معاشرے میں بگاڑ اور بدامنی کا سبب اخلاقی پستی!

 نماز،روزہ،ذکر وتلاوت قرآن پاک ،حج،زکواۃ الغرض ہرعبادت کسی نہ کسی شکل میں انفرادی اوراجتماعی طورپرموجودہے۔کیا آج ہم میں نمازی کوئی نہیں؟ ذکر و تلاوت کرنیوالا کوئی نہیں؟کیاروزہ اورحج کاعمل متروک ہوگیاہے؟یاپھرلوگوں نے زکواۃاداکرنااورصدقہ دینا چھوڑدیا ہے؟یہ اوردیگرساری عبادات واحکامات الہی کی تعمیل الحمداﷲ انفرادی سطح سے لے کراجتماعی سطح تک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔اگرنہیں توان سب کااصل اورحاصل نہیں ۔ وہ ہے اخلاق جوہم میں انفرادی سطح سے لے کراجتماعی اورقومی سطح تک ختم ہوچکا ہے۔ حالانکہ ایمان کے بعدجس بات پرسب سے زیادہ زوردیا گیا،وہ حسن اخلاق ہے۔حسن ِ اخلاق سے نہ صرف انسان کی اپنی زندگی پرسکون ہوتی ہے،بلکہ وہ دوسروں کے لئے بھی اطمینان وسکون کاباعث بنتاہے،جبکہ ناپسندیدہ اخلاق کاحامل انسان اپنی زندگی کوبھی عذاب بناتا ہے اور دوسروں کے لئے بھی درد ِسربنارہتاہے،جس سے دیگرلوگوں کی زندگیاں بھی بے مزہ اورتلخ ہوجاتی ہیں۔
آج ملک بھر میں بدامنی اوربے سکونی کادوردورہ ہے۔ہرشخص پریشان حال ہے۔ہم اس قدر"منہ پھٹ" اوراخلاقی طورپرپست ہوچکے ہیں کہ اب ہمیں کسی چیز،جنس ، جگہ اورمقام کالحاظ تک باقی نہیں رہا۔ہمارا مزاج اورانداز ِفکربگڑکررہ گئے ہیں۔ہم ایک دوسرے کوطعنہ مارتے ہیں، ایک دوسرے پرآواز کستے ہیں ایک دوسرے کوبرے ناموں سے مخاطب کرتے ہیں۔ یہی رویہ منافرت کا سبب بنتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بداخلاقی اوربدتمیزی اس حد تک عام ہوچکی ہے کہ والدین بھی بد اخلاقی سے محفوظ نہیں۔ حالانکہ قرآن پاک میں واضح طور پر والدین کے ساتھ حسن سلوک ،ان کے ساتھ شفقت ،محبت و انکساری کے ساتھ پیش آنے اور خلوص دل سے ان کی خدمت اوراحترام کوسعادت مندی فرمایا گیا ہے۔
 
ترجمہ : اورتیرے رب نے حکم دیاکہ بجزاس کے کسی کی عبادت مت کرواورتم ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرواگرتیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کوپہنچ جائیں سوتوان کوکبھی"ہوں"بھی مت کہنااورنہ ان کوجھڑکنااوران سے خوب ادب سے بات کرنااوران کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اوریوں دعاء کرتے رہناکہ اے میرے پرودگاران دونوں پررحمت فرمایاجیسا کہ انہوں نے مجھ کوبچپن میں پالاپروش کیا اورصرف اس ظاہری توقیروتعظیم پراکتفامت کرنا،دل میں بھی ان کا ادب اورقصداطاعت رکھنا،تمہارا رب تمہارے مافی الضمیرکوخوب جانتا ہے اگرتم سعادت مند ہوتووہ توبہ کرنے والوں کی خطامعاف کردیتا ہے۔ (سور ۂ بنی اسرائیل آیت 3)

اسی طرح ایک اورمقام پرارشاد ِ باری تعالیٰ ہے۔ترجمہ: اورہم نے انسان کواپنے ماں باپ سے نیک سلوک کرنے کی تاکیدکی ہے،اوراگروہ تجھ پرزورڈالیں کہ توایسی چیزکومیراشریک ٹھہرائے جس کی کوئی دلیل نہیں توان کا کہنا نہ ماننا،تم سب کومیرے ہی پاس لوٹ کرآناہے،سومیں تم کوتمہارا سب کام جتلادوں گا۔ (العنکوبت:آیت 8 )

کسی بھی عمل اوربرائی کومعمولی نہ سمجھا جائے،ہمارا ہرایک عمل اﷲ کے ہاں محفوظ ہورہاہے۔اس جدید دور میں انسان کے لئے ممکن نہیں رہا کہ وہ ریڈیو،ٹی وی،ٹیپ ریکارڈر، کمپیوٹر ولیپ ٹاپ اورنت جدید ترین ایجادات کی موجودگی میں اس بات سے انکاری ہو کہ اُس کاہرلفظ اورہرعمل محفوظ ہورہاہے، اوریہی محفوظ شدہ ذخیرہ قیامت کے دن اس کے حق یا مخالفت میں گواہی دے گا۔انسان جوکچھ بولتا ہے،اس کی بات ثبت ہوجاتی ہے۔اﷲ رب العزت اپنی قدرت سے جس وقت چاہے،یہ ساری باتیں انسان کو ہوبہواسی طرح دوبارہ سنا سکتا ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکرصدیقؓ،رسول اکرم ﷺکے ساتھ کھاناکھا رہے تھے۔کہ اتنے میں سورہ زلزال کی آیت نازل ہوئی:ترجمہ "جس نے ذرابرابرنیکی کی ہوگی وہ اُسے دیکھ لے گااورجس نے ذرہ برابربدی کی ہوگی وہ اُسے دیکھ لے گا۔"

یہ سُن کرحضرت ابوبکرؓ نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیااورخدمت نبوی ؐمیں عرض کیا:یارسول اﷲ!کیا میں اس ذرہ برابربرائی کا نتیجہ دیکھ لوں گا جومجھ سے سرزد ہوئی۔"رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:"اے ابوبکرؓ!دنیا میں جومعاملہ بھی تمھیں پیش آتا ہے جوتمھیں ناگوار ہو،وہ ان ذرہ برابربرائیوں کا بدلہ ہے جوتم سے صادر ہوں اورجوذرہ برابرنیکیاں بھی تمھاری ہیں انہیں اﷲ آخرت میں تمھارے لئے محفوظ رکھ رہا ہے۔"
ہمیں چاہیے کہ والدین کا احترام کریں ،اپنے مسلمان بھائیوں کی دل جوئی کریں،مشکل میں ایک دوسرے کے کام آئیں،ایک دوسرے کے ساتھ احسان اورہمدردی کریں ۔ہماری کوشش ہوکہ ہرکوئی ہمارے شرسے محفوظ رہے ۔جب ہم ایک دوسرے کے شرسے محفوظ ہوں گے توہمارے درمیان بھائی چارہ اوراخوت کاماحول پیدا ہوگا۔

حضور ﷺ نے تباہ حال معاشرہ میں سب سے پہلے فرد ہی کواپنی توجہ کامرکز بنایاتھا،آپ ﷺ کی تعلیمات مبارکہ سے جب ان کی سوچ اورفکربدلی توان کے سارے اعمال بدل گئے۔جو لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کی جان کے پیاسے تھے،ایک دوسرے کی خاطرجان قربان کرنے والے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے اورحقوق ادا کرنے والے بن گئے۔عرب کی سرزمین پربرائیوں کی جگہ بھلائی،جہالت کی جگہ علم،نسل در نسل برسرپیکار رہنے والوں کے درمیان اخوت وبھائی چارہ پیدا ہوگیا۔آج ہم اخلاقی پستی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں،ہماری بداعمالیوں کے سبب معاشرہ مکمل طورپرتباہ وبرباد ہوچکاہے۔ اگرہم معاشرہ میں سدھاراورامن و سکون چاہتے ہیں توضروری ہے کہ ہم محمد مصطفیٰ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنائیں۔کیونکہ صرف اورصرف آپ ﷺ کی تعلیمات مبارکہ اوراسوہ حسنہ کی مکمل پیروی سے مثالی معاشرے کا قیام ممکن ہے۔

MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 92448 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.