تحریر: راحیلہ چوہدری، لاہور
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بچوں کو پھولوں سے تشبیہ دی ہے مگر جانے کیوں
پھول بڑے ہوکر خاردار بن جاتے ہیں۔ یہی وہ کانٹے ہوتے ہیں جو نہ صرف خود
تکلیف میں رہتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی تکلیف پہنچاتے رہتے ہیں۔ ماہرین
نفسیات مطابق بچے کی 54 فیصد شخصیت 3 سال کی عمر میں تشکیل پاتی ہے۔ 11 سال
کی عمر میں 86 فیصد شخصیت کا حصہ مکمل ہو جاتا ہے۔ 3 سال کی عمر تک بچہ ماں
باپ کے مزاج و ماحول سے آشنا ہو جاتا ہے۔ ایسے وقت میں اکثر مائیں بچوں کی
بہتر دیکھ بھال نہیں کرتیں یا ماسی کے سپرد کر کے جان چڑھا لیتی ہیں جس کا
نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچے کا جذباتی تعلق ماں سے نہیں بن پاتا۔ پوری توجہ نہ
ملنے کی وجہ سے بچہ بے چینی کا شکار رہتا ہے۔ پہلی چیز جو انسانی جسم پر
اپنے گہرے اثرات مرتب کرتی ہے وہ ہے بہتر نشو و نما۔ یعنی اچھی خوراک کا
ہونا۔ اگر بچے کو خوراک وقت پر نہ ملے یامناسب طریقے سے میسر نہ آئے تو اس
وقت بچے میں غصیلہ پن آنا فطری سی بات ہے۔
اگر آپ مشاہدہ کریں کہ جو مائیں اپنے بچوں کے سارے کام خود کرتی ہیں۔ ان کے
بچے شرارتی ہونے کے باوجود باتمیز اور سیلقہ دار ہوتے ہیں۔ جن بچوں کی
مائیں ان کی صفا ئی ستھرائی اور وقت پہ کھانے کا خیال نہیں رکھتیں ان کے
بچے اکثر نیم پاگلوں جیسی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ گھروں میں باپ ایسے
ہوتے ہیں وہ گھر آتے ہی بچوں پر چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس بات سے
انکار نہیں کہ بچوں کا ایگریسو ہونا ہماری بہت ساری ماحولیاتی تبدیلیوں کی
وجہ سے بھی ہے لیکن ماں باپ کی طرف سے پوری توجہ کا نہ ملنا اور ماں باپ کے
ایسے رویوں میں پلنے والے بچے اکثر بے چینی کو اونچی آواز اور لڑائی جھگڑے
کے ذریعے باہر نکالتے نظر آتے ہیں۔
دوسری بڑی وجہ باہر کا کھانا یا پھر بے وقت فاسٹ فوڈ روزانہ کی بنیاد پر
کھانا ہے۔ ایسے کھانے سے بنیادی نشو نما نہیں ہوتی اور کمزوری پیدا ہوتی
ہے۔ پانی کی کمی واقع ہوتی ہے جس سے بچے کی طبیعت میں ایگریشن پیدا ہوتی
ہے۔ بچے بہت چھوٹی عمر میں ہی ڈیپریشن کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ بچے کی صفا
ئی اور حلال روزی سے پکا کھانا یہ دونوں چیزیں بچے کی جسمانی اور باطنی
تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ بچے پہ کبھی کسی اور بات کا یا کسی اور کا غصہ مت
نکالیں۔ تربیت ایک صبر آزما اور بہت نازک معاملہ ہے۔ اکثر ہمارے اردگرد کے
حالات ایسے ہو جاتے ہیں جس سے کوئی پریشانی لمبے عرصے کے لیے پیدا ہوجاتی
ہے اور ماں باپ بچوں کو پوری توجہ نہیں دے پاتے۔ ماں اپنی پریشانی میں بچے
پہ بلاوجہ غصہ نکالتی رہتی ہے اس وجہ سے بھی بچے چڑ چڑے پن کا شکار ہو جاتے
ہیں جبکہ بچہ ابھی خود سیکھنے کے دور سے گزر رہا ہوتا ہے۔ بچے کو پریشان کن
رویوں کی سمجھ نہیں آتی اس وجہ سے بھی وہ پریشانی کا اظہار ماں کو تنگ کر
کے کرتا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ تحمل اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک چیز
جو بچے نے ابھی سیکھی نہیں آپ نے اسے سکھایا نہیں اور اس بات پہ آپ بچے پہ
چیخیں اور چلائیں تو یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ ایسے رویوں کے نتائج بہت بھیانک
ہوتے ہیں۔ یادرکھیے غصہ ایک شیطانی رویہ ہے اور جب ہم غصہ کرتے ہیں وہ
شیطان چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ ننھی جان وقتی طور پہ تو آپ کا غصہ جذب کر لیتی ہے
لیکن جب اولاد خود مختار ہوتی ہے تو جو غصہ اور خوف اندر دبایا ہوتا ہے وہ
نافرمانی کی صورت میں باہر آتا ہے۔ یہی اولا د اونچی آواز میں آنکھیں نکال
کر گردن اکٹرا کر آپ سے بات کرتی ہے۔ بڑ ھاپے میں انسان کو محبت اور سہارے
کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت انسان اسی پریشانی میں مبتلا رہتا ہے کہ
میری تربیت میں کہاں غلطی ہوئی۔ اب جو چیز آپ نے الماری میں رکھی ہی نہیں
وہ باہر کیسے آئے گی۔؟ کہتے ہیں ایک سے 10 سال تک بچے کے نوکر بن جاؤ۔ 11
سے 20 سال تک اس کے استاد بنے رہو اور 20 کے بعد اس کے دوست بن جاؤ۔ ان
تینوں ادوار میں محبت، صبر، رعب اور عزت کا توازن برقرار رکھنا ہی والدین
کا اصل امتحان ہے۔
بار بار بولے جانے والے جملے اور باتیں بچوں کی شخصیت کے بیج ہوتے ہیں۔
انسان کی شخصیت بچپن کے ان بیجوں کا ثمر ہوتی ہے۔ نرم لہجہ، مثبت جملے اور
حوصلہ افزائی بچوں کی شخصیت پر مثبت اثرات ڈالتے ہیں۔ بچے اﷲ کی بہت
خوبصورت نعمت ہیں ان کی حفاظت کیجیے، بے پناہ محبت اور عزت دیجیے۔ بچوں کو
ہمیشہ نرم لہجے میں آپ کہہ کر مخاطب کیجیے۔ بچے سب سے زیادہ آپ کی توجہ اور
محبت کے حقدار ہیں۔ اگر بچے کے غصے کو وقت پر ٹھیک نہ کیا جائے تو ایسے بچے
کی ساری زندگی بڑی مشکل میں گزرتی ہے۔ اس کے رویے کی خرابی کی وجہ سے اس کی
ازدواجی اور معاشرتی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ بچے کی سیلف مینجمنٹ اور ایموشنل
مینجمنٹ بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ اس کا اپنا اندرو نی سکون برباد ہو جاتا ہے۔
کوئی نہیں چاہیے گا کہ ان کا بچہ بھری جوانی میں کسی نفسیاتی بیماری کا
شکار ہو جائے۔
اگر آپ ذاتی طور پر کسی وجہ سے پریشان ہیں تو اﷲ سے مدد طلب کریں اور خود
پر کنٹرول پیدا کریں۔ مشکل حالات سب پر آتے ہیں مگر اس کا ہرگز یہ مطلب
نہیں کہ ان حالات کا اثر بچوں پر پڑنا شروع ہوجائے۔ |