چین پاک اقتصادی راہداری (سی پیک ) کامنصوبہ اب،، پاک چین
رشتے داری،، میں تبدیل ہوہوچکاہے اقتصادی راہداری منصوبہ توسست روی
کاشکارہے مگرچینی لڑکوں کی پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ شادیاں عروج پرہیں ،ایف
آئی اے کی تحقیقات کے مطابق اب تک 15سوسے پاکستانی لڑکیوں کی چینی لڑکوں سے
شادیاں ہوچکی ہیں گزشتہ چنددنوں میں ایف آئی اے نے راولپنڈی اسلام آبادمیں
کارروائی کرتے ہوئے 15 چینی باشندوں سمیت 22 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
گرفتار تمام افراد جعلی شادیوں کے مکروہ دھندے میں ملوث ہیں۔ فیصل آباد میں
بھی حساس ادارے نے چینی لڑکیوں سے شادی کر کے بیرون ملک لے جانے والے گروہ
کے سرغنہ کی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ چینی شہر مسٹر زن پاکستان میں مختلف
پراجیکٹس میں کام کر چکا۔ مسٹر زن نے اپنی بیوی اور بہنوئی کے ساتھ مل کر
ایک گروہ بنایا اور فیصل آباد کی 18 لڑکیوں کی شادیاں چینی لڑکوں کے ساتھ
کرائیں۔ فیصل آباد میں پاکستانی لڑکیوں کی شادیاں چینی لڑکوں سے کروا کر
انہیں چین لے جاکر غیر اخلاقی دھندہ کروانے والا گروہ کو چندروز قبل ایف
آئی نے گرفتار کرلیا تھا جنہوں نے ایڈن گارڈن میں گھر لے رکھا تھا جہاں پر
شادی کیلئے آنے والے چینی افراد کو رہائش دی جاتی تھی۔
کچھ عرصہ قبل بی بی سی اردوکی فیصل آبادسے نامہ نگارسحربلوچ نے ایسی ہی ایک
لڑکی کہانی لکھی جس میں وہ بتاتی ہیں کہ میں فیصل آباد سے ہوں، میری عمر 19
سال ہے۔ یہ نومبر 2018 کی بات ہے۔ ہم لوگ اپنی کزن کی شادی میں گئے تھے،
کزن کی شادی بھی ایک چینی لڑکے سے ہوئی تھی اور اب وہ چین میں ہے۔ وہیں
مجھے بھی پسند کیا گیا اور رشتہ داروں سے میرے گھر والوں کا نمبر لیا گیا۔
کال کر کے وہ لوگ ہمارے گھر آئے۔ مجھے تین لڑکے دیکھنے آئے تھے۔
میرے گھر والوں کا پہلا سوال تھا کہ کیا لڑکا مسیحی ہے؟ تو ہمیں بتایا گیا
کہ جی، مسیحی ہے، کوئی فراڈ نہیں ہے۔ لیکن ہمیں اتنا وقت نہیں دیا گیاکہ ہم
مزیدتحقیق کرلیں۔ ہمارے گھر آنے کے اگلے دن ہی مجھے میڈیکل ٹیسٹ کے لیے
لاہور بھیجا گیا۔ میڈیکل ٹیسٹ کروانے کے دو دن بعد انھوں نے کہا کہ ہمیں
شادی کرنی ہے۔ گھر والوں نے کہا کہ ہم اتنی جلدی شادی نہیں کرنا چاہتے۔مگر
چینی لڑکے کے ساتھ منسلک جو پاکستانی نمائندہ تھا اس نے کہا کہ نہیں، جو ہو
گا اسی ماہ ہو گا کیوں کہ اس کے بعد چینی لوگوں نے چلے جانا ہے اور پھر یہ
واپس نہیں آئیں گے۔ اگر (شادی)کرنی ہے تو ابھی کرلیں۔ انھوں نے ہمیں یہ بھی
لالچ دی کہ ہم آپ کا سارا خرچہ اٹھائیں گے۔
میرے گھر والوں نے کہا کہ ہمیں خرچہ نہیں چاہیے۔ تو انھوں نے کہا کہ نہیں
جیسے پاکستان میں ہوتا ہے کہ لڑکے والے لڑکی کو شادی کا خرچہ دیتے ہیں،
لڑکی کے کپڑے بنوانے کے لیے، ویسے ہی ہو گا۔ میرے گھر والوں نے اپنے رشتہ
داروں کا تجربہ دیکھتے ہوئے شادی کے لیے ہاں کر دی اور میری شادی کر دی گئی۔
جب تک میرے سفر کے کاغذات بن رہے تھے تب تک انھوں نے مجھے سات لڑکوں اور
لڑکیوں کے ساتھ ایک گھر میں رکھا تھا۔انھوں نے لاہور کے ڈیوائن روڈ پر ایک
گھر لے رکھا تھا۔ کل تین گھر تھے، دو ایک ہی گلی میں تھے اور ایک دو گلیاں
چھوڑ کے تھا۔ وہاں پر سب چینی ہی چینی تھے۔ آخری شادی میری ہوئی تھی باقی
سات لڑکیوں کی مجھ سے پہلے شادیاں ہوچکی تھی۔ سب مسیحی لڑکیاں تھیں۔میں
اپنے شوہر سے گوگل ٹرانسلیٹر کے ذریعے بات کرتی تھی۔ کبھی ترجمہ صحیح ہو
جاتا تھا کبھی نہیں ہوتا تھا۔ ایک استاد بھی رکھے ہوئے تھے۔ ہم سب لڑکیوں
کی (چینی زبان سیکھنے کی)کلاس ہوتی تھی صبح 9 سے شام 5 بجے تک۔
چینی لوگوں کے ساتھ جو پاکستانی نمائندہ آیا تھا وہ بہت تیز تھا۔ (اس کو
