رسد اور طلب میں عدم توازن، ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی اور متعلقہ حکومتی
اداروں کی صورتحال پر قابو رکھنے میں مکمل ناکامی پاکستان میں اشیائے
ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات بیان کی جاتی ہیں جو کہ
رمضان کی آمد کے ساتھ ہی بعض اوقات قیمتوں میں 100 فیصد یا اس سے بھی زیادہ
اضافے کا باعث بنتی ہیں۔
بی بی سی نے اس رپورٹ میں پاکستان اور برطانیہ میں رمضان کی آمد اور اس
حوالے سے قیمتوں میں اضافے یا کمی اور اس میں کارفرما عوامل کا جائزہ لیا
ہے۔
مہنگائی اور حکومتی سرپرستی
حکومتی ادارے روزانہ کی بنیاد پر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کا تعین کرتے
ہیں اور یہ سرکاری نرخ کہلاتا ہے۔
وفاقی دارالحکومت کی مثال لیں تو یہاں روزانہ پھلوں اور سبزیوں کی تین
مختلف فہرستیں یا نرخ نامے جاری کیے جاتے ہیں۔
ایک نرخ نامہ ان شہریوں کے لیے ہے جو سبزی اور فروٹ منڈی جا کر خریدتے ہیں،
دوسرا اسلام آباد کے عام رہائشی سیکٹرز کے لیے جبکہ تیسرا شہر کے ان علاقوں
کے لیے جن میں متمول افراد بستے ہیں۔
آپ خوش قسمت ہوں گے اگر آپ کو دکاندار اس قیمت پر پھل یا سبزی بیچے جو
سرکاری نرخ نامے میں درج ہے۔
ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی جیسی وجوہات کو پسِ پشت ڈال کر اگر صرف پھلوں
اور سبزیوں کی رمضان کی آمد سے چھ روز قبل اور پہلے روزے والے دن کی سرکاری
قیمتوں پر نظر ڈالیں تو پتہ یہ چلتا ہے کہ یہ قیمتیں سرکاری سطح پر پہلے ہی
نو سے پچاس فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔ ابھی 29 روزے باقی ہیں۔
ضلعی انتظامیہ سے حاصل کیے جانے والے نرخ ناموں کے مطابق سب سے تازہ آلو کی
سرکاری قیمتِ فروخت یکم مئی کو 18 روپے فی کلو گرام تھی جو پہلے روزے کے دن
(سات مئی) کو 24 روپے ہے، یعنی انتہائی بنیادی سبزی کی قیمت میں لگ بھگ 33
فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح ادنیٰ معیار کے سیب کی سرکاری قیمتِ فروخت یکم مئی کو 145 روپے تھی
جو چھ روز کے اندر اندر 180 روپے ہو چکی ہے یعنی تقریباً 25 فیصد اضافہ۔
اسی طرح ٹماٹر کی قیمت میں 18 فیصد اضافہ، لہسن 50 فیصد، پیاز نو فیصد،
کیلا 17 فیصد جبکہ امرود آٹھ فیصد تک مہنگے ہو چکے ہیں۔
|