ـ"مہنگائی ہائے رے مہنگائی" وطن عزیز پاکستان ہی نہیں
دنیا بھر میں بھی سننے کو ملتا ہے ،لیکن ترقی پزیر ممالک میں تیزی سے مہنگی
ہوتی ضروریات زندگی کی اشیاء سے عام شخص بُری طرح متاثر ہوتا ہے وطن عزیز
پاکستان میں اکہتر سال کی تاریخ میں جتنے بھی معروف رہنمابرسر اقتدار آئے
اُن سب کا نعرہ عوام کو مہنگائی سے چھٹکارا دلانے کا ضرور رہا لیکن افسوس
حکومت میں آنے کے بعد برسراقتدار طبقہ نے پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے بنیادی
ضروریات زندگی کی اشیاء جن میں کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات شامل ہیں کی
قیمتوں کو کئی گنا بڑھایا جس سے عام آدمی بُری طرح متاثر ہوا ، آبادی میں
تیزی سے اضافہ اور پیداوار میں اُس رفتار سے اضافہ نہ ہونے کو بھی مہنگائی
کی ایک وجہ کہا جاتا ہے ،مانا کہ طلب ورسد میں توازن نہ ہونے سے اشیاء کی
کم یابی یا پیداوار میں کمی بھی قیمتوں میں اضافہ کا سبب بنتی ہے لیکن وطن
عزیز پاکستان میں مہنگائی دیگر ترقی پزیر ممالک کی نسبت تیزی سے بڑھی ہے
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جبکہ حکومتوں کی جانب سے کیے گئے تمام تر اقدامات
کے باوجود زرعی شعبہ کی پسماندگی کم نہ ہوئی اور کسان کو اُسکی فصل یا
اجناس کا معاوضہ کم ملنے کے باوجودعوام کو اشیاء بازاروں میں ہر بار پہلے
سے مہنگی خریدنی پڑتی ہیں وطن عزیز پاکستان میں پٹرول ،بجلی کی قیمت بڑھتے
ہی بازاروں میں پہلے سے اسٹاک کی گئی اشیاء کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں جس
سے عام آدمی خاص طور پر تنخواہ دار طبقہ اور دیہاڑی دار مزدور بُری طرح
متاثر ہوتاہے ،کچھ ایسا ہی اُس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب صبح کو ڈالر کی
قیمت بڑھتی ہے اور شام کو بازار میں ضروریات زندگی کی اشیاء مہنگی فروخت
ہونے کے ساتھ دوکاندار وں سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ ڈالر کا ریٹ بڑھنے سے
اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں کیا یہ عام پاکستانی سے تاجروں ،سرمایہ داروں
کا مذاق نہیں ہے ؟سارے سال کی طرح ماہ رمضان المبارک میں حکومت خاص طور
ضلعی انتظامیہ اپنی پرائس لسٹ پر عمل درآمد کروانے میں مکمل ناکام نظر آتی
ہے مجسٹریٹ چند خاص جگہوں پر چھاپے مار کر کاغذ ی کاروائی مکمل کرتے نظر
آتے ہیں بعض دفعہ تو یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے
جاری پرائس لسٹ کے برعکس اشیاء مہنگی اور بعض اُس قیمت سے کم مل رہی ہوتی
ہیں جو انتظامیہ کی جانب سے اشیاء ضروریہ کی قیمتوں سے لاعلمی کی واضح مثال
ہے وطن عزیز پاکستان میں ماہ رمضان المبارک میں اشیاء خوردونوش کی قیمتیں
آسمان سے باتیں کرتی ہیں یہ سلسلہ تمام مذہبی تہواروں پر بھی شدت سے دیکھنے
کو ملتا ہے رمضان المبارک کی آمد سے چند دن پہلے ہی بنیادی اشیائے خورد و
نوش خاص طورپر پھلوں ، سبزیوں، گوشت کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا
ہے اور مقدس مہینہ کے پہلے عشرہ میں قیمتیں سو گنا اضافہ سے فروخت ہونا
شروع ہو جاتی ہیں موجودہ پی ٹی آئی حکومت نے بھی سابقہ حکومتوں کی طرح
مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی بجائے لاکھوں کی آبای والے شہروں میں ایک دو
سستے رمضان بازار لگانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اگر مثال کے طور پر ضلع
اوکاڑہ کی بات کی جائے تو تیس لاکھ سے زائد آبادی کے لئے آٹھ رمضان بازار
لگائے گئے ہیں ان بازاروں سے اشیاء خریدنے کی بجائے قریبی دوکان سے اشیاء
خریدنا ہر شخص کو زیادہ بہتر لگتا ہے کیونکہ دوردراز سے کرایہ خرچ کر کے دو
تین روپے سستی چیز یہاں سے خریدنا مذاق ہے اِن بازاروں میں اشیاء پر اربوں
کی سبسڈی اور دیگر اخراجات خزانے پر بوجھ کے سوا کچھ نہ ہیں لیکن موجودہ
