" />

آزمائش شرط ہے

میری وہ کون سی بہادری تھی جسے دیکھ کے ڈاکو بھاگنے پہ مجبور ہوا، ایسا کیا تھا جسے بچوں کا اسلام کے ایڈیٹر محترم فیصل شہزاد صاحب جیسے نکتہ چین بچوں کا اسلام میں شائع کرنے پہ مجبور ہوئے اور ایسی کون سی کہانی تھی جسے کے جی ون کی ننھی منی طالبہ امل عابدی پوری پڑھنے پہ مجبور ہوئی؟ یہ سب جاننے کے لیے آپ کو مندرجہ ذیل تحریر پڑھنا ہوگی........ رکیے بھائی رکیے! یہ تحریر آپ کے لیے نہیں آپ کے بچوں کے لیے لکھی گئی ہے. اب یوں کریں کہ رات گھر کے سارے بچوں کو ایک جگہ جمع کرکے یہ کہانی سنائیے، اور جن لونڈوں لپاڑوں کے ہاں بچے نہیں ہیں وہ گلی محلے کے بچوں کو اکھٹا کرکے ان میں "اکابر" کے کارناموں سے ولولہ ہائے تازہ اجاگر کریں........ اکیلے اکیلے پڑھ کے "بے مانٹی" مت کیجیے گا.

گاہے انسان سے غیرارادی طورپہ ایسی بہادری سرزدہوجاتی ہے کہ وہ خود انگشت بدنداں ہوکر سوچتا ہے کیا واقعی میں اتنا بہادر انسان ہوں۔ آیا یہ کارنامہ میں نے ہی سرانجام دیاہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔

یہ آج سے چھ سات سال پہلے ’’پرویزی‘‘دور کی بات ہے جب پورا ملک بدامنی کا شکار تھا. بم دھماکے، قتل وغارت گری، چوری وڈکیتی آئے روز کے معمول میں شامل تھے۔ ایک لسانی تنظیم سے مل کر وقت کے فرعون نے شہرِقائد کا امن تہہ وبالا کر رکھا تھا۔ یومیہ درجن کے قریب بے گناہوں کی لاشیں گرتیں۔ روشنیوں کا شہر کراچی اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، رات کے وقت باہر نکلنا موت کے کنوئیں میں کودنے کے مترادف تھا۔ منگھوپیر’’ علاقہ غیر ‘‘میں شامل تھا،جہاں جنگل کا قانون رائج تھا۔

ایک دن مجھے منگھوپیر سے میٹروول سائٹ جانا تھا۔ راستہ غیر محفوظ ہونے کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا بھی شکار تھا. دوسرے گیر سے گاڑی تیسرے گیر میں ڈالنا ناممکن تھا. گاڑیاں سست رفتار سے رواں دواں تھیں۔ گھر والے رکشہ میں اور میں ان کے پیچھے موٹرسائیکل پہ سوار سست رفتاری میں ان کی تقلید کر رہاتھا۔ اتنے میں میری نظر شرافت سے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے نوجوانوں پہ پڑی۔ خوشی کے ساتھ تعجب بھی ہوا کہ بظاہر کھلنڈرے اور لفنگے نظر آنے والے لڑکے کیسے آرام سے موٹرسائیکل چلارہے ہیں۔ سوچ کا دورانیہ ابھی ختم نہیں ہوا ہوتا کہ گاڑیاں مجھ سے آگے نکل جاتی ہیں، میں پیچھے اکیلا رہ جاتا ہوں۔ موقع پاتے ہی وہ نوجوان شرافت کا چغہ پرے پھینک کے میرے سرپہ پہنچ جاتے ہیں، اپنی موٹرسائیکل سے مجھے ٹھوکر مارتے ہوئے چلاکر حکم دیتے ہیں’’بائیک سائیڈپہ لگا". میں فوراً معاملہ کی تہہ تک پہنچ جاتا ہوں اور بجلی کی تیزی سے ایک خیال مجھے سوجھتا ہے جس پر فوراً عمل کربیٹھتا ہوں. ان کی پشت کی طرف دہکھتے ہوئے کہتا ہوں ’’وہ دیکھو‘‘۔ وہ جوں ہی اُس طرف دیکھتے ہیں میں موٹرسائیکل اچھال کر ان کی گرفت سے اپنے آپ کو آزاد کرکے آگے چلتی گاڑیوں کے بیچ غائب ہوجاتا ہوں۔

دوسرا واقعہ بھی انہیں دنوں کا ہے۔ میری موٹرسائیکل ایک دوست لے جاتے ہیں۔ دوست کا کہنا تھا’’تم فکر مت کرو، تمہاری ڈیوٹی ٹائم ختم ہونے سے پہلے میں واپس آچکا ہوں گا، دونوں ساتھ گھر جائیں گے‘‘۔
لیکن وہ دوست ہی کیا جو دوست کو "گولی" نہ دے. ڈیوٹی ٹائم ختم ہوئے دس منٹ ہوچکے ہوتے ہیں مگر دوست کا دور تک کوئی اتا پتا نہیں چلتا۔ سوچتا ہوں مزدے میں چلنے کے بجائے پیدل ہی گھر روانہ ہوتا ہوں۔ پانچ منٹ بس اسٹاپ تک جانے میں لگیں گے، دس منٹ گاڑی آنے میں لے گی، رات کا وقت ہے، صبح کے لیے سی این جی بھروانے میں پمپ پہ وقت صرف کرے گی پھر اڈا قریب ہونے کی وجہ سے چیونٹی کی رفتار سے اس کی طرف بڑھے گی، اس سے بہتر ہے پیدل ہی گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے گھر کا رخ کیا جائے، آدھے گھنٹے کی ہی تو مسافت ہے۔

نصف فاصلہ بخیروعافیت طے ہوتا ہے۔ راستہ میں ایک گلی ایسی آتی ہے جسے اطراف سے درختوں نے گھیرا ہواہے، قریب روشنی نہ ہونے کی وجہ سے گھپ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائے نہیں دیتا۔ میں گلی کے نکڑ پہ کھڑے ہوکے ایک طائرانہ نگاہ خوف ناک ماحول پہ ڈال کر سوچتا ہوں اس راستہ کو اختیار کروں کہ نہیں؟ ’’اب کون قدرے طویل راستہ پہ جوتیاں چٹخائے، چلواسی پہ چلا جائے‘‘۔ یہ سوچتے ہوئے آخر اندھیرے کا حصہ بن جاتا ہوں۔ ابھی گلی کے درمیان ہی پہنچاہوتا ہوں کہ کانوں سے آواز ٹکراتی ہے ’’خبردار!جوبھی جیب میں ہے، سب میرے حوالہ کردو‘‘۔ یہ سنتے ہی نجانے کہاں سے مجھ میں اتنی طاقت آجاتی ہے کہ میں اچانک انعام اللہ سیہان کی طرح اس پہ حملہ کرکے اس کا پستول پکڑا ہاتھ مروڑ دیتا ہوں۔ ’’شرم نہیں آتی، اب تمہارے ہاتھوں ہم جیسے حلیہ والے بھی محفوظ نہیں، کبھی تو تم مولویوں اور تبلیغی بھائیوں کی بڑی عزت کیا کرتے تھے‘‘۔ میں بارعب آواز میں اسے ڈانٹتا ہوں۔ ’’غلطی ہوگئی، مجھے معاف کردیں ، جانے دیں‘‘۔وہ بڑی لجاجت سے التجا کرتاہے۔ قبل اس کے کہ اس کے دیگر ساتھی مجھ پہ حملہ آور ہوجائے میں جان بچی سولاکھوں پائے کا ورد کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیتا ہوں۔ پلک چھپکتے میں وہ اندھیرے میں غائب ہوجاتا ہے۔

آج بھی جب میں ان واقعات کو یاد کرتا ہوں تو مجھے ان سب کے پیچھے دعائیں کارفرما دِکھائی دیتی ہیں۔ والدین کی دعا، سفر کی دعا، گھر سے نکلتے وقت کی دعا۔

ایک مرتبہ رکشے میں جارہاتھا، رکشے والے کو ایک جگہ مڑنے کا اشارہ دیا تو اس نے رکشہ روک دیا:
’’بھائی جان! خیریت تو ہے‘‘۔ اس نے بیک مرر میں مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کیوں جناب کیا ہوا‘‘۔ میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا؟
’’بھائی جان! میں دو مرتبہ یہاں سے گیا ہوں، دونوں مرتبہ مجھے لوٹا گیا ہے‘‘۔
ٹھیک ہے جناب، جہاں سے آپ کی مرضی لے چلیں‘‘۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

میں سوچنے لگا، روز دفتردو بار یہاں سے آتا جاتا ہوں، یعنی دن میں چار مرتبہ یہاں سے گزرتا ہوں، میرا تو کبھی لٹیروں سے واسطہ نہیں پڑا۔وجہ ظاہر تھی۔ حدیث پاک میں آتا ہے جو شخص گھر سے نکلتے وقت ’’بسم اللہ توکلت علی اللہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ پڑھتاہے۔ دو فرشتے اس کی حفاظت پہ مامور ہوجاتے ہیں۔ میں جب بھی گھر سے نکلتا ہوں،الحمدللہ بچپن میں یاد کی ہوئیں یہ دعائیں زبان پہ جاری ہوتی ہیں۔ خود کو فرشتوں کی جلو میں مامون سمجھ کے پُرسکون ہوجاتاہوں۔

مجرب نسخہ آپ بھی آزماسکتے ہیں کہ آزمائش شرط ہے.

Ibnul Hussain Abidi
About the Author: Ibnul Hussain Abidi Read More Articles by Ibnul Hussain Abidi: 60 Articles with 63995 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.