘ سے کیاابتدا میں انہیں چھوٹے موٹے رول
ملے یہ وہ دور تھا جب فلم نگر میں نرالا،سلطان کھوسٹ، ایم اسماعیل، زلفی ،
خلیفہ نذیر اور دلجیت مرزا جیسے کامیڈین اداکاروں کا طوطی بولتا تھاان
کامیڈین کی موجودگی میں کسی بھی نئے کامیڈین کو اپنی الگ پہچان بنانے کے
لئے سخت محنت درکار تھی منور ظریف میں خداداد صلاحیت یہ تھی کہ یہ ہر کردار
میں خوب ڈھل جاتے تھے ان کی منفرد مزاحیہ اداکاری اور مخصوص لب و لہجہ نے
فلم نگر میں قدم جمانے کے مواقع پیدا کئے جگت بازی ، بذلہ سنجی ، حاضر
دماغی اور برجستگی ، پھرتی اور تیز طراری الغرض مزاحیہ اداکاری جملہ اصناف
میں منور ظریف اپنی مثال آپ تھے۔ شائقین فلم اورپرستاروں نے انہیں شہنشاہ
ظرافت کے نام سے یاد رکھااپنے سولہ سالہ فلمی کیرئیرمیں تین سوسے زائد
اردواور پنجابی فلموں میں مختلف نوعیت کے رول پلے کئے ااور خوب جوہر دکھائے
70 کے قریب اردو فلموں میں کام کیا انہیں بہترین کردار نگاری پہ تین
نگارایوارڈ بھی ملے
پاکستان فلم انڈسٹری میں یوں تو،ایم اسماعیل،عرفان کھوسٹ،زلفی،نرالا،خلیفہ
نذیر،دلجیت مرزا،رنگیلا،لہری ،علی اعجاز،ننھا و دیگر کامیڈین اداکاروں نے
شائقین فلم کو خوب ہنسایا اور نام بھی کمایا لیکن جوشہرت اور مقبولیت
کامیڈی اداکار منورظریف کے حصہ میں آئی وہ دیگر کسی بھی کامیڈین اداکار کے
حصہ میں نہ آسکی ناظرین انہیں پردہ سکرین پہ دیکھتے ہی ہنسی سے لوٹ پوٹ
ہوجاتے ہیں مرحوم منور ظریف کے والدمحترم ایک سرکاری آفیسر تھے ان کے بڑے
بھائی ظریف بھی اداکار تھے بھائی ظریف جوانی ہی انتقال کر گئے اپنے بڑے
بھائی کی وفات کے بعد انہوں نے فلم نگر کا رخ کیا اور خوب نام کمایا منور
ظریف نے 2 فروری 1940ء کو گوجرانوالا کی ایک رحمانی فیملی میں آنکھ کھولی
محمد منوران کا اصل نام تھاان سے ایک بڑا اور دو چھوٹے بھائی تھے۔ان کے بڑے
بھائی ظریف نے قیام پاکستان کے بعد کی فلموں میں اداکاری کی۔چھوٹے دو
بھائیوں مجید ظریف اور رشید ظریف نے بھی فلموں میں کام کیالیکن فلم انڈسٹری
میں اپنا مقام نہ بنا سکے ان کی شادی تحصیل کامونکی میں رشتہ داروں کے ہاں
خاندانی رضامندی سے سرانجام پائی منور ظریف کے بیٹے فیصل منور ظریف 90ء کے
عشرے میں دو فلموں ’’پتر منور ظریف دا‘‘ اور ’’پتر جیڑے بلیڈ دا‘‘ میں بطور
ہیرو آئے لیکن کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکی اور گمنامی کے گھٹا ٹوپ
اندھیروں میں کھو گئے-
منور ظریف کی پنجابی فلم ’’ ہتھ جوڑی ‘‘ جو 1964میں ریلیز ہوئی اس فلم سے
انہیں صف اول کے اداکاروں کی فہرست میں لاکھڑا کیاان کی ہرسال کم وبیش بیس
فلمیں نمائش کے لئے پیش ہوتی تھی جو ان کی بے پناہ مقبولیت اور مصروفیت کا
منہ بولتا ثبوت ہے۔ان کی کامیڈین رنگیلا کے ساتھ جوڑی بہت مقبول ہوئی ان کی
جوڑی فلموں میں کامیابی کی ضمانت بن گئی ان دونوں فنکاروں کی کامیاب ترین
