ریڈ کراس کیسے وجود میں آئی؟

انسانیت کی خدمت میں ہمہ تن مصروف عالمی رفاہی تنظیم کی تشکیل کی داستانِ جہد

تحریر :میر بابر مشتاق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انتخاب و پیشکش :محمد اسلم لودھی
جب بھی بنی نوع انسان کو خطرات آن گھیریں تو ریڈ کراس فعال ہو کر انسان کی خدمت میں مصروف ہو جاتی ہے یہ نہ صرف زخمی سپاہ بلکہ مصائب کے شکار شہریوں کے لیے بھی باعثِ رحمت ثابت ہوتی ہے۔ یہ جنگی قیدیوں کی خبر گیری کے ساتھ ساتھ تبادلوں میں بھی اپنا کردار سرانجام دیتی ہے۔ زمانۂ امن میں بھی اس کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں اگر خدانخواستہ کوئی سانحہ پیش آئے یا کوئی قدرتی آفت برپا ہو تو ریڈ کراس فوراً موقع پر پہنچتی ہے اور اپنی کارروائی میں مصروف ہو جاتی ہے۔ کئی ایک لحاظ سے ریڈ کراس ہماری روزمرہ زندگیوں کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ کئی ایک مقامات پر اس کے دفاتر قائم ہیں جو ہماری مصروف تین سڑکوں پر حادثات سے نمٹتے ہیں اس کے علاوہ یہ ابتدائی طبی امداد کی تربیت بھی فراہم کرتی ہے۔
ریڈ کراس کا خیال سوئٹرز لینڈ کے ایک قابل ڈاکٹر کے ذہن میں اُبھرا تھا۔ اس کا نام جین ہنری ڈونانٹ تھا اس نے 1828ء میں جنیوا میں جنم لیا تھا‘ بچپن ہی سے اس کے سر پر ڈاکٹر بننے کا بُھوت سوار تھا۔ اس کے والدین کو بھی یہ توقع تھی کہ ان کا بیٹا دنیا میں بہت نام کمائے گا اور ازحد ترقی کرے گا جب وہ جین ہنری سے اس کے مستقبل کے بارے میں سوال کرتے تھے تو اس کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا کہ وہ سکول کی تعلیم ختم کرنے کے بعد طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اس نے اپنے وضع کردہ منصوبے پر عمل درآمد ممکن بنایا۔ جامعہ کے اساتذہ کی رائے کے مطابق یہ نوجوان غیرمعمولی صلاحیتوں کا حامل تھا لہٰذا جب وہ آخری سال میں پہنچا تب یہ پیش گوئیاں کی جانے لگیں کہ وہ طب کے کسی پیشے میں خصوصی تعلیم حاصل کرے گا یا نہیں۔ گریجوایشن کی تقریب میں اسے کئی ایک انعامات سے نوازا گیا اس کے باپ کی بھی خواہش تھی کہ وہ طب کے کسی خاصے شعبے میں خصوصی مہارت حاصل کرتے ہوئے ایک قابلِ ذکر ماہر طب کہلائے جس کے لیے سوئٹزرلینڈ مشہور تھا۔ اسے مزید تعلیم کے حصول کے لیے رقم کا کوئی مسئلہ درپیش نہ تھا کیونکہ اس کا باپ اس کے تعلیمی اخراجات بخوبی برداشت کر سکتا تھا لہٰذا اس نے جین ہنری کو یہ پیش کش کی کہ وہ مزید تعلیم جاری رکھ سکتا ہے۔
لیکن جین ہنری نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کی بجائے ہسپتال میں فاضل تجربہ حاصل کرے گا اور دیگر گریجوایٹس کی نسبت زیادہ عرصے تک ہسپتال میں وقت گزارے گا…… وہ عمومی معالج بننے کا خواہاں تھا اس کا خیال تھا کہ ڈاکٹر کی حقیقی ذمہ داری غریبوں اور ضرورت مندوں اور ان لوگوں کی مددکرنا تھا جو جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار تھے اور اپنی مدد آپ کے قابل نہ تھے۔
اس کا باپ اس کے رویے سے خوش نہ تھا‘ وہ ایک کاروباری شخص تھا اور اسے اس بات سے شدید دُکھ پہنچا تھا کہ اس کے بیٹے نے اس کی فراخ دِلانہ پیشکش مسترد کر دی تھی اس نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’مسئلہ یہ ہے کہ جین ہنری زندگی کو اپنے مخصوص نظریئے کے تحت دیکھتا ہے۔‘‘
اس کی بیوی نے آہستگی سے جواب دیا:
’’ہاں! ہنیرچ پسٹالوزی کی طرح‘‘
پسٹالوزی زیورخ کا ایک مشہور ماہر تعلیم ہو گزرا تھا جس نے اپنی زندگی اسے سکول کھولنے کے لیے وقف کر رکھی تھی جس میں بچے اس کے مخصوص طرزِ تعلیم سے مستفید ہوتے تھے۔
لہٰذا جین ہنری کے باپ نے اسے طب کے شعبے میں خصوصی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہ کیا۔ جین ہنری نے ہسپتال میں تجربہ حاصل کرنے کے بعد طبی پیشے کی عمل مشق شروع کر دی لیکن جلد ہی اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ جنیوا ایک خوش حال شہر تھا اور چونکہ اہلِ سوئٹرز لینڈ صاف ستھرے اور صفائی پسند لوگ تھے جو صفائی ستھرائی اور حفظانِ صحت کی اصولوں پر قرار واقعی توجہ دیتے تھے۔ جین ہنری جس طرح کا کام سرانجام دینے کے خواب دیکھتا تھا وہ یہاں موجود نہ تھا…… لہٰذا وہ سرحد پار کرتے ہوئے اٹلی جا پہنچا اور اس کے قصبے سولفی رینو میں آباد ہو گیا۔
یہاں کے مکان چھوٹے چھوٹے تھے اور یہ گنجان آباد علاقہ تھا نیز لوگ انتہائی مشکل حالات میں گزر بسر کرتے تھے ایسی صورت میں بیماریاں بکثرت تھیں۔ تیس برس کی عمر میں وہ دن میں چودہ یا پندرہ گھنٹے کام کرتا تھا اس کے مریض اس سے محبت کرتے اور مقامی حکام اس سے نفرت کرتے تھے۔ وہ اسے ایک ایسا غیرملکی تصور کرتے تھے جو مداخلت بے جا کا مرتکب ہو رہا تھا۔ اس کی موجودگی کا واضح مطلب تھا کہ انہوں نے اپنے شہریوں کو نظراننداز کر رکھا تھا ار ان کی فلاح و بہبود سے غافل تھے لیکن وہ بھی اپنی دُھن کا پکا تھا‘ حکام کے احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے کام میں مشغول رہا۔ اسے اٹلی کے کئی ڈاکٹروں کا تعاون بھی حاصل تھا جو اس کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے‘ وہ اس کی صاف گوئی اور بے باکی سے بھی ازحد متاثر تھے۔
1858ء میں فرانس کے نپولین سوم نے اٹلی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ اٹلی سے آسٹریا کی قوت کے تمام نشانات حرف غلط کی طرح مٹا دیئے جائیں۔ نپولین جو اس غلط فہمی کا شکار تھا کہ اسے فوجی دانش وری اپنے چچا سے وراثت میں ملی تھی…… اس نے ایک پیچیدہ منصوبہ ترتیب دیا جس کے تحت اس نے اٹلی کے راستے اپنی فوج کو شمال کی جانب لے جانا تھا۔ 1859ء میں جس وقت وہ ماجنیٹا اور سلفرینو پہنچے تب فرانسیسی اپنی فوج کو مکمل تباہی سے بچانے کی خاطر انتہائی مایوسی کے عالم میں کوشاں تھے جس کے نتیجے میں سلفرینو کی لڑائی کسی المیے سے کم ثابت نہ ہوئی اس لڑائی کی وجہ سے شہری آبادی ناقابلِ بیان مصائب کا شکار ہوئی۔
اس دوران جین ہنری ڈونانٹ اَن تھک خدمات سرانجام دیتا رہا حتیٰ کہ جب لڑائی اپنے جوبن پر تھی اس وقت بھی وہ میدانِ جنگ کی طرف روانہ ہو جاتا تھا اور کسی خطرے کی پروا نہ کرتا تھا…… وہ زخمیوں کی تیمارداری کرتا تھا اور انہیں علاج معالجے کی غرض سے محفوظ مقامات تک پہنچاتا۔ اتنی کثیر تعداد میں لوگ اس کی توجہ کے مستحق تھے کہ اس کے لیے سب کی مدد کرنا ممکن نہ تھا کہ جنگ کے اختتام پر زخمیوں کی چیخ و پکار ہر سمت سنائی دیتی تھی۔
ڈونانٹ دن رات خدمات سرانجام دے رہا تھا اس کے ہمراہ کچھ رضاکار بھی تھے‘ وہ لوگ اپنے رہنماؤں کو کوس رہے تھے جنہوں نے اپنی سپاہ کو کسمپرسی کے عالم میں مرنے کے لیے چھوڑ رکھا تھا۔
اگلے ہفتے ڈونانٹ نے چوبیس گھنٹے خدمات سرانجام دیں۔
وہ محض کھانا کھانے کے لیے کچھ وقت نکالتا یا پھر اونگھنے کے لیے اس نے اپنا وقت تقسیم کر رکھا تھا جن کے لیے وہ خصوصی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا تھا اس نے علاقے کے تمام طبی ماہرین سے مدد کی درخواست کی اور اس طرح اسے مزید طبی ماہرین میسر ہو گئے جو اس کے ہمراہ خدمتِ خلق میں مصروف ہو گئے۔
اس وقت تک وہ اخباری نمائندوں کی نگاہوں میں بھی آ چکا تھا اور جلد ہی تمام یورپ کے اخبارات میں سولفرینو کے مصائب زدہ افراد کے بارے میں مضامین شائع ہونے لگے۔ مقامی حکام اس دن کو کوس رہے تھے جس دن سوئٹزرلینڈ کے اس ڈاکٹر نے ان کے قصبے میں قدم رکھا تھا لیکن وہ اس کی شخصیت‘ مقبولیت اور شہرت کے ہاتھوں شکست کھانے پر مجبور تھے لہٰذا میونسپل کونسل نے عارضی ہسپتال قائم کر دیئے تھے نیز بے گھروں کو آباد کرنے کی غرض سے رقم بھی مہیا کر دی گئی تھی‘ مکانات کی تعمیرنو کا بھی آغاز ہو چکا تھا اور چھ ماہ کے اندر اندر سولفرینو کی زندگی معمول پر آ گئی بہت جلد جنگ کی تباہ کاریاں بُھلا دی گئیں اور اب کسی کے پاس اٹلی کے اس قصبے کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہ تھی۔ محض ڈونانٹ ایسا تھا جس کے ذہن میں یہ واقعہ ثبت ہو گیا تھا۔
وہ لڑائی کی ہولناکی بُھول پایا تھا‘ نہ ہی اپنی اَن تھک محنت۔ وہ چاہتا تھا کہ ایسے حالات دوبارہ جنم نہ لیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ایک شخص…… ایک واحد شخص کس طرح ایسے واقعات رونما ہونے سے روکنے پر قادر ہو سکتا تھا۔
1862ء میں جنیوا میں ایک کتابچہ شائع ہوا تھا اس کتابچے کا مصنف جین ہنری ڈونانٹ تھا اس کا عنوان ’’ان سوینیئر ڈی سولفرینو‘‘ تھا اس کتابچے میں ان زخمی افراد کے مصائب کی داستان بیان کی گئی تھی جن کو میدانِ جنگ میں سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا اور انہیں طبی امداد فراہم کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں گیا تھا اس کتابچے میں جنگ کی ہولناکیاں اور تباہ کاریاں بیان کرنے کے علاوہ شہری آبادی پر اس کے بداثرات کا جائزہ بھی پیش کیا گیا تھا۔ مصنف نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ایسی مستقل تنظیمیں قائم کی جانی چاہئیں جو زخمیوں کی نگہداشت کریں اور یہ تجویز بھی پیش کی گئی تھی کہ اس کارِخیر کے لیے رضاکاروں کی خدمات حاصل کی جائیں۔ مصنف نے یہ ذکر بھی کیا تھا کہ اسے یقین تھا کہ وہ ایسی تنظیموں کے قیام کو اپنی زندگی میں دیکھ سکے گا۔
ڈونانٹ کی اس تحریر کا خاطرخواہ نتیجہ نکلا اور اس نے لوگوں کو ازحد متاثر کیا۔ یہ کتابچہ اس قدر کثیر تعداد میں فروخت ہوا کہ ڈونانٹ نہ صرف حیران بلکہ لوگوں کا شکرگزار بھی ہوا۔ اب یہ موضوع جنیوا کا ایک اہم موضوع بن چکا تھا…… جنیوا ایک ایسا شہر تھا جو مفادِ عامہ کے جلسوں کے لیے مشہور تھا اس کے بعد ڈونانٹ کو ایک یہ اعزاز بخشا گیا کہ ایک بین الاقوامی تنظیم کے صدر ایم گیسٹو مونیٹر نے ڈونانٹ کو دعوت دی کہ وہ تنظیم کے آئندہ منعقد ہونے والے اجلاس میں شرکت کرے اور اپنے خیالات اس کے اراکین پر واضح کرے کیونکہ تنظیم کا صدر ڈونانٹ کی پیش کردہ تجاویز سے ازحد متاثر ہوا تھا۔
یہ اجلاس ڈونانٹ کی زندگی میں سنگِ میل ثابت ہوا اس نے اپنے خیالات کا اظہار خوب صورت انداز میں کیا اور سولفرینو کے المیے کو بھی بیان کیا کہ تنظیم کے ارکان ازحد متاثر ہوئے اور انہوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ فوری طور پر ایک بااختیار ادارہ قائم کیا جائے گا جو اس امر کا مطالعہ کرے کہ جنگ کے دوران زخمی ہونے والے افراد کی حالتِ زار کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے اس بااختیار ادارے کے لیے مندرجہ ذیل ارکان کا انتخاب کیا گیا:
٭…… جنرل ڈیوفور…… کمانڈر انچیف سوئٹزرلینڈ افواج
٭…… گیسٹو مونیئر
٭…… ڈاکٹر جین ہنری ڈونانٹ
٭…… ڈاکٹر لوئس اپیا
٭…… ڈاکٹر تھیوڈورمنور
اس بااختیار ادارے کا بنیادی کام یہ تھا کہ وہ ایک ایسے معاہدے کا مسودہ تیار کرے جو قومی کمیٹیوں کی تشکیل کی بابت ہو اور ’آرمی میڈیکل سروس‘ کے تعاون کریں۔ نیز اس کام کی سرانجام دہی کے لیے رضاکار گروپ تشکیل دے اور انہیں تربیت فراہم کرے اس بااختیار ادارے کے انفرادی اراکین نے دیگر ممالک کے دورے کیے تاکہ انہیں اپنے مقصد سے آگاہ کر سکیں اور 1863ء کے موسمِ خزاں میں انہوں نے جنیوا میں ایک بین الاقوامی اجلاس طلب کیا جس اجلاس میں 36 ماہرین اور مختلف حکومتوں کے وفود بھی شامل تھے اس اجلاس کے دوران ریڈ کراس کے بنیادی اصولوں پر اتفاقِ رائے ہوا اور کمیٹیوں کو یہ ہدایات دی گئیں کہ وہ اپنی تمام تر توانائی دیگر ممالک کو اس امر پر قائل کرنے میں مصروف کریں کہ وہ ایسی قومی تنظیمیں تشکیل دیں جو ریڈکراس کی تحریک کے لیے تقویت کا باعث ہوں۔
یہ ایک مشکل کام تھا مگر کمیٹی وقت ضائع کیے بغیر اسے سرانجام دینے میں مصروف ہو گئی۔ ان کے راستے میں کئی مشکلات حائل ہوئیں لیکن وہ اپنی ہمت کامیاب ہو گئے اس کمیٹی کے ارکان نے ملک ملک کا دورہ کیا اور حکومتی نمائندوں سے مصاحب کیے۔ مختلف حکومتوں نے ان کے اقدام کو سراہا اور اس کاوش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا نیز اس تحریک میں شامل ہونے کی خواہش کا بھی اظہار کیا اس کے بعد کمیٹی کے سوئٹزرلینڈ فیڈرل کونسل سے رابطہ قائم کیا اور اس سے درخواست کی کہ 18 اگست 1864ء کو جنیوا میں ایک سفارتی کانفرنس منعقد کی جائے۔ اس کانفرنس میں مختلف حکومتوں کے 26 نمائندوں نے شرکت کی تھی اس کانفرنس کے دوران جنیوا کنونشن منظرعام پر آیا۔ ریڈ کراس کو ایک بین الاقوامی درجہ حاصل ہوا اور اس کے بنیادی اصول وضع کیے گئے۔ سب سے اہم فیصلہ یہ ہوا کہ فوجی ہسپتالوں کو غیر جانبدار تصور کیا جائے گا نیز طب سے متعلق افراد اور طبی سازوسامان اور ادویات وغیرہ کو تحفظ فراہم کیا جائے گا لہٰذا ریڈ کراس کی انٹرنیشنل کمیٹی سرکاری طور پر قائم کی گئی اس کی علامت سفید جھنڈا قرار پایا جس پر سرخ کراس (Red Cross) نمایاں تھا۔
