خالد کا شمار بلا مبالغہ ان لوگوں میں کیا جاسکتا تھا
جنہوں نے زندگی میں کبھی بھی ماں کی نافرمانی نہیں کی تھی- وہ زیادہ مذہبی
نہیں تھا مگر ماں کی نا فرمانی کو حد سے زیادہ برا سمجھتا تھا- اس کی تین
بہنیں اور ایک بھائی تھا- وہ چاروں اس سے بڑے تھے- باپ کا انتقال بہت پہلے
ہوگیا تھا- وہ ایک سرکاری ملازم تھا اور اس کے مرنے کے بعد ان کی ماں نے
پنشن سے ملنے والے پیسوں سے اپنے بچوں کی پرورش کی تھی-
یہ لوگ جب چھوٹے تھے تو خالد کے علاوہ اس کی تینوں بہنیں اور بھائی عام
بچوں کی طرح تھے- دل چاہا تو ماں کی بات مان لی، دل نہ چاہا تو نہ مانی-
مگر خالد ایسا نہ تھا- وہ ماں کی ہر بات کو اولیت دیتا تھا اور اس پر عمل
کرتا تھا-
اس کی اس عادت کا ماں کو ادراک ہوا تو اس کی ساری توجہ اسی کی طرف ہو گئی-
ہر کام کے لیے اسے خالد ہی نظر آتا تھا- اسے کوئی چیز منگوانا ہوتی، گھر کا
کوئی اور کام کروانا ہوتا تو وہ بجائے دوسرے بچوں کی خوشامد کے صرف ایک
مرتبہ اس سے کہتی اور وہ کام ہو جاتا- کھانے پینے میں، کپڑوں کے معاملات
میں بھی خالد اپنی ماں کی پسند کو ترجیح دیتا تھا- اس بارے میں بھی اس نے
اپنی ماں کو کبھی تنگ نہیں کیا تھا- وہ حقیقی معنوں میں ایک فرمابردار بیٹا
تھا-
خالد کی تین بہنوں میں سے دو کی تو شادی ہوگئی تھی- مگر اس کی سب سے بڑی
بہن سعیدہ ابھی تک گھر بیٹھی ہوئی تھی- اس کی طرف سے ماں کافی فکرمند رہتی
تھی- اس کی یہ بہن شکل و صورت اور گھر گرہستی کے معاملات میں بہت اچھی تھی-
اس کے علاوہ وہ دس جماعت تک پڑھ بھی گئی تھی مگر اس کے باوجود اس کا رشتہ
نہیں آتا تھا- اس بات نے اسے کسی حد تک چڑچڑا بنا دیا تھا اور اس کے ذہن
میں منفی سوچیں پیدا کر دی تھیں-
ایک روز ان کی ایک جاننے والی ان کے گھر آئیں اور انہوں نے یہ امید دلائی
کہ ان کی بیٹی سعیدہ کی شادی ہو تو جائے گی مگر اس کے بدلے میں ان کو اپنے
کسی بیٹے کی شادی دولہا کی بہن سے کرنا پڑے گی- دولہا کی اس بہن کا رنگ
سانولا تھا اور شائد یہ ہی بات اس کی شادی میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی- اس کا
کوئی رشتہ ہی نہیں آتا تھا-
خالد سے بڑا ایک بھائی تھا اور تیس بتیس سال کا ہوگیا تھا- خالد کی ماں کو
یہ رشتہ غنیمت لگا اور انہوں نے اپنے بڑے بیٹے سے اس بارے میں بات کی اور
اس کو اس لڑکی سے شادی کے لیے رضامند کرنا چاہا-
یہ بات سنتے ہی وہ بھڑک اٹھا- وہ کسی اور جگہ شادی کرنا چاہتا تھا مگر اندر
کی خبر تھی کہ لڑکی والے راضی نہیں ہو رہے تھے- وہ اس امید پر بیٹھا تھا کہ
شاید وہ مان جائیں اور اس کی شادی اسی لڑکی سے ہوجائے جس سے وہ محبّت کرتا
ہے- اس نے اپنی ماں سے صاف انکار کردیا-
ماں پھر ماں ہوتی ہے- اسے اپنی بیٹی کی ڈھلتی عمر کا احساس تھا- وہ اس موقع
کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی تھی- بڑے بیٹے کے انکار سے اسے سخت مایوسی
ہوئی اور اس نے اس سے بات چیت بند کردی-
پھر اچانک اسے خالد کا خیال آیا- وہ ایک سرکاری محکمے میں پندرہ گریڈ کا
ملازم تھا- اس کی تنخواہ اچھی تھی اور اس کو رہائش کے لیے سرکاری گھر بھی
ملا ہوا تھا- اس گھر کو اس نے تالا لگا کر رکھا ہوا تھا کیوں کہ وہ جس گھر
میں رہتے تھے وہ کافی بڑا تھا- پھر وہ ماں کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ رہنا
بھی نہیں چاہتا تھا- اس کی بھی شادی کی عمر ہو چلی تھی-
ماں نے اس سے بات کی اور کہا-
"تمہاری اس قربانی سےسعیدہ کا گھر بھی بس جائے گا اور خود میری پریشانیوں
کا خاتمہ بھی ہوجائے گا"-
حسب توقع خالد نے ماں کے فیصلے پر سر جھکا دیا- ماں نے اسے دل کی گہرائیوں
سے دعائیں دیں- وہ یہ دعا بھی کرتے ہوۓ اٹھی کہ خدا سب ماؤں کو خالد جیسا
فرمابردار بیٹا عطا کرے-
باقی تمام مراحل چند روز میں طے پاگئے- لڑکی اور لڑکے والوں نے ایک دوسرے
کے بارے آس پاس کے لوگوں سے پوچھ گچھ بھی کرلی اور شادیوں کی باقی شرائط
بھی طے پاگئیں- چند روز بعد یہ شادیاں انجام کو پہنچیں-
شادی سے پہلے خالد نے ماہ نور کی صرف چند تصویریں ہی دیکھی تھیں- اس کے
سانولے رنگ کا تصویریں دیکھ کر بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا تھا- تصویریں
دیکھ کر ہی وہ اسے پسند آگئی تھی- اسے اس بات کی بہت خوشی تھی کہ اس نے
اپنی ماں کے فیصلے کے آگے بلا چوں چراں کیے سر جھکا دیا تھا-
شادی کے بعد اس کی یہ پسند مزید بڑھ گئی- ماہ نور ایک مثالی بیوی ثابت ہوئی
تھی- اس کا رنگ تو سانولا تھا مگر چہرے کے نقوش بہت دلآویز تھے- پھر اس کے
بولنے میں ایک ایسی نرمی اور دلکشی تھی کہ اس کی آواز سن کر خالد کے دل میں
گدگدی سی ہونے لگتی تھی-
ماہ نور کو اندازہ ہوگیا تھا کہ خالد اپنی ماں سے بے حد محبّت کرتا ہے- اس
کو یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ اس نے آج تک ماں کے کسی حکم سے انحراف نہیں
کیا تھا- وہ ایک اچھی لڑکی تھی- اس نے سوچا کہ اگر وہ اپنی ساس کی زیادہ سے
زیادہ خدمت کرے گی تو یہ بات خالد کے دل میں اس کی مزید قدر و منزلت پیدا
کرے گی- اس نے تھوڑے ہی عرصے میں اپنے اخلاق اور خدمت سے ساس، جیٹھ اور
شوہر کے دلوں پر قبضہ جما لیا تھا-
خالد کو محسوس ہوا کہ وہ اس کی ایک ایک چیز کا بہت خیال رکھتی ہے- وہ اپنے
دوستوں سے ان کی بیویوں کے رویے کی شکایات سنتا رہتا تھا مگر ماہ نور نے
اسے ابھی تک کسی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا- اس چیز نے خالد کے دل میں اس
کی محبّت اور بھی بڑھا دی تھی- وہ اس بات کی کوشش کرتا تھا کہ کام سے سیدھا
گھر آئے اور ماہ نور کے ساتھ وقت گزارے- وہ گھر کے کاموں میں مشغول ہوتی تو
وہ بھی اس کے ساتھ ساتھ ہی ہوتا تھا- ماہ نور کے چھوٹے موٹے کاموں میں وہ
ہاتھ بھی بٹاتا رہتا تھا- ان دونوں کو ایک ساتھ ہنسی خوشی دیکھ کر خالد کی
ماں بھی دل ہی دل میں خوش ہوتی تھی-
ماہ نور صبح سویرے خالد سے پہلے بیدار ہوجاتی- گھر میں اور کوئی بہو تو تھی
نہیں، وہ نماز سے فارغ ہو کر سب کے لیے ناشتہ بناتی- خالد کی ماں کو بھی اس
کی وجہ سے بہت آسانی ہوگئی تھی- وہ اب دیر سے سو کر اٹھنے لگی- صبح اس کے
کرنے کے لیے کوئی کام تو ہوتا نہیں تھا-
یہاں تو سب ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا مگر شادی کے تھوڑے ہی عرصے بعد سعیدہ کی
اپنے شوہر سے کھٹ پٹ شروع ہوگئی- کچھ وہ زبان کی تیز تھی کچھ اس کا شوہر
گرم دماغ کا تھا- لڑائی جھگڑے اتنا بڑھے کہ ایک روز وہ شوہر سے لڑ جھگڑ کر
اپنے گھر آ کر بیٹھ گئی-
ماں کو اندازہ تھا کہ سعیدہ زبان کی تیز ہے- اس نے اس کو اس کی غلطی کا
احساس دلایا اور اس کی ذرا بھی طرف داری نہیں کی- سعیدہ کو جب ماں کی طرف
سے شہہ نہیں ملی تو اسے خطرے کا احساس ہوا- اس کے دونوں بھائی بھی الگ الگ
سے تھے- انہوں نے اس کے گھر آ کر بیٹھ جانے پر اس کی ذرا بھی ہمت افزائی
نہیں کی اور نہ ہی یہ کہا کہ وہ ابھی جا کر اس کے شوہر کو مزہ چکھاتے ہیں-
سعیدہ کی ماں کو امید تھی کہ دو ایک روز میں اس کے سسرال سے آ کر اسے کوئی
لے جائے گا- مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا- دروازے کی بیل بجتی تھی تو وہاں
کوئی اور ہی ہوتا تھا سعیدہ کا شوہر یا کوئی سسرالی نہیں ہوتا تھا-
ان لوگوں نے فون پر بھی رابطہ نہیں کیا تھا-
ماہ نور البتہ اس کوشش میں تھی کہ اس مسلے کا کوئی حل نکل آئے اور سعیدہ
واپس اپنے سسرال چلی جائے- اس نے اس سلسلے میں فون پر بھی اور خود اپنے گھر
جا کر بھی کئی مرتبہ کوشش کی تھی کہ یہ مسلہ سلجھ جائے، مگر کامیابی نہ
ہوئی- اس کا بھائی بیوی کی بدزبانی سے سخت طیش میں تھا-
ہفتہ گزرا اور سعیدہ کے سسرال سے کوئی نہ آیا تو اس کی ماں کو معاملہ
گھمبیر ہوتا نظر آیا- اس نے سوچا کہ اگر اس نے اب بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا
تو پانی سر سے اونچا ہوجائے گا- وہ دل کی ایک اچھی عورت تھی مگر بیٹی کے
معاملے نے اسے دل کے بجائے دماغ سے کام لینے پر مجبور کر دیا-
سعیدہ کو بھی احساس ہوگیا تھا کہ سسرال والوں کی بے اعتنائی اس کے حق میں
بہتر نہ ہوگی- اس نے بہت سوچ بچار کے بعد اپنی چھوٹی نند کو فون کیا- فون
پر بات ہوئی تو اسے نند کے لہجے میں بے رخی سی محسوس ہوئی- اس نے بتایا کہ
یہاں پر اس مسلے پر کافی گفت و شنید ہوئی تھی- چونکہ وہ اپنی مرضی سے گئی
تھی اس لیے بھائی جان اس بات پر بہت خفا ہیں- وہ اب اس بات پر تیار نہیں
ہیں کہ آپ کو دوبارہ گھر میں رکھیں- وہ تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ آپ کے
جہیز کا سامان واپس آپ کے گھر بھیج دیں گے-
یہ سن کر سعیدہ کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی- وہ جلدی سے ماں کے پاس آئ
اور اسے ان باتوں سے آگاہ کیا-
سعیدہ کی یہ باتیں سن کر اس کی ماں چراغپا ہوگئی- اب وقت آگیا تھا کہ وہ
بھی آخری چال چل دیتی- وہ خالد کے آنے کا انتظار کرنے لگی-
اس صورتحال سے ماہ نور بھی سخت پریشان تھی- اس کے اچھے رویے اور اخلاق کے
باوجود سعیدہ کے گھر بیٹھ جانے کے بعد اس کی ساس اس سے کٹی کٹی سی رہ رہی
تھی- ایسی شادیوں کا انجام اگر اچھا نہ ہو تو اسے پتہ تھا کہ کیا ہوتا ہے-
ایک وہاں سے آزاد ہو کر آتی ہے اور دوسری یہاں سے آزاد ہو کر جاتی ہے- قصور
ایک کا ہوتا ہے سزا دونوں کو ملتی ہے-
شام کو جب خالد گھر آیا تو اس کی ماں اسے الگ کمرے میں لے گئی- اس کے چہرے
پر پریشانی کے اثرات محسوس کر کے خالد بھی چونک گیا- وہ سمجھ گیا کہ سعیدہ
کا مسلہ ہوگا-
جب اس کی ماں اسے اپنے ساتھ لے جا رہی تھی تو ماہ نور کھڑکی میں سے اسے
دیکھ رہی تھی- اس کا دل ڈوبنے لگا اور کئی انجانے خدشوں نے اسے گھیر لیا-
خالد کی ماں نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور بولی-
"خالد میں نے بہت صبر کرلیا ہے- وہ لوگ پتہ نہیں کیا چاہتے ہیں- مجھے پتہ
چلا ہے کہ وہ سعیدہ کے جہیز کا سامان بھی واپس کررہے ہیں"-
"میرا تو خیال ہے کہ ہمیں وہاں چل کر بات کرنا چاہیے"- خالد نے کہا- "ماہ
نور بھی مسلسل ان سے رابطے میں ہے- دولہا بھائی کچھ زیادہ ہی غصے میں معلوم
دیتے ہیں"-
"ہم اس کی کون سی جائدادیں دبا کر بیٹھ گئے ہیں کہ وہ غصہ کر رہا ہے- کیا
میاں بیویوں میں جھگڑے نہیں ہوتے- ایسا بھی کیا کہ دوسرے کو پاؤں کی جوتی
سمجھ لیا جائے"- اس کی ماں تلملا کر بولی- "مجھے اب تم سے یہ ہی کہنا ہے کہ
اس سے پہلے کہ سعیدہ کے جہیز کا سامان وہ لوگ واپس کریں، تم اپنی بیوی کو
اس کے سامان کے ساتھ اس کی ماں کے گھر روانہ کردو"-
"مگر امی........"- خالد نے گھبرا کر کچھ کہنا چاہا –
لیکن اس کی ماں نے اس کی بات کاٹ دی اور بڑے غصے سے بولی "اگر مگر کچھ
نہیں- تم وہ ہی کرو گے جو میں تم سے کہہ رہی ہوں- ابھی اور اسی وقت- یہ
میرا حکم ہے"-
ماں کی دو ٹوک بات سن کر خالد کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے- تھوڑی دیر ماں
کے پاس بیٹھا ہی روتا رہا پھر اپنے کمرے میں آیا- ماہ نور بستر پر پریشان
