آج کے اخبارات میں ایک خوبصورت خبر لگی ہے کہ مری میں،
اسلام آباد ایکپریس وے پر الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کی جانب سے یتیم بچوں کی
تعلیم وتربیت کے لیے تعمیر کیے جانے والے’’ آغوش کالج آف ایکسیلنس‘‘ کا
افتتاح کیا گیا ہے۔اس کا افتتاح مشہور معروف صحافی اور برطانیہ کے سابق
وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی سالی نو مسلم لورن بوتھ صاحبہ نے کیا۔انہوں اسلام
قبول کرنے کے موقعہ پر کہا تھا کہ جلد ہی ان بہن اور بہنوئی ٹونی بلیئر،
سابق وزیر اعظم برطانیہ بھی اسلام قبول کر لیں گے۔لورن بوتھ کو فریڈم
فریٹولا کے وقت اسرائیل نے قید بھی کر لیا تھا۔صحافی ہونے کے ناتے لورن
بوتھ دینا میں مسلمانوں کے خلاف مظالم پر آواز بھی اُٹھتی رہتی ہیں۔ لورن
بوتھ کے اسلام لانے سے قبل برطانیہ کی ایک اور مشہورصحافی خاتون مریم ریڈلے،
جو ناجائز طور پر افغانستان میں داخل ہو کر طالبان کی ریکی کرنے گئی تھی۔
طالبان نے اسے گرفتار کرکے قید کر لیا۔ قید کے دوران اسلام اور طالبان کے
حسن اخلاق متاثر ہوئیں۔ قید سے رہائی پاکر واپس برطانیہ گئیں۔اپنے ملک میں
رہ کر اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد اسلام قبول کیا۔ دنیا میں اسلام لانے
میں خواتین کا تناسب مردوں سے زیادہ ہے۔ خیر یتیم بچوں کے لیے ’’آغوش کالج
آف ایکسیلنس‘‘ کے افتتاح کے خوشگوار موقعہ پر لورن بوتھ نے پاک بھارت میں
جنگی ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ جنگیں دنیا میں یتیموں کی تعداد میں
اضافہ کرتی ہیں اس سے بچنا چاہیے۔ انہوں نے کہاپاکستان کو مسلم امہ میں ایک
خاص مقام حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کے فلاحی اداروں کے ذریعے اپنے
بچوں کو کی بہترین کردار سازی کر کے ہمیں مسلمان رہنما پیدا کرنے ہوں
گے۔پاکستانی قوم کا فلاحی کاموں میں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا میرے لیے قابل
قدر بات ہے۔لورن بوتھ نے صحیح کہا پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ انفاق فی
سبیل اﷲ کرنے والا ملک ہے۔ مگر ظالم دنیااور خاص پاکستان کو ختم کرنے والے
گریٹ گیم کے تین اہل کار جس میں،نیتن یاہو،موددی اور ٹرمپ(نمٹ) شامل ہیں
پاکستان سے یہ اعزاز بھی چھیننے کی سازششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ لورن بوتھ
نے اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلاحی کاموں میں پاکستان کو امت
مسلمہ میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔افتتاحی تقریب میں الخدمت فاؤنڈیشن مری کے
رہنما ایئر مارشل ریٹائرڈ خدا داد، اسلامک مشن برطانیہ کے نمائندے ریاض ولی،
میاں عبدلحق ،الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے سابق صدر پروفیسر حفیظ الرحمان
اور الخدمت کے جنرل سیکر ٹیری محمد مشتاق مانگٹ سمیت دیگر صاحبان نے بھی
خطاب کیا۔آغوش کالج مری میں ملک بھر کے ابتدائی طور پر ستر(۷۰) یتیم بچوں
کو میرٹ پرمنتخب کیا گیا ہے۔جن کو کالج میں تعلیم اور بورڈنگ کی سہولت حاصل
ہو گی۔جبکہ بلڈنگ کی تکمیل کے بعدیہ تعدادتین سو(۳۰۰) سٹوڈنٹس پر مشتمل
ہوجائے گی۔ اس کالج میں طلبہ کو ملک کے نامور کالجوں کی طرز کی تعلیم دے کر
مستقبل کے لیڈر پیدا کیے جائیں گے۔برطانیہ کے عوام اور پاکستانی کمیونٹی کی
جانب سے کالج کی تعمیر کے اخراجات کے لیے ابتدائی طور پر ایک سو چار ( ۱۰۴)
کنال اراضی اور بیس ہزار(۲۰) پونڈ عطیہ کیے گئے۔الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے
زیر انتظام مری’’ آغوش کالج آف ایکسیلنس‘‘ طرز کے کئی اداروں پاکستان میں
پہلے سے کام کر رہے ہیں ۔الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے پورے پاکستان میں
لاتعدادفلاحی ادارے غریبوں کی مدد کرنے کے لیے کا م کر رہے ہیں۔ اگر کا
شمار کیا جائے تو کچھ اس طرح ہے۔ بانویں(۹۲) بڑے ہسپتال جس میں حقدارغریب
مریضوں کا عام پرائیویٹ ہسپتالوں سے کم اور رعایتی نرخوں پر علاج کی
سہولتیں دی جارہی ہیں۔ پاکستان کے کئی شہروں اور خاص کر مضافاتی علاقوں میں
چار سو(۴۰۰) ڈسپنسریاں عوام کی بنیادی صحت کی ضررویات پوری کر رہی
