سموسے پکوڑے اور احترام رمضان

کہتے ہیں کسی گاؤں میں دور دراز سے ایک پیر صاحب بطور مہمان تشریف لائے گاؤں والوں نے بڑی آؤ بھگت کی ,رنگلی چارپائیاں بچھا کر خود پیر صاحب کے سامنے زمین پر بیٹھ گئے ،کوئی ٹانگیں دبا رہا تو کوئی پنکھا جھل رہا ،کھانے کے وقت پیر صاحب کی پسندیدہ غذائیں تیا ر کی گئیں اور ان کے سامنے دستر خوان پر چن دی گئیں،پیر صاحب جب منہ ہاتھ دھو کر کھانے کے لیے دستر خوان پر پہنچے تو جہاں مزے مزے کے پکوان دیکھ کر خوش ہوئے وہیں ڈشز کے درمیان میں ایک بڑا سا ڈنڈا دیکھ کر تھوڑے حیران اور پریشان بھی ہوئے،پیر صاحب نے دیہاتیوں سے پوچھا کہ بھائی اتنے اچھے کھانے کے ساتھ اس ڈنڈے کی منطق سمجھ نہیں آتی ،لوگوں نے کہا نہیں جی بس یہ رواج ہے کہ کھانے کے ساتھ مہمان کے سامنے ایک عدد ڈنڈا ھی رکھا جاتا ہے ،پیر صاحب کے دل میں شک نے جڑ پکڑ لی کہ کہیں یہ کھانا کھلانے کے بعد اسی ڈنڈے سے مہمان کی درگت نہ بناتے ہوں اس لیے انہوں نے دوبارہ پوچھا کہ اس کا مقصد کیا ہے دوبارہ یہی جواب ملا کہ بس رواج ہے پیر صاحب نے کہا کہ اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک اس کی حقیقت نہ بتائی جائے گی اب لوگ پریشان ہوئے کیوں کہ پتہ کسی کو بھی نہیں تھا سو وہ کسی سیانے کو پکڑ کر لے آئے اس نے آتے ہی کہا ارے پاگلو، یہ اتنا بڑا ڈنڈا نہیں رکھتے ہمارے بزرگ ایک سوٹی رکھتے تھے ، لہٰذا یہ اٹھاؤ فورا اور بانس کی سوٹی لے کر آؤ سوٹی لائی گئی مگر پیر صاحب اپنی بات پر اڑے رہے کہ اس کا مقصد بتاؤ ورنہ کھانا نہیں کھاؤں گا،وہ لوگ کسی بہت ہی بوڑھے بزرگ کے پاس گئے اور اسے لیکر حاضر ہو گئے بزرگ جو چلنے پھرنے سے معذور تھے اٹھا کر لائے گئے اور جب محفل میں پہنچے مدعا دیکھا سنا تو دیہاتیوں کو کہا اؤے لکھ دی لعنت ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے ایک پیالے میں ایک تیلا رکھا کرتے تھے کہ کھانے کے بعد وہ داگر چاہے تو دانتوں میں خلال کر لے ،تم نے ڈنڈا رکھ دیا مگر قصور لوگوں کا بھی نہیں تھا کہ تیلا بڑھتے بڑھتے پہلے سوٹی پر ڈنڈے تک آن پہنچا تھا،اب آئیے اصل موضوع کی طرف روزہ ایک بالکل ایسا ہی فرض ہے جیسا کہ نماز ،حج زکوٰۃ اور جہاد،مگر آج تک نہیں دیکھا گیا کہ کبھی کسی نے یکم رمضان کو بنک سے ساری پونجی نکلوا کر گھر جاتے شخص کو زکوٰۃ خور کہہ کر دھرلیا ہو،کبھی کسی صاحب استطاعت شخص کو حج پر نہ جانے کی وجہ سے بھی کبھی گردن زنی قرار نہیں دیا گیا،نماز کا تو معاملہ ہی مختلف ہے لاکھوں کی آبادی والے محلے اور ٹاؤن کی مسجد میں چند نمازی بھی بعض اوقات مسجدوں میں دیکھے گئے ہیں مگر کبھی کسی نے باہر نکل کر نماز نہ پڑھنے والے دکانداروں اور راہگیروں کو گردن سے نہیں دبوچا کہ نماز کیوں نہیں پڑھی،وجہ صاف ظاہر ہے عبادت ذاتی معاملہ ہے جو بندے اور اﷲ کے درمیان ہے جس نے پڑھنی پڑھے جس نے نہیں پڑھنی نہ پڑھے،اسی طرح زکوٰۃ حج اور دیگر معامات کا بھی تعلق خالصتا!ً انسان کی ذات اور اﷲ کریم کے درمیان ہے،مگر روزہ جس کا تعلق اس واحد عبادت سے ہے کہ جو کسی کو کسی بھی طرح پتہ نہیں چل سکتا یہ معاملہ خالصتاً بلکہ صرف اور صرف بندے اور اس کے خالق کے درمیان ہے کوئی شخص بھی کسی کو جج نہیں کر سکتا کہ اس کا روزہ ہے یا نہیں ،مگر جس طرح باقی عبادات میں کسی کو رعایت دی جاتی ہے کہ پڑھے نہ پڑھے اس کا ذاتی معاملہ ہے یہاں آکر نہ جانے کیوں یہ فلسفہ تھوڑا ڈھیلا یا کمزور پڑ جاتا ہے اور ہم جس کسی کو بھی اس مہینے میں کھاتا پیتا دیکھیں فوