ایک مشہور مقولہ اکثر وبیشتر سماعت کی نذر ہوتا ہے
کہ "غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے" کیا واقعی یہ بات سچ ہے؟اگر جواب مثبت میں
ہے تو یہ جواب کئی ایسے سوالات کو جنم دے گا کہ جس کا جواب ناممکن نہیں تو
مشکل ضرور ہے۔
اس مقولہ کو دل ودماغ میں پناہ دے کر اگر ہم اپنے اطراف میں نظر دوڑائیں تو
کچھ یوں محسوس ہوتا نظر آئے گا کہ اس مقولہ کے قائلین تو ان گنت مگر اس کی
حقیقت سے آشنا آٹے میں نمک کے برابر۔جب کوئی شخص غلطی کرتا ہے تو سامنے
والے کے لیے دو راستے ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ بدلہ لے یا پھر درگزر کردے کہ
وہ جانتا ہے کہ "غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے"۔
اللہ رب العالمین اپنے کلام بے مثال میں اپنے نیک بندوں کا تذکرہ کرتے ہوئے
فرماتے ہیں۔۔۔
"اور جب وہ غصہ ہوتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں(سورۃ الشوریٰ)
ایک اور مقام پر اللہ پاک کا ارشاد ہے۔۔۔
"(اور برابر کا بدلہ لینے کے لیے ہم نے اجازت دے رکھی ہے کہ )برائی کا بدلہ
تو اسی طرح برائی ہے( لیکن اس کے باوجود )جو شخص درگزر کردے( اور باہمی
معاملہ کی )اصلاح کرلے تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے( اور جو بدلہ لینے میں
زیادتی کرنے لگے تو سن لے کہ ) یقیناً اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتے۔
حدیث پاک میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ "میں اس بات
پر قسم کھاتا ہوں کہ جو شخص کسی کا قصور معاف کرتا ہے تو قیامت کے دن حق
تعالیٰ معاف کرنے والے کی عزت میں زیادتی عنایت فرمائیں گے"۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ کے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ میں تمہیں اس بات سے آگاہ
کروں کہ اہل دنیا اور اہل آخرت کے اخلاق میں کونسا خلق افضل ہے؟ "( فرمایا
)افضل ہے کہ جو شخص تجھ سے قطع کرے تو اس سے مل...... جو تجھے محروم رکھے
تو اسے عطا کر.......... اور جو تجھ پر ظلم کرے اسے معاف کردے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ان فرامین مبارکہ سے آگے بڑھ کر اگر ہم آقا دو جہاں سرکار دوعالم صلی اللہ
علیہ وسلم کی بے مثال اور انوکھی زندگی کو دیکھیں تو پل بھر میں فتح مکہ کا
زمانہ نظروں کے سامنے چمکتا نظر آتا ہے کہ وہ لوگ جو کوئی ساعت،کوئی لمحہ
جسمیں وہ ایذاء پہنچا سکتے ہوں ایذاء رسانی سے گریز نہیں کرتے اور صرف یہی
نہیں بلکہ جنہوں نے نعوذباللہ قتل تک کی سازشیں کر ڈالی ہوں، ان سسکتے
حالات کے باوجود زبان نبوت سے "لاتثريب عليكم اليوم" جیسی بات کا جاری ہونا
بخدا تاریخ اس جملہ کو نہیں بھلا سکتی۔
بس! ان ساری باتوں کے تذکرہ کا مقصد وہ بھولا سبق یاد میں لانا ہے کہ جب
غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے تو ہمارا اگلا قدم مکافات عمل نہ ہو بصورت دیگر
معاشرہ اس موڑ پر آکھڑا ہوگا جس سے ہم انتہائی قریب زندگی گزارنے پر مجبور
ہیں کہ ہر جگہ نفرتوں کا بازار گرم ہے، اسی مکافات کا ہی نتیجہ ہے کہ
خاندان کے خاندان اجڑ گئے، جن رشتوں کو رب نے انتہائی قریب رکھا اسی مکافات
کا ہی نتیجہ ہے کہ آج وہ ایک دوسرے کے گریبانوں سے ہاتھ ہٹانے کو تیار نہیں۔
اب ہم میں سے ہر ایک کو اپنا طرز زندگی بدلنے کی ضرورت ہے اور زندگی کو نہج
نبوت پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم پر امن معاشرے میں پرسکون زندگی گزار
سکیں ورنہ زندگی تو حیوانوں کی بھی گزر جاتی ہے۔ |