تحریر: مغیثہ خالد، کراچی
عربی کی ایک کتاب میں ایک واقعہ لکھا تھا جس کا ترجمہ پیش ہے۔ ایک بڑھیا نے
ایک بکری پال رکھی تھی ۔ وہ بکری اسے اپنی اولاد کی طرح عزیز تھی۔ ایک دن
وہ بڑھیا جنگل سے لکڑی لینے گئی تو وہاں ایک نو مولود بھیڑیے کا بچہ ملا جو
بھوک کی شدت سے بے چین تھا اور قریب تھا کہ اگر وہ بھوک کی شدت سے نہ بھی
مرتا تو کوئی اور جنگلی جانور اسے چیر پھاڑ کر کھا جاتا ۔ بڑھیا کو اس پر
بہت ترس آیا اور اسے اٹھا کر گھر لے آئی اور اپنی بکری کا دودھ پلایا پھر
وہ بچہ وہیں پلنے لگا یہاں تک کہ جسمانی اعتبار سے اپنی مضبوطی کو پہنچ گیا۔
ایک دن صبح جب بڑھیا اپنی بکری کو چارہ ڈالنے گئی تو اسے وہاں نہ پایا
پریشان ہو گئی اور ڈھونڈنے کے لئے باہر نکل گئی تو کچھ دیر تلاش کے بعد
معلوم ہوا کہ جس بھیڑیے کو اس نے پالا تھا وہی اسے کھا کر بھاگ گیا۔ بڑھیا
یہ جان کر نہایت غم کی حالت میں خود سے گویا ہوئی کہ کاش میں یہ بات سمجھ
لیتی کہ خصلت نہیں بدلتی اور اسی خصلت ہی کی وجہ سے بھیڑیے نے اس بکری کو
بھی نہ چھوڑا جس کے دودھ پر وہ پلا تھا۔
ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو اپنی خصلت سے اس قدر مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے
فائدے کے لیے کسی کے ساتھ بھی ہاتھ کر جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص
اپنی بوٹی کی خاطر دوسرے کا بکرا بھی ذبح کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ اب تو
لوگ معصوم اور سادہ زندگیوں سے کھیلنے میں بھی دریغ نہیں کرتے۔ علم و شعور
اور دین اسلام کی مضبوطی اور اس کے شعار کو اپنانا وہ واحد نعمت خداوندی ہے
جس کے ذریعے نہ صرف ایسے بھیڑیا صفت لوگوں کا ادراک کیا جا سکتا ہے بلکہ ان
سے بچاؤ کی تدابیر بھی اختیار کی جا سکتی ہیں۔ اﷲ تبارک تعالی ہم سب کو
ایسے لوگوں سے محفوظ فرمائیں اور اپنے حفظ و امان میں رکھیں، آمین |