تحریر: عائزہ ظہیر
آج ہماری مشینی اور پرتکلف زندگی میں جہاں مادہ پرستی گھر کر چکی ہے وہیں
ہم مطلب پرست بھی ہوتے جارہے ہیں۔ ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے۔ بغیر مطلب
کے ہم نہ کسی سے دوستی رکھتے ہیں اور نہ دشمنی۔ ہم نے خیر بانٹنا چھوڑ دیا
اور غیبت، حسد جیسی بیماریوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ ہم دعائیں کرنے میں بھی
کنجوس اور خیر پھیلانے میں بھی نفع و نقصان دیکھنے لگے ہیں۔ اجتماعی بھلائی
اور خیر بانٹنے کا جذبہ یہ وہ اقدار ہیں جو سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہوتی
ہیں۔
ہر پچھلی نسل آنے والی کو کچھ عطا کر کے جاتی ہے۔ کچھ چیزیں اپنی مٹی سے
جڑے رہنے سے حاصل ہوتی ہیں۔ اپنوں کی مٹی کی خوشبو اپنے اندر اتارنی ہوتی
ہے۔ آج کل والدین کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ چیزیں
سکھا سکیں انھیں اپنی مٹی پہ چلنے کا قرینہ سکھا سکیں۔ مگر اگر آج کے ماں
باپ اپنے بچوں کو نانی یا دادی کی گود میں ڈال دیں تو وہ خوشبو اپنے آپ
منتقل ہو جاتی ہے۔
پہلے لوگوں کے گھر تنگ اور دل بڑے تھے۔ لوگ سب کے لیے سوچتے تھے ان کی
اچھائی صرف ایک علاقے یا ایک طبقے کے لیے مخصوص نہیں تھی بلکہ ان کے گھروں
کے ساتھ ساتھ دلوں کی دیواریں بھی سانجھی تھیں۔ میری دادی اماں جنہیں ہم سب
بھی امی جی کہتے تھے، ان کی خواہش ہوتی تھی کہ ہم سب مل کر نماز کا اہتمام
کریں۔ جمعہ کے دن تسبیح نماز کے لیے سب کو اکٹھا کرتی تھیں اور ہم کبھی
بہانے بناتے تو کبھی ہار مان ہی لیتے تھے کیونکہ وہ اپنے ارادے کی بے حد
پختہ تھیں۔ نماز کے اختتام پر امی جی جو دعا کیا کرتی تھیں وہ کچھ یوں ہوا
کرتی تھی، ’’یااﷲّ سب کا بھلا سب کی خیر، دیسیوں، پردیسیوں کی خیر، یااﷲ
بیماروں کو شفا دے، بے اولادوں کو اولاد دے، بے نمازیوں کو نماز کی توفیق
دے، بے ہدایتوں کو ہدایت دے‘‘۔
مزید لمبی بھی ہوا کرتی تھی مگر ایک بات جو اس وقت میرے ذہن میں نہیں آئی
مگر آج اچانک مجھے خیال آیا کہ امی جی نے کبھی بھی صرف خود کے لیے نہیں
مانگا بلکہ ان کی دعا میں ہر انسان شامل ہوتا تھا۔ چاہے وہ ملکی ہو یا غیر
ملکی جسے وہ جانتی بھی نہیں تھیں اس کے لیے بھی بھلائی مانگتی تھیں۔ ان کے
دل میں تنگی تھی نہ دعاؤں میں کنجوسی۔ خیر اور بھلائی کا جذبہ عالمگیر تھا۔
اگر وہ چاہتیں تو صرف اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے بھلائی، شفا اور ہدایت
مانگ سکتی تھیں مگر یہ بات ان کی تربیت اور اقدار کے خلاف تھی۔ بھلائی سب
کے لیے ہے اور اس پر سب کا حق ہے۔
ہمارے پیارے نبی (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت بھی تو عالمگیر تھی۔ زمان
و مکان کی حدود سے بے نیاز۔ ان کی رحمت کا دائرہ صرف امت مسلمہ تک ہی تو
محدود نہیں تھا بلکہ وہ تو کافروں کے ساتھ بھی رحم کا معاملہ فرماتے تھے۔
پھر آج ہمارے دلوں میں یہ تنگی کیوں، ہماری دعائیں صرف ہمارے ذاتی مفادات
تک محدود کیوں ہیں۔ کیوں ہم اجتماعی بھلائی اور سب کا بھلا سب کی خیر کے
جذبے پر عمل نہیں کر سکتے۔ اﷲ تعالٰی ہمیں سب کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا
شرف عطا فرمائے آمین۔
|