بیٹھی تھی- وہ اس سے کچھ دور بیٹھ گیا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا –
"ماہ نور- میں سخت اذیت میں مبتلا ہوگیا ہوں- ماں جی کا حکم ہے کہ تم اپنے
گھر روانہ ہوجاؤ- اپنا سامان بھی لے جاؤ"- یہ کہہ کر وہ ہچکیوں کے ساتھ
رونے لگا- تھوڑی دیر بعد اس نے کہا-
"تم سامان پیک کرو- میں ٹرک منگواتا ہوں"-
ماہ نور کو چکر سے آنے لگے- پھر اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی- وہ
روتے ہوۓ اپنا سامان سمیٹنے لگی- خالد نے آستین سے اپنے آنسو صاف کیے اور
موبائل پر کسی کو ٹرک لانے کو کہا- تھوڑی دیر میں ٹرک پہنچ گیا- اس میں دو
مزدور بھی موجود تھے- خالد ان کے ذریعے وہ سامان ٹرک میں لدوآنے لگا جو
شادی کے وقت ماہ نور اپنے ساتھ لائی تھی- جب سارا سامان ٹرک پر چڑھا دیا
گیا تو خالد نے ٹرک ڈرائیور سے کہا "سامان کو اپنی نگرانی میں اتروانا- ہم
بھی تھوڑی دیر میں پہنچ جائیں گے"-
خالد کا بھائی گھر میں نہیں تھا- خالد کی ماں اور سعیدہ ایک دوسرے کمرے میں
دروازہ بند کر کے بیٹھ گئی تھیں- ان دونوں میں سے کسی نے بھی ماہ نور سے
ملنے کی کوشش یا اس کو خدا حافظ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی- خالد کو
یہ بات بتانے کے لیے خود ہی ان کے پاس جانا پڑا کہ ماہ نور جا رہی ہے-
بے زبان اور بے بس ماہ نور کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا- اس کے سوچنے
سمجھنے کی تمام صلاحتیں جانے کہاں چلی گئی تھیں- اس کو تو صرف یہ پتہ تھا
کہ چند ماہ پہلے اس کا گھر آباد ہوا تھا اور اب وہ گھر ٹوٹ رہا ہے- وہ شال
اوڑھ کر برآمدے میں کھڑی ہوگئی- خالد سے دور ہوجانے کے خیال نے یکدم اس کا
دل لرزاہ دیا اور وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگی-
تھوڑی دیر بعد خالد واپس آگیا- ماہ نور نے اس کی آنکھیں نم دیکھیں- ماہ نور
کو بھی اندازہ تھا کہ وہ بھی بہت افسردہ ہے مگر ماں کے حکم سے مجبور ہے- اس
کی محبّت ایک مرتبہ پھر عود کر آئ- اس کو تسلی دینے کی خاطر وہ بولی-
"دعا کیجیے گا کہ حالات ٹھیک ہوجائیں اور ہم دوبارہ اکھٹے ہنسی خوشی رہنے
لگیں- آپ روئیں مت- آپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میرا دل بیٹھ جاتا ہے"-
خالد نے اپنا موبائل نکال کر کریم والوں سے گاڑی منگوائی اور اپنا ایڈریس
بتا کر فون بند کرتے ہوۓ ہولا-
"ان حالات کا مجھے اندازہ ہوگیا تھا- میں نے پہلے ہی سارے انتظامات کر لیے
تھے- تم میری آنکھوں میں اس لیے آنسو دیکھ رہی ہو کہ آج میں زندگی میں پہلی
مرتبہ اپنی ماں کے حکم کی خلاف ورزی کرنے جا رہا ہوں- تم اپنی امی کے گھر
نہیں اپنے نئے گھر میں جا رہی ہو"-
(ختم شد) |