لڑکیوں کی ذمہ داری سونپی گئی تھی) اس کی زبان لڑکیوں کے ساتھ اچھی نہیں
تھی۔ گالی گلوچ کرتا تھا۔ اگر کسی لڑکی نے کہا کہ مجھے گھر واپس جانا ہے تو
وہ بہت گندے گندے الزام لگاتا تھا، بلیک میل کرتا تھا۔
جس لڑکے سے میری شادی ہوئی میں اس سے صرف تین بار ملی تھی۔ پہلی بار جب وہ
مجھے دیکھنے آیا تھا، دوسری بار مہندی میں دیکھا اور پھر نکاح کے روز
ملاقات ہوئی۔ لڑکے کی عمر 21 برس تھی اور شادی کے بعد مجھے پتا چلا کہ وہ
ہاتھ سے معذور ہے اور مسیحی نہیں ہے۔جب میں نے نمائندے کو بتایا تو وہ مجھے
بلیک میل کرنے لگ گیا۔ کہنے لگا کہ میں نے جو (شادی) ہال پر پیسے لگائے ہیں،
میں وہ لوں گا۔ تم لوگوں کے خلاف رپورٹ کروں گا، تم لوگوں نے چینی باشندوں
کو دھوکا دیا ہے۔ ایسے بولتا تھا۔ پھر اس نے میرا موبائل فون لے لیا۔ ہم سب
لڑکیوں کے موبائل فون چیک ہوتے تھے۔وہاں رہتے ہوئے میری اپنی باقی دوستوں
سے بھی بات ہوتی تھی جو چین گئی تھیں۔ ایک نے مجھے بتایا کہ یہاں کھانے کے
لیے سادہ چاول دیتے ہیں اور ایک کمرے میں بند رکھتے ہیں۔ شام کو شوہر اپنے
دوستوں کو گھر لاتا ہے۔ صرف یہی بتایا۔ مجھے سمجھ آ چکا تھا کہ اس کہ ساتھ
وہاں کیا ہو رہا ہے۔ وہ بہت رو رہی تھی۔
میرے کاغذات بن چکے تھے تب تک صرف ویزا آنا باقی رہ گیا تھا۔مجھے گھر نہیں
جانے دیتے تھے۔ میں نے کہا کہ میری ماما کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ تو کہنے
لگا کہ تمھاری ماما کو یہاں بلا لیں گے، یہیں علاج کروا لیں گے، تم نے کہیں
نہیں جانا۔ بڑی مشکل سے گھر والوں کے ساتھ رابطہ ہوا۔ میرے گھر والے مجھے
لینے آئے اور پھر میں واپس نہیں آئی۔
لاہور میں مقیم سماجی کارکن سلیم اقبال کے مطابق یہ شادیاں نہیں بلکہ بین
الاقوامی سطح پر جسم فروشی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔سلیم کے مطابق ایک سال کے
عرصے میں لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان سے 700 شادیاں کروائی جا
چکی ہیں۔ جن میں اکثریت مسیحی لڑکیوں کی ہے۔کچھ لڑکیوں نے درج شکایات میں
لکھا کہ ان سے کہا گیا کہ لڑکا سی پیک میں ملازم ہے لیکن چین جانے کے بعد
پتا چلا کہ ایسا نہیں ہے۔ زیادہ تر کیسز میں ایک بار جب لڑکی پاکستان سے
چین روانہ ہو جائے تو پھر اس سے تعلق رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
بین الاقوامی و غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں پاکستان
سے لڑکیوں کو چین ٹریفک کرنے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
پاکستان میں چینی سفارت خانے نے پاکستانی خواتین کو شادی کا جھانسہ دے کر
چین لے جانے کے واقعات پرکہاکہ کچھ عرصے سے کچھ غیر قانونی تنظیمیں رشتہ
کرانے کے لیے لوگوں سے بھاری معاوضہ لے رہی ہیں جس سے چین اور پاکستان میں
لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔سفارت خانے کا کہنا تھا کہ چینی قانون ایسی غیر ملکی
رشتہ کرانے کی ایجنسیاں قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتا، لہذا لوگ دھوکہ دہی
سے ایسی شادیوں سے باز رہیں۔چینی سفارت خانے کے بیان کے مطابق چین غیر
قانونی رشتہ کرانے کے کاروبار کے حوالے سے پاکستان کے قانون نافد کرنے والے
اداروں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔چینی بیان میں لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ
ایسے عناصر کے ہاتھوں بے وقوف نہ بنیں اور اگر ایسی کوئی سرگرمی ان کے نوٹس
میں آئے تو متعلقہ اداروں کو مطلع کریں۔اس مکروہ دھندے کوروکنے کے لیے
حکومت پاکستان کواپنے قوانین پرسختی کرناہوگی ورنہ ان واقعات سے پاک چین
تعلقات بھی خراب ہوسکتے ہیں ان عناصرپرکڑی نگاہ رکھنی ہوگی جواس گھناؤنے
کاروبارمیں ملوث ہیں اوران سے آہنی ہاتھوں سے نمٹناہوگا۔ |