روزہ‘ قصرِاسلام کا اہم ترین رکن ہے اور کسی عمارت کے
بقا کے لیے اس کے تمام اہم رکنوں کا صحیح و سالم ہونا ضروری ہوتا ہے، اگر
ان میں سے ایک بھی منہدم ہو جائے تو عمارت ہی منہدم ہو جاتی ہے۔ اس لیے جو
لوگ نماز وغیرہ کے پابند ہیں لیکن بلا شرعی عذر ر وزوں کا اہتمام نہیں کرتے
انھیں اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔سابقہ امم اور دیگر مذاہب میں
بھی اس اہم ترین عبادت کا اہتمام رہا ہے اور قرآن مجید کی وضاحت سے معلوم
ہوتا ہے کہ سابقہ امتوں میں بھی روزہ فرض تھا،جیسا کہ ارشاد فرمایا
گیا:یاَأیھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم
لعلکم تتقون۔(البقرۃ)
قدیم مذاہب کا تاریخی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندومت، جین مت،
یہودیت، عیسائیت، قدیم مصری اور یونانی وپارسی مذہب میں بھی روزے کا تصور
تھا اور ان مذاہب واقدار کو ماننے والے روزہ رکھتے تھے، چناں چہ ہندومت میں
ہندی مہینے کی گیارھویں اور بارھویں تاریخ کا، برہمنوں پر اکاشی کا روزہ
ہے۔ ہندو جوگی چلہ کشی (یعنی ۴۰؍دن تک کھانے پینے سے احتراز کرتے ہیں)،
ویکنتا ایکادشی تہوار میں ہندوؤں کے مختلف فرقے دن میں روزہ رکھتے ہیں اور
رات میں پوجا کرتے ہیں۔ جینی دھرم میں ۴۰-۴۰ دن تک ایک روزہ ہوتا
ہے۔یہودیوں کی بات کریں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر چالیس دن
بھوکے پیاسے گزارے، لہٰذا ان کی پیروی میں ان کے متبعین پر ۳۹؍ روزے مستحب
اورچالیسویں دن کا روزہ فرض ہے، اس کے علاوہ اور بھی روزے ہیں۔ عیسائیت
میں‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نبوت سے پہلے چالیس دن کا روزہ رکھا اور
نبوت کے بعد بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع میں برابر چالیس روزے
رکھتے رہے۔ چوتھی صدی مسیحی میں ’عید الفصح‘سے قبل دو دن روزے کے لیے مخصوص
کیے گئے، اس کے علاوہ اور بھی روزے ہیں، جو عیسائی حضرات رکھتے ہیں۔اہلِ
عرب بھی اسلام کے قبل سے روزے سے کچھ نہ کچھ مانوس تھے، مکہ مکرمہ کے قریش
زمانۂ جاہلیت میں عاشوراء یعنی ۱۰؍محرم الحرام کا روزہ رکھتے تھے، اس لیے
کہ اس دن خانۂ کعبہ پر غلاف ڈالا جاتا تھا۔ (سیرۃالنبی، ارکانِ اربعہ)
اسلام میں روزے کی فرضیت
اسلام میں روزہ بہ تدریج فرض ہوا۔ ابتدایاسلام میں یومِ عاشوراء کا روزہ
فرض تھا، ۲ھ میں رمضان المبارک کا روزہ فرض ہوا اور یومِ عاشوراء کے روزے
کی فرضیت منسوخ ہوگئی۔ اس طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں
۹؍ رمضان کے روزے رکھے۔ (زاد المعاد)صدیقہ بنت صدیق، حضرت عائشہ رضی اﷲ
عنہا روایت کرتی ہیں کہ قریش زمانۂ جاہلیت میں یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے
تھے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے، جب آپ مدینہ
منورہ تشریف لے آئے، تب بھی آپ نے روزہ رکھا لیکن جب رمضان کے روزے فرض
ہوئے تو عاشوراء کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی، پس اب جو چاہے عاشوراء کا
(نفلی) روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ (بخاری)
روزے کی فرضیت کے مراحل
موجودہ رمضان المبارک کے روزے، دو مرحلوں سے گزرنے کے بعد تیسرے مرحلے میں
منضبط ہوئے، اس اعتبار سے بنیادی طور پر روزے کی فرضیت کے تین مرحلے ہوتے
ہیں:
اول؛ اختیار کے طور پر۔
یعنی جو چاہے روزہ رکھے اور چاہے نہ رکھیاور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو
کھانا کھلادے، جسے ’فدیہ‘ کہا گیا ہے۔(البقرۃ۱۸۴)
دوم؛ لازمی طور پر۔
جب دوسری آیت (مفہوم) تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پائے، اس پر لازم ہے
کہ وہ پورے مہینے روزہ رکھے۔(البقرۃ:۱۸۵)نازل ہوئی تو اختیارِ صوم کا حکم
غیر معذور کے حکم میں منسوخ ہوگیااور روزہ رکھنا لازم قرار پایا، البتہ وقت
کے متعلق حکم یہ تھا کہ مغرب بعد جب روزے دار سوجائے گا تو اس کا روزہ شروع
ہوجائے گا، اٹھ کر اب کھانا پینا حرام تھا۔ لہٰذا! اگر کسی نے افطار کیا
اور کچھ کھائے پیے بغیر سو گیا تو اب اس کے لیے آئندہ غروبِ آفتاب تک کھانا
پینا حرام ہوگیا، اگر کوئی کچھ کھاتا پیتا تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا۔
سوم؛ آسانی کا حکم۔
دوسرے مرحلے کے حکم پر عمل جاری تھا کہ قیس بن صرمہ انصاری رضی اﷲ عنہ کی
بے ہوشی کا واقعہ پیش آیا اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ان کا واقعہ
بیان کیا گیا، اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی:(مفہوم)حلال کردیا تمھارے لیے
روزوں کی رات میں اپنی بیویوں سے مشغول ہونا۔(البقرۃ:۱۸۷) نیز ارشاد
فرمایا:(مفہوم) کھاؤپیو، جب تک کہ تم پر صبح کا سفید خط سیاہ خط سے نمایاں
نہ ہوجائے۔(ایضاً)
اس طرح رات کا روزہ ختم ہوگیا اور سونے کے بعد اٹھ کر کھانا پینا اور بیوی
سے ہم بستری درست قرار پائی اور روزے کا وقت صبحِ صادق سے شروع ہوکر غروبِ
آفتاب پر ختم ہونے لگا، یہ تیسرا اور آخری مرحلہ تھا، اب تا قیامت اسی پر
عمل جاری رہے گا۔ (بخاری، زاد المعاد)
روزہ‘ عقل کی نظر میں
فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ اس کی عقل کو اس کے نفس پر غلبہ اور تسلطِ دائمی
حاصل رہے، مگر بشریت کے باعث بسا اوقات اس کا نفس، اس کی عقل پر غالب آجاتا
ہے۔ لہٰذا تہذیب وتزکیۂ نفس کے لیے اسلام نے روزے کو اصول میں ٹھہرایا
ہے۔روزے سے انسان کی عقل کو نفس پر پورا تسلط وغلبہ حاصل ہوجاتا ہے اور
خشیت اور تقوے کی صفت انسان میں پیدا ہوجاتی ہے۔ روزہ رکھنے سے انسان کو
اپنی عاجزی اور مسکنت اور خدا تعالیٰ کے جلال اور اس کی قدرت پر نظر پڑتی
ہے، خدا تعالیٰ کی شکر گزاری کا موقع ملتا ہے اور انسانی ہم دردی کا دل میں
ابھار پیدا ہوتا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جس نے بھوک اور پیاس محسوس
ہی نہ کی ہو وہ بھوکوں اور پیاسوں کے حال سے کیوں کر واقف ہوسکتا ہے؟ اور
وہ رزاقِ مطلق کی نعمتوں کا حقیقی طور پر شکریہ کیسے ادا کرسکتا ہے؟ اگرچہ
زبان سے شکریہ ادا کرے، مگر جب تک اس کے معدے میں بھوک اور پیاس کا اثر اور
اس کی رگوں اور پٹھوں میں ضعف وناتوانی کا احساس نہ ہو، وہ اﷲ تبارک
وتعالیٰ کی نعمتوں کا کما حقہ شکر گزار نہیں بن سکتا، کیوں کہ جب کسی کی
کوئی محبوب ومرغوب وپسندیدہ چیز کچھ زمانہ گم ہوجائے تو اس کے فراق سے اس
کے دل کو اس چیز کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ (اس سے پہلے ایسا کم ہی ہوتا)۔
(المصالح العقلیہ)
اس لیے حکما کا خیال ہے کہ مذکوراہ بالا امور کے ادراک کی غرض سے روزہ
مشروع ہوا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو پورے اخلاص کے ساتھ قصرِ اسلام کے اس اہم
رکن کی حفاظت کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین
|