نہ تعلیم سے غرض نہ علم سے کوئی واسطہ ،نہ عطائیت ہی کی
عطا،چند دن گاڑی پر بیٹھے ڈرائیور کو چلاتے دیکھا ساتھ ہی اعلان کر دیا ہم
بھی چلا سکتے ہیں بلکہ نہ صرف چلا سکتے بلکہ اس ڈرائیور سے کہیں بہتر
کارکردگی کا مظاہر ہ بھی کر سکتے ہیں،یہاں آپ سوال کرنے کی جسارت کر سکتے
ہیں مگر ایک میدان ایسا بھی ہے کہ وہاں اندھوں میں کئی کانے راجے پھر رہے
ہیں مگر سوال کرنے کی جسارت کوئی نہیں کر سکتا،کس کی مجال ہے کوئی پوچھے کہ
جناب عالی جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں مگر وہاں جان کی امان ہی سب سے
مشکل کام ہے میری مراد اپنے شعبے یعنی شعبہ صحافت سے ہے،یہ شاید دنیا کا
واحد شعبہ ہے کہ جس کے لیے کسی ڈگری ،کسی ڈپلومہ،کسی یونیورسٹی،کسی کالج
حتیٰ کے اسکول تک کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں،تعلیم تجربہ شعور ضروری نہیں
بس آپ چند دن کسی بھی لوکل اخبار کے دفتر جائیں کسی مخصوص سنیئر کے ساتھ دو
چار دن شکار پر نکلیں اور جب کئی بے گناہ و معصوم لوگوں کو خاموشی اور
انتہائی سادگی و معصومیت سے شکار ہوتا دیکھیں اور شکار کے بعد آپ کے حصے
میں فقط چائے بسکٹ یا کبھی کبھار کسی اچھے شکار کی طرف سے مہیا کیا گیا
کھانا ہی آئے یعنی ملائی ساری سنیئر صحافی صاحب کھا جائیں اور برتن دھونے
کی ذمہ داری جونیئرز پر آئے اور یہ سلسلہ شب و روز جاری رہے تو دل میں یہ
خیال آ ہی جاتا ہے کہ باتیں میں ان سے اچھی کر لیتا ہوں دوسرے کو بے وقوف
بنانے کا جو ملکہ مجھے حاصل ہے اس سے جناب سنیئرصاحب کوسوں دور ہیں ،پیسے
لیکر مکر جانے کا جو فن مجھے آتا ہے وہ ان کو کبھی آ ہی نہیں سکتا یا جس
بڑے چینل کا دھوکا میں لوگوں کو دے سکتا ہوں وہ یہ نہیں دے سکتے کیوں کہ
حلیے سے میں ذیادہ بہتر اور اسمارٹ ہوں کیا ہوا جو میٹرک نہیں کر سکا یا
ایف ایس سی میں داخلہ نہیں ملا تومگر یہ جو بظاہر میرے استاد بنے پھرتے ہیں
یہ کیا ہیں اپنا نام تو یہ بھی ٹھیک طرح سے نہیں لکھ سکتے کسی بھی خبر میں
نسبت تناسب یا مرتبہ مراتب کے الفاظ تو میں ہی جوڑ جاڑ کر دیتا ہوں اکثر
پیسٹینگ کی گئی خبریں جو الٹ نظر آتی ہیں جن کی ان کو سمجھ ہی نہیں آتی اس
کے لیے بھی جناب میرے محتاج ہیں تو کیا ہی بہتر ہو کہ میں اپنے نام کے ساتھ
بھی سنیئر لکھنا شروع کر دوں چار ہزار کا کیمرے والا موبائل اور موٹر
سائیکل تو میرے پاس بھی ہے بس ایک ڈائری لینی ہے جو عموما گزرے سال کی سو
ڈیڑھ سو میں مل جاتی ہے ،یہ ہے اکثریت کا سفر صحافت کا آغاز،سارے لوگ ایسے
نہیں ہیں بہت سے باکمال لکھاری رپورٹرز اور نڈر قسم کے ایڈیٹرز بھی ہیں مگر
جن کی مثال میں نے دی ان کی بھی اب مارکیٹ میں کمی نہیں۔یہ لوگ جن کا کسی
بھی قسم کا کوئی سورس آف انکم نہیں ہوتا صبح سویرے اپنی موٹر سائیکل پر
اپنی اپنی کچھاروں سے نکلتے ہیں اور شکار کی تلاش میں ہر کچا پکا سٹاپ کراس
کر جاتے ہیں،وڈیو کیمرے اور فیس بک نے پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو گہنا کے رکھ
دیا ہے اور ایسے بہت سے دوست جن کی بہترین خدمات ہیں اس شعبے میں بلکہ وہ
نہایت محدود وسائل میں اپنا پورا پورا اخبار شائع کر رہے ہیں،میری مراد
لوکل اخباری مالکان سے ہے اکثریت جن کی اپنے پلے سے خرچ کر کے یہ چسکا پورا
کر رہی ہے،اس اکثریت کا سحیح معنوں میں استحصال ہو رہا ہے عام افراد سمجھتے
ہیں کہ ایک عام سا رپورٹر ہزاروں کی دیہاڑی لگاتا ہے تو یہ تو پورے اخبار
کے مالک ہیں ان کی آمدن کا تو کوئی حساب کتاب ہی نہیں ہو گا مگر شاید کہ
لوگ کبھی اس رپورٹر کی بجائے کسی اخبار کے مالک یا ایڈیٹر سے ملیں اور اس
کے حالات دیکھیں کہ وہ کن حالات میں نہ صرف اپنے اہل و عیال کا پیٹ پال رہا
ہے بلکہ اپنا اخبار بھی باقاعدگی سے شائع کر رہا ہے،یہ لوگ اپنے دفاتر تک
محدود رہتے ہیں اور ان کے دفاتر سے باہر ہی باہر اکثر بڑی وارداتیں محض ان
کے نام پر ہو جاتی ہیں جن میں انہیں سوائے بدنامی کے اور کچھ بھی ہاتھ نہیں
آتا کیوں کہ رپورٹر صاحب کبھی یہ نہیں کہتے کہ یہ میری ڈیمانڈ ہے بلکہ کہا
جاتا ہے کہ میں کیا کروں جی میں تو غریب بندہ ہو ں میرا مالک یا ایڈیٹر بڑا
وہ ہے اس نے کہا کہ آپ سے دس ہزار سے کم پیسے بالکل نہیں لینے جبکہ اکثر
اوقات مالک صاحب کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوتی نہ ہی دینے والے افراد
مروت کی وجہ سے یہ زحمت کرتے ہیں کہ اس سے پوچھ ہی لیں کہ جناب کس چیز کے
پیسے اور میں کیوں دوں،مگر معاملہ دوسری طرف بھی بڑا عجیب ہے اکثر لوگ گلہ
کرتے پائے جاتے ہیں کہ صحافی ہم سے پیسے مانگتے ہیں مجھے سمجھ نہیں آتی کہ
کیسے کوئی کسی سے یوں پیسے مانگ سکتا ہے کیسے کسی کو ڈرا دھمکا سکتا ہے مگر
جب نزدیک جا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جس سے چار ہزار روپے مانگے جا رہے
تھے وہ چالیس لاکھ کا ٹیکہ ملک کو یا حکومت کو لگا چکا ہے اور یقین کریں
وہی شخص بلیک میل ہوتا ہے یا پیسے دیتا ہے جو چور ہوتا ہے اور اپنی دو
نمبری چھپانے کے لیے اصلی نقلی میڈیا کے لوگوں کو پیسے دیتا ہے کہ جان بچی
رہے مگر یہاں جان بچتی نہیں کیوں کہ دیکھا دیکھی اس کے دروازے پر لائن لگ
جاتی ہے اور بہت سے ایسے بھی آن دھمکتے ہیں جن کے پاس نہ کوئی چینل نہ
اخبار بس ایک کیمرہ ایک فرضی سا لوگو اور دو تین لوگ، بہت سے رپورٹرز حضرات
نے اپنے آگے رپورٹرز رکھ لیے ہیں کچھ نے اپنے مائیک اور لوگو تک کرائے پر
چڑھا رکھے ہیں،اب ایک نیا ٹرینڈ شروع ہو چکا ہے تلہ گنگ اور چکوال کے کچھ
علاقوں میں تو اب کچھ یار دوستوں نے خواتین کی خدمات بھی حاصل کر لی ہیں جو