مزاحیہ جوڑیوں میں سے ایک سمجھی جاتی تھی پنجابی فلم ’’ ہتھ جوڑی ‘‘ دونوں
کی ایک کامیاب فلم تھی1972ء تک منور ظریف پاک فلم انڈسٹری میں اپنا ایک
ممتاز مقام بنا چکے تھے 1973ء ان کے فلمی کیرئیر کا ایک نہ بھولنے والا سال
ثابت ہوا اس سال منور ظریف ہدایت کارشباب کیرانوی کی اردو فلم ’’پردے میں
رہنے دو‘‘ رنگیلا کے ساتھ جلوہ گرہوئے اور زبردست کامیابی حاصل کی اسی
پیٹرن پرایک اور اردو فلم ’’رنگیلا اور منورظریف‘‘ بنی جس کے ہدایت کار
نذرشباب تھے جو باکس آفس پر ایک اور کامیاب ترین فلم تھی یہ بھی واضح رہے
کہ رنگیلا کے بعد منور ظریف پاکستان کے دوسرے ایسے فنکار تھے جن کے نام پر
کوئی فلم بنائی گئی تھی پنجابی فلم ’’اج دا مہینوال‘‘ میں پہلی مرتبہ بطور
ٹائٹل رول اور ہیرو جلوہ گر ہوئے یہ فلم بھی اسی سال ریلیز ہوئی تھی جس میں
ان کی ہیروئن عالیہ تھی لیکن یہ فلم کامیاب نہ ہو سکی جب کہ اسی سال پنجابی
فلم ’’بنارسی ٹھگ‘‘ نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا’’اکھ لڑے
بدوبدی۔۔۔موقع ملے کدی کدی۔۔۔ کل نئیں کسے نے ویکھی مزہ لئے اج دا ‘‘ایک
مقبول ترین نغمہ تھایہ سال ان کی کامیابیوں کے دروازے کھولتا گیا پنجابی
فلمیں ’’خوشیا‘‘ اور ’’جیرا بلیڈ‘‘میں بھی بطور ٹائٹل رول اور ہیرو آئے یہ
کامیاب فلمیں سمجھی جاتی ہیں کہا جاتا ہے کہ ’’خوشیا‘‘ایک ایسی فلم تھی جو
ان کی حقیقی زندگی کی عکاسی کرتی ہے’’نوکر ووہٹی دا‘‘1974ء میں ریلیز ہونے
والی ان کے کریڈٹ پہ ایک بڑی فلم ثابت ہوئی اس فلم میں ان کے ساتھ آسیہ اور
ممتاز تھی فلم کی ہیروئن آسیہ تھی اس فلم کے گیت’’چپ کر دڑ وٹ جا نہ عشق دا
کھول خلاصہ‘‘ اور ’’زندگی تماشا بنی‘‘ آج بھی مقبول ہیں 1975ء میں فلم
’’جانو کپتی‘‘ ریلیز ہوئی اس میں آسیہ سے ان کا رقص کا مقابلہ بھی ہوا تھا
ان پر روبینہ بدر ، افشاں ، ناہید اختر اور مہناز کے گیت بھی نسوانی رول کی
بنا پہ فلمائے گئے منور ظریف پر زیادہ تر مسعود رانا کے گائے ہوئے گانے
فلمائے گئے سڈول جسم ہونے کی وجہ سے وہ اچھا ڈانس کرلیتے تھے گانوں کو
خوبصورت انداز میں پکچرائز کرایاخواتین کا گیٹ اپ کرنے میں ان کا کوئی ثانی
نہیں تھا36 سال کی عمر میں ان کا انتقال 29اپریل 1976ء کو لاہور میں ہوا
اور میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں انہوں نے ملک کے صف اول کے
فنکاروں اکمل،اعجاز،یوسف خاں،وحید مراد،ندیم ،شاہد،حبیب،سلطان راہی،مظہر
شاہ،اقبال حسن،اسلم پرویز، آسیہ، ممتاز، سنگیتا، نشو،
نیلو،عالیہ،صاعقہ،فردوس،نغمہ اور دیگر کے ساتھ کام کیاان کی مشہور فلموں
میں بنارسی ٹھگ ، جیرا بلیڈ ، موج میلہ، شوکن میلے دی ،نمک حرام،پیار کا
موسم ،منجھی کتھے ڈھواں،شوکن میلے دی،شیدا پستول،حکم دا غلام ،گاما بی
اے،استاد شاگرد،میراناں پاٹے خاں،بہارو پھول برساؤ، دامن اورچنگاری، چکر
باز، ہمراہی،دیا اور طوفان،ہسدے آؤ ہسدے جاؤ، بدتمیز، نوکر ووہٹی دا
اوردیگر شامل ہیں۔
|