حکومت نے بھی بیوروکریسی کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے رمضان المبارک میں
سستے بازاروں کا سلسلہ جاری رکھا دعوے یہ ہی کیے جارہے ہیں کہ عام آدمی کے
فائدہ کے لئے یہ سستے بازار لگائے گئے ہیں ،سانچ کے قارئین کرام جانتے ہیں
کہ گزشتہ سالوں میں راقم نے بارہا ان بازاروں پر اربوں روپے لگانے کے عمل
کو فضول کہا کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ حکومت ضلع اور تحصیل کی انتظامیہ کو
تمام بازاروں ،مارکیٹوں میں قیمتیں مقررہ ریٹ پر فروخت کروانے کا کہتی اور
پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کی کارکردگی کو چیک کرنے کے لئے وہ ہی کچھ کرتی جو
صرف ایک مقام(سستے بازار ) پر اربوں روپے خرچ کر کے کیا جارہا ہے گزشتہ
دنوں رمضان المبارک کے آغاز سے پہلے پٹرول کی قیمت میں 9روپے کااضافہ کیا
گیا اس کے علاوہ چینی کی قیمت کو بھی بے لگام چھوڑ دیا گیاجس سے عام آدمی
بُری طرح متاثر ہوا وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے گزشتہ روز مہنگائی کا
ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی برداشت کرنا ہوگی، بجلی گیس کے ادارے مقروض
ہوچکے تھے، معاشی استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں،قومی اداروں کی تنظیم نو کا
عمل ڈی ریل نہیں ہوگا، قوم کرپشن اور غربت سے نجات چاہتی ہے مایوس نہیں
کرینگے،شہری علاقوں میں سستے گھر، نوجوانوں کو قرضے دینگے،دیہات میں گائیں،
بھینسیں، بکریاں ، مرغیاں فراہم کرینگے،جہاں ضرورت ہوئی نئے اسپتال بنائیں
گے، ہیلتھ کارڈ سے غریب ہر جگہ علاج کرواسکتا ہے،مشکل فیصلے قوم و ملک کے
وسیع تر مفاد میں کر رہے ہیں، محترم وزیر اعظم صاحب کیا غریب اور متوسط
طبقہ زندہ رہنے کے لئے کھانا پینا اُس وقت تک چھوڑ دے ؟خدارا روزمرہ کی
اشیاء اور ادویات کی قیمتوں پر کنٹرول کروائیں ضلع اور تحصیل کی انتظامیہ
خاص طور پرپرائس کنٹرول مجسٹریٹس کی کارکردگی کو چیک کریں رمضان بازار یا
سستے بازاروں کی فضول پریکٹس کو چھوڑ کر اربوں کی سبسڈی یوٹیلٹی سٹورز کو
دیں کم ازکم جوہر یونین کونسل اور شہروں میں کئی مقامات پر موجود ہیں جہاں
ہر شخص کی پہنچ آسان ہے اور جن دوردراز علاقوں میں یوٹیلٹی سٹورز موجود
نہیں وہاں نئے کھولے جائیں صوبائی حکومتوں کے اربوں روپے اِن رمضان بازاروں
پر خرچ کرنے سے دو فیصدسے بھی کم طبقہ مستفید ہوتا ہے جوکہ اسلامی فلاحی
مملکت میں عام شخص کے لئے کوئی سہولت فراہم نہیں کرتے، سانچ کے قارئین کرام
! بڑھتی ہوئی مہنگائی سے غریبی اور بدحالی بڑھ رہی ہے متوسط طبقہ بھی غربت
کی لکیر پر پہنچ گیاہے جبکہ غریب دو وقت کی روٹی کے لئے در در کی ٹھوکریں
کھانے پر مجبور ہوگیا ہے ، حکومت عوام کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری
کرنے کی ذمہ دار ہے حکومت کے دستور میں عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے
کا واضح ذکر ہے پھر کیا وجہ ہے کہ دس ماہ ہونے کو ہیں سابقہ حکومتوں کی
پالیسیاں جو کسی صورت عوام کے فائدہ کے لئے نہ ہیں تبدیل نہیں ہورہیں
مہنگائی روکنے کے لئے حکومت کوقوت سے کام لیناہوگا ،اشیاء بلیک کرنے والوں،
رشوت خورانتظامی افسران اور بے ایمانی کرنے والے تاجروں کو عبرت ناک سزائیں
دیں نہ کہ چند چھوٹے دوکانداروں کو جرمانے کر کے واہ واہ کروائیں ، مہنگائی
سے تنگ لوگ حکومت مخالفت میں بعض دفعہ اتنا آگے بھی چلے جاتے ہیں کہ تخریبی
کاروائیاں کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جس سے امن ومان کی صورتحال خراب ہونے
کا اندیشہ ہوتا ہے وطن عزیز پاکستان میں ایک طرف دو وقت کی روٹی کے لئے
سرکرداں طبقہ دوسری طرف امیر سے امیر تر ہوتا طبقہ موجودہے،اس کا واحد حل
یہ ہے کہ مصنوعی مہنگائی کر کے راتوں رات امیر ہونے والوں کے خلاف قانون
حرکت میں آئے تاکہ مہنگائی پر کنٹرول ممکن ہو سکے - |