اپنی باقی ماندہ زندگی کے دوران جین ہنری ڈونانٹ نے اس ادارے کی اصلاح کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں جو اس کی پیش کردہ تجویز کے تحت قائم ہوا تھا۔ ہر سال…… ہر ماہ…… اس ادارے میں بہتری آتی گئی اور اس میں مناسب ترامیم بھی متعارف کروائی جاتی رہیں۔ تربیت کے مزید مراکز بھی کھولے جاتے رہے۔ ڈونانٹ نے ریڈ کراس کی مختلف ممالک میں قائم شاخوں کے دورے کیے جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہزاروں لوگوں نے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں اور اس کے ساتھ عطیات میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ جلد ہی ریڈ کراس کی خودمختار تنظیمیں تشکیل پا گئیں اس سلسلے میں بین الاقوامی کمیٹی نے اہم کردار ادا کیا جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ اس امر کی یقین دہانی کرے کہ جنیوا کنونشن کے اصولوں پر سختی سے عمل درآمد ممکن بنایا جائے اور کسی بھی خلاف ورزی کی مذمت کرتے ہوئے اس کو روکے۔
1870ء میں بین الاقوامی کمیٹی نے باسل میں ایک اطلاعتی ادارہ قائم کیا اس سے فرانس اور جرمن دونوں بیمار یا زخمی سپاہ کو فائدہ ہونا تھا اس ادارے کے ارکان باقاعدگی سے جنگی قیدیوں کے کیمپوں کا دورہ کرتے تھے۔ مزید برآں یہ ادارہ ان شہری مہاجرین کی بھی دیکھ بھال کرتے تھے جو جنگ کے دوران بے گھر ہو چکے تھے۔
اگلی صدی تک دنیا کے تقریباً تمام ممالک جنیوا کنونشن میں شامل ہو چکے تھے جس پر نظرثانی کی گئی اور 1916ء میں اس میں نئے قوانین شامل کیے گئے جب کہ ہیگ میں 1907ء میں اس کے قوانین کو بحری جنگ پر بھی لاگو کر دیا گیا۔
جین ہنری ڈونانٹ نے 1910ء میں 82 برس کی عمر میں وفات پائی اس نے جو پودا لگایا تھا وہ اب تک تناور درخت بن چکا تھا جو دنیا بھر میں انسانیت کی خدمت سرانجام دے رہا تھا۔ سولفرینو میں اس نے سخت ترین جدوجہد کی تھی اور اپنے خواب کو حقیقت میں بدل دیا تھا…… وہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران ریڈکراس کی گراں قدر سرگرمیاں دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہا تھا۔ 1918ء تک اس کی سرگرمیوں کا دائرۂ کار وسیع ہو کر پوری دنیا میں پھیل چکا تھا۔ آج کل جہاں کہیں بھی کوئی نہ کوئی سانحہ پیش آتا ہے‘ ریڈکراس سب سے پہلے وہاں پہنچتی ہے۔
دنیا میں بہت کم ایسے افراد ہوتے ہیں جو ایک شان دار اور ہمیشہ قائم رہنے والی یادگار اس دنیا میں چھوڑ جاتے ہیں جیسے جین ہنری ڈونانٹ نے ایک شان دار اور ہمیشہ قائم رہنے والی یادگار چھوڑی تھی۔

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 787127 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.