یہ جو ننھی سی بچی ہے اب اس کا شمار یتماء میں ہوتا ہے اس
کے بابا جانی دہشت گردانہ حملے کو ناکام بناتے ہوئے اسے چھوڑ گئے ۔
ابھی تو اس بچی نے بابا کا ہاتھ پکڑ کر چلنا سیکھنا تھا جیسے میرے اور آپ
کے بچے اپنے بابا جانی کا ہاتھ پکڑ کر چلنا سیکھتے ۔ ابھی تو اس نے توتلے
اور پیار بھرے لہجے میں بابا جانی سے باتیں کرنی تھیں ان کی گود میں کھیلنا
تھا انکی کمر پر چڑھنا تھا اس بچی نے تو بابا جانی سے ضد کرنی اور منوانی
تھی ۔ ابھی تو اس نے اپنے بابا جانی سے فرمائشیں پوری کروانی تھیں ۔ اس کی
بھی تو وہی معصوم اور پیاری خوشیاں جو میرے اور آپ کے بچوں اور بچیوں کے
لیے ہیں ۔۔۔
ابھی تو اسے بابا جانی کے کندھے سے لپٹ کر سونا تھا۔ یہ معصوم بچی تو ابھی
اپنے باپ کے شفقت بھرے لمس سے پوری طرح فیض یاب بھی نہ ہوئی تھی ۔ کتنی
جلدی تھی اسکے بابا کو اپنے فرض کا حق ادا کرنے کی ، خیال تک نہ کیا کہ
میری شہزادی کس طرح بچپن بغیر باپ کی شفقت کے گزار دے گی ۔ اس بچی کے بابا
نے ذرا نہ سوچا کہ عید آنے والی اور میں دو پل خوشیوں کے اس معصوم کو دوں
گا ۔ ذرا ملال دل میں لائے بغیر دہشت گردوں کو اپنے ساتھ اس طرح مصروف رکھا
کہ انہیں شکست فاش دیکر بہت سے معصوم بچے اور بچیاں کو ان دہشت گردوں کا
نشانہ بنتے ان کو یتیم ہونے سے بچایا جاسکے ۔ شاید احساسات تو بہت دل میں
آئیں مگر انہیں بیان کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ جائیں ۔
مگر مجھے یقین ہے کہ یہ بچی اپنے بابا جانی کے نقش قدم پر ہوگی ۔ انتہائی
بہادر ، انتہا کی خود شناس ، انتہا کی وفا شعار۔۔۔خونِ شہید کی وارث جو ہے۔
جس عمر میں بچیاں کھروچ آ جانے پر رو پڑتی ہیں ، اس عمر میں یہ عزم اور
حوصلے کا نشان ہوگی ۔ جس عمر میں بچے چلنا سیکھ رہے ہوتے ہیں یہ اپنے پاؤں
پر کھڑا ہونا سیکھے گی ۔ جس عمر میں بچے والدین کو تنگ کرتے ہیں، یہ اپنی
ماں کی آنکھ کی ٹھنڈک اور دل کا سکون بن جائے گی ۔ یہ خون شہید کی وارث ۔
زندوں کو زندگی جینے کا سلیقہ سکھائے گی۔۔ کیونکہ یہ ایک عام بچی نہیں بلکہ
ایک بہادر باپ کی بہادر بیٹی ہے ۔
|