اگر ایک آدمی مٹر گشت میں مصروف ہے اسے اپنی منزل کا پتہ
نہیں تو کیا وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے گا کبھی بھی نہیں ،ہر گز نہیں
،جب تک وہ اپنی سمت کا تعین نہیں کر لیتا وہ یوں ہی بے مقسد گھومتا پھرتا
رہے گا او ر ناکام و نامراد ر رہے گا اکیسویں صدی کے طالبعلموں کا سب سے
بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ انہیں اپنے ٹارگٹ کا علم ہی نہیں ہوتا اسی لئے
ناکامی ان کا مقدر بنتی ہے۔ آئیے آپ کو چند نکات بتاتے ہیں جن پر چل کر آپ
بھی زندگی کی دوڑ میں آگے نکل سکتے ہیں ان میں سب سے پہلے منصوبندی ہے یہ
ایک ایسا ایک ایسا جامع لائحہ عمل ہے کہ اس کی مدد سے ایک طالب علم کامیاب
و کامران ہو جاتا ہے۔کسی بھی کام شروع کرنے سے پہلے پلیننگ کا عمل لازمی
ہے۔آج کی نوجوان نسل کو سمجھانے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں عملا سکھانا ھو
گا کہ کوئی بھی ٹاسک شروع کرنے سے پہلے کیا کرنا ہو گا ؟ سب سے پہلے اس
فیلڈ کے ماہر افراد سے مشورہ لے لیں مثال کے طور پر ایک سٹوڈنٹ ایم فل
ایجوکیشن میں ریسرچ کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے کم از کم پانچ ایم فل
کوالیفائیڈ سے باہمی مشورہ کر لے تحقیق کا موضوع کیا ہونا چاہیے؟ کس
سپروائزر کے ساتھ وہ بہتر انداز میں ریسرچ کو پایہ تکمیل تک پہنچا لے گا۔
ڈیٹا کے حصول کے لیے انہیں کہاں کہاں جانا ہو گا اس پر کتنا وقت اور سرمایہ
لگے گا ان نکات پر مشاورت ان لوگوں سے ضروری ہے جو ان مرحلوں سے حال ہی میں
گزر چکے ہوں۔ ریسرچ ورک کے لیے پرسکون ماحول،وقت اور سب سے بڑھ کر انگلش
اور لیپ ٹاپ پر مہارت ہونی چاہیے۔کامیاب منصوبہ بندی کے بعد پروفیشنلزم کا
عمل آتا ہے۔اب ریسرچر کو لیپ ٹاپ کی فراہمی یقینی بنانا ہو گی،انگلش میں
مہارت حاصل کرنا ہوگی اس کے ساتھ ساتھ اپنے موضوع کے لیے ڈیٹا بیس بنانا ہو
گا جس میں ذیادہ سے زیادہ متعلقہ آرٹیکلز کو ڈاؤن لوڈ کر کے ڈیٹا بیس میں
جمع کرنا ہو گا اس مقصد کے لیے کسی سے مدد لینے کی ضرورت نہیں البتہ اپنے
سپروائزر کے ساتھ مکمل رابطہ رکھنا اور ان سے تصحیح کرانا بہت ضروری ہے۔ یہ
بات ذہن میں رکھیے کہ جتنی ذیادہ پرفیشنلزم کا آپ عملی اظہار کریں گے
کامیابی آپکے قریب آتی جائے گی۔دوسرں پر انحصار کرنے سے آپ کا ٹاسک کمزور
ہوتا جائے گا اور آپ منزل سے دور ہوتے جائیں گے۔ پلیننگ اور پروفیشنلزم کی
بعد کسی بھی کام کو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کا پیشن ہو،اپنے کام سے عشق
ہو۔اگر کام کرنے کو جی نہی چاہ رہا تو پھر خطرے کی گھنتی بجنا شروع ہو جائے
گی۔جزبے کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ
مثبت انداز میں اپنا موازنہ کرتا رہے کہ وہ ان سے آگے جا رہا ہے یا پیچھے
اور اپنے شیڈول کے مطابق کام کرتا رہے۔خطرناک کام یہ ہے کہ وہ خود کام نہ
کرے اور دوسروں سے کام کروائے۔ خود کام کرنے سے وہ غلطیاں کرے گا، اپنی ان
غلطیوں سے سیکھے گا اور یوں اسے مزا آتا جائے گا۔ ہمارے طالبعلموں کی سب سے
بڑی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ وہ دو دن سخت محنت کرتے ہیں اور پھر لمبی تان کر
سو جاتے ہیں لہزا انہیں خرگوش کی چال کی بجائے کچھوے کی مستقل مزاجی کو
اپنانا ہو گا اور روزانہ کی بنیاد پر کام کرنا ہو گا۔ باقاعدگی سے کام کرنی
کی عادت ایک ایسا عمل ہے جو ایک طالب علم کو اپنے ٹارگٹ تک پہنچا کر دم
لیتی ہے۔ آپ ا۷۷۷پنے طالبعلموں میں،اپنے بچوں میں ان چار خوبیوں کو
ڈالیں۔سب سے پہلے منصو بندی پھر پرو فیشنلزم، جزبے کے سا تھ ساتھ باقاعدگی
سے کام کرنے کی عادت ڈالنا ایسی خوبیاں ہیں جن کی مدد سے کوئی بھی طالب علم
ہر فیلڈ میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ |