پاکستانی ویلڈر کی شاندار ہینڈ میڈ کار٬ ویڈیو

پاکستان میں نئی گاڑی کا مالک بننا کس کا خواب نہیں لیکن گاڑیوں کی قیمتوں میں آئے روز ہونے والے اضافے نے اس خواب کو تعبیر دینا بہت مشکل بنا دیا ہے۔
 

image


راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے مرزا عبدالمجید کا معاملہ ذرا مختلف ہے کیونکہ انھوں نے اس کا حل اپنی جیب کی بجائے اپنے ہنر پر بھروسہ کر کے نکال لیا ہے۔

مرزا عبدالمجید 25 برس سے ویلڈنگ کا کام کرتے آ رہے ہیں۔ ڈھوک چراغ دین میں واقع ایک دوکان میں کبھی مرزا صاحب کی ورکشاپ ہوا کرتی تھی لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان کا کام ختم ہوتا گیا اور انھوں نے فارغ رہنے کی بجائے کار بنانے کی ٹھان لی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اچانک جب کام ختم ہوتا ہے، تو ٹیکنیکل بندہ اپنے لیے نئے راستے تلاش کرتا ہے۔ ایسے انسان کے لیے اگر آگے کام ملے تو وہ ذہنی و جسمانی طور پر ٹھیک رہتا ہے اور اگر کام کی صورتحال نہ ہو تو وہ دلبرداشتہ ہوکر معاشرے میں اپنا مقام کھو دیتا ہے۔‘

گاڑی بنانے کا خیال مرزا صاحب کو ان کے بیٹوں نے دیا۔

مرزا عبدالمجید کا کہنا ہے کہ ’میں نے پہلے تو انکار کیا لیکن بعد میں مان گیا کہ چلو بنا لیتے ہیں۔ آمادہ ہونے کے بعد بھی میں نے اپنے بچوں کو ایک دفعہ پھر منع کیا کہ گاڑی بنانا مشکل کام ہے، بہت مشکل کام ہے۔‘

نہ صرف گاڑی کی تیاری پر آنے والے اخراجات اس متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھے بلکہ اس کے لیے درکار وقت نکالنا بھی آسان نہ تھا۔
 

image


’جب ہم نے گاڑی بنانی شروع کی تو جو ہم نے اس پر خرچہ سوچا ہوا تھا وہ تقریباً چھ گنا بڑھ گیا اور وقت جو ہم نے سوچا تھا کہ سال، چھ مہینے کے اندر ہم اس گاڑی کو بنالیں گے وہ چار سال پر جا کر ختم ہوا ہے۔‘

عبدالمجید نے بتایا کہ ’اس گاڑی پر میرے بچوں نے جو اوسط نکالی ہے اس کے مطابق تقریباً نو ہزار گھنٹے میں نے اس پر کام کیا ہے اور ابھی تک اس پر تقریباً چھ لاکھ روپے کا خرچہ آیا ہے۔‘

اس گاڑی پر اتنا وقت صرف کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مرزا عبدالمجید کے مطابق اسے بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا گیا ہے۔ ان کے مطابق ان کی یہ گاڑی کسی بھی انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کی گاڑی کے مقابلے میں کم نہیں۔
 

image


اس گاڑی کو زیادہ تر ایک ہی دھات سے بنایا گیا ہے۔ مرزا صاحب کی زندگی کا زیادہ حصہ ویلڈنگ کا کام کرتے ہوئے گزرا ہے تو گاڑی کے زیادہ تر حصے اور پرزے بھی لوہے یا سٹین لیس سٹیل کے بنے ہوئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انجن، ٹائر، گیئر بکس جیسی چیزیں تو گھر میں نہیں بنائی جا سکتیں تو ان چند چیزوں کو چھوڑ کر باقی اس گاڑی میں ایسی کوئی چیز نہیں جو میں نے اپنے ہاتھ سے نہ بنائی ہو۔‘

’اس گاڑی میں ہم نے 660 سی سی انجن لگایا ہے اور اس میں پانچ لوگ آسانی سے سفر کر سکتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میں اس گاڑی کو پورے پاکستان میں گھماؤں کیونکہ اس گاڑی کو لوگ ایک دفعہ رک کر دیکھتے ہیں۔‘

مرزا صاحب اپنی اس ایجاد کو موٹر وے پر لے جانا چاہتے ہیں لیکن قانونی پابندیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر حکومت پرمٹ ہی جاری کر دے، چاہے نمبر نہ دیں صرف اجازت نامہ ہی دے دیں کہ میں اس کو ہر جگہ چلا سکوں۔‘
 

image


مرزا عبدالمجید نے جیسے تیسے گاڑی تو بنا لی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ لوگ ایسے معاملات میں ساتھ دینے کی بجائے مذاق اڑاتے ہیں۔

’ذہنی ٹارچر کرتے ہیں یہ لوگ۔ ہمارے معاشرے میں لوگ آپ کو سپورٹ نہیں کرتے۔ اگر آپ کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں تو لوگ آپ کی ٹانگیں کھینچتے ہیں۔

’میری ایک درخواست ہے اپنے پاکستانی معاشرے سے کہ ایسے لوگ جو کچھ نیا یا مختلف کرنا چاہتے ہوں ان کو اخلاقی اور قانونی طور پر سپورٹ کریں چاہے مالی طور پر نہ کریں یہی میری درخواست ہے اپنی حکومت سے بھی اور معاشرے سے بھی۔‘
 


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE:

It is an evident fact that nothing goes unrewarded when its base lies in passion, devotion and struggle to do anything and when it comes to the people of Pakistan, they always strive to make anything happen no matter what sort of hurdles face them.