باقاعدہ کسی بھی کلائینٹ کو کال کر کے انٹرویو کا ٹائم طے کرتی ہیں یہ
خواتین عموما حوالہ کسی بڑے اخبار یا بڑے چینل کا دیتی ہیں،کسی بھی خاتون
کی طرف سے آنیوالی کال کو فوراًریسپانس ملتا ہے اور یہ ہو نہیں ہو سکتا کہ
ہم ان سے آنے کا مقصد پوچھیں یا انکار کریں کیوں کہ ہم جس اخلاقی دیوالیہ
پن کا شکار ہیں اس کا تقاضہ یہ ہے کہ بلا پوچھے فورا انٹرویو کے لیے یاں کر
دی جائے،جب وہ لوگ بمعہ لاؤ لشکر اور ضروری ساز وسامان کے آپ کے ڈرائینگ
روم میں آ دھمکیں لیکن وہ خوبصوورت آ واز کہیں سنائی دکھائی نہ دے جس نے
وقت مانگا تھا الٹا آنیوالے آپ سے بیس ہزار انٹرویو کے مانگ لیں تو اس وقت
آپ کو ان سے ان کی شناخت پوچھنا یاد آئے اور اس کے بعد جب مطمئن نہ ہو ں تو
اپنے صحافی دوستوں کو کال کر کے کنفرم کرنا شروع کر دیں کہ یار فلاں بندے
کو جانتے ہو فلاں کا پتہ ہے کس چینل یا اخبار سے ہے، آپ کو وقت دینے سے
پہلے شناخت پریڈ کے مراحل مکمل کرنا چاہییں،ایسے دو نمبر لوگ جن کا صحافت
سے دور پرے کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ان کا شکار عموماًجعلی پیر عطائی حکیم
ہومیو ڈاکٹر اور گلی محلوں میں ناقص اور گھٹیا قسم کی اشیاء بیچنے والے لوگ
ہوتے ہیں ،ایسے لوگوں کا بھی علاج ہے کیوں کہ جو لوگ انسانیت کے دشمن ہوں
اور انسانی جانوں سے کھیل رہے ہوں ان کو حکومت تو کسی دھارے میں لانے یا ان
کے خلاف کاروائی کی زحمت کرتی نہیں چلو کوئی تو ہے جو ان کے لیے بھی تھری
ناٹ تھری کی گولی کی حیثیت رکھتا ہے،اس ساری تمہید کا مقصد صرف اور صرف یہ
گذارش کرنا ہے کہ اگر ہم بلیک میل ہونا نہیں چاہیں گے تو کوئی ہمیں بلیک
میل نہیں کر سکتا،نہ ہی سارے مرد صحافی بلیک میلر ہیں اور نہ ہی خواتین ،بہت
اچھی خواتین بہت اچھا لکھ رہی ہیں تلہ گنگ سے نمرہ ملک ان میں سے ایک ہیں
اور بہت سارے میل صحافی بہت ہی اچھا کام کر رہے ہیں جن پر کسی بھی صورت
کوئی بھی شخص انگلی نہیں اٹھا سکتا،تاہم استثنا ء تو ہر جگہ پر ہے جس طرح
معاشرے میں اچھے برے لوگ ہیں اسی طرح صحافت کے میدان میں بھی یہی معاملہ ہے
،جس طرح ہم دکان سے سبزی پھل فروٹ خریدنے سے پہلے ٹھونک بجا کر دیکھتے ہیں
اسی طرح کوئی بھی صحافتی سرگرمی پریس کانفرنس یا انٹرویو دیتے وقت اگر سب
سے پہلے تعارف ہو جائے کہ میری پریس کانفرنس میں میرے سامنے کون کون لوگ
اور کس کس ادارے سے تعلق رکھنے والے بیٹھے اور میں جس کو انٹرویو دے رہا
ہوں یہ کون ہے کس ادارے سے ہے اور اس کی کریڈیبلٹی کیا ہے تو میرے خیال میں
جہاں بہت سے دوستوں کا بھلا ہو جائے گا وہیں یہ عوامی شکایت بھی دور ہو
جائے گی کہ ہم سے بڑے چینل یا بڑے اخبار کے نام پر دھوکا ہو گیا، اور بہتر
ہے کہ لوکل اخبارات کے مالکان کوبذات خود کال کر لیں،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے۔ |