ہیں۔ہنگامی حالاتٖوری طور پر مریضوں کو ہسپتالوں تک پہنچانے اور بر وقت طبی
امداد کے لیے بارہ سو(۱۲۰۰) ایمولینسیز خدمت انجام دے رہی ہیں۔عوام کی
سہولت کے لیے ان کے گھروں کے قریب ترین ،تین سوچالیس(۳۴۰)
لیبارٹریز میں ہر قسم کے جدیدمشینوں سے آراستہ پر ٹیسٹ مہیا کیے جاتے
ہیں۔یتیم بچوں کی تعلیم، دیکھ بال اور ان میں احساس محرومی ختم کرنے اور
مفید شہری بنانے کے لیے جدید رہاشی انتظامات کے تحت سولہ (۱۶)لگژری آغوش
یتیم خانے قائم ہیں۔ پاکستان میں پانی کی کمی ایک عرصے سے محسوس کی جاتی
ہے۔اس کمی کو ڈیم بنا کر پورا کیا جا سکتا تھا۔ مگر ہمارے سیاست دان جن کے
پاس قوم کی تقدیر ہوتی ہے، نے مجرمانہ خفلت کرتے ہوئے منگلا اور تربیلہ ڈیم
کے بعد کوئی بھی بڑا ڈیم نہیں بنایا۔ اس میں اندرونی ملک دشمن اور پاکستان
کے ازلی دشمن بھارت کے ایجنٹوں نے بھرپور قردار ادا کیا اور ملک کے مشہور
معروف کالا باغ ڈیم کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی رکھیں۔ سیاستدانوں کے ساتھ
فوجی ڈکٹیٹروں کا بھی قصور ہے جو اپنے جبر کے دور میں بھی کالا باغ ڈیم
نہیں بنا سکے۔الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان نے اپنے معدود وسائل استعمال کرتے
ہوئے، آگے بڑھ کر پانی کے لیے ترسنے والے عوام کے لیے ملک میں، تیئس
ہزار(۲۳۰۰۰)کنویں اور نلکوں کا انتظام کیا۔ اس میں خصوصی طور پر تھرپارکر
میں پانی کے کنووں انتظام شامل ہے۔ جہاں سے غریب عوام اپنی ضرورت کا پانی
حاصل کر رہے ہیں۔اسلام نے بیواؤں کی ضروریا ت کا خیال رکھنے کے لیے
مسلمانوں کو ہدایات دیں ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان نے اسلام کی ہدایات
پر عمل کرتے ہوئے ملک میں تیرہ ہزار(۱۳۰۰۰)بیوہ خواتین کو ان کے گھروں تک
ماہانہ راشن پہچانے کا انتظام کررکھا ہے۔ ملک میں الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت
بچوں کے لیے چودہ سو (۱۴۰۰)سکولزکام کر رہے ہیں۔ ان میں اسلام کا شعور
رکھنے والے استاذہ حضرات بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔اس طرح اسکولوں سے فارغ
ہونے والے بچوں کے لیے ملک میں بیالیس (۴۲)کالج اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری
رکھے ہوئے ہیں۔ ان اسکولوں اور دوسرے پرائیویٹ اسکوں کے چار لاکھ(۰۰۰،۰۰،۴)
غریب بچوں کی سالانہ فیس ادا کی جاتی ہے اور ان کو کتب اور کاپیاں بھی
فراہم کی جاتی ہیں پاکستان کے عوام اسلام سے محبت کے تحت اپنے بچوں کو
اسلامی مدارس میں تعلیم کے لیے داخل کرتے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت الخدمت کے
چھ سو چوالیس (۶۴۴)دینی مدرسے غریب بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔
صاحبو! یہ سارے رفاحی کام اسلام کا درد رکھنے والے پاکستانیوں کی زکوٰۃ،
صدقات اور عمومی مدد سے چل رہے ہیں۔ الخدمت سے جوڑے پورے دنیا میں پھیلے
ہوئے مسلمانوں نے بیرون ملک غریب مسلمانوں کی مدد کے لیے ادارے بنائے ہوئے
ہیں۔ وہ ان اداروں کے ذریعے رقوم رضاکارانہ طور پرجمع کر کے پاکستان بھیجتے
ہیں۔ جیسے مری میں اسلام آباد ایکپریس وے میں یتیم بچوں کے نئے بننے والے’’
آغوش کالج آف ایکسیلنس‘‘ ادارے کے لیے بھیجے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں
جماعت اسلامی کے کارکنان ہر سال زکوٰہ، صدقات اور عمومی امداد عوام سے جمع
کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عید قربان عید کے دن اپنے غریب پاکستانیوں کے
لیے وقف کرکے چرم قربانی اکٹھے کرتے ہیں۔ جس سے ویلفیئر کے کاموں کے لیے
خطیر رقم مل جاتی ہے۔ راقم بھی اس کار نیک کا ایک مستقل کارکن ہے۔ اب پھر
نیکیوں کے بہار کا مہینہ چند دن بعد سایہ فگن ہونے والا ہے۔ ہمیں یقین کامل
ہے کہ اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کے اہل ثروت حضرات الخدمت
فاؤنڈیش پاکستان کا دل کھول کر ساتھ دیں گے۔ کیونکہ ان ہی کے دیے ہوئی رقوم
سے ملک کی سب سے بڑھی این جی او، الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے ویلفیئر
پروگرام چل رہے ہیں۔جو ا ن شاء اﷲ آئندہ بھی چلتے رہے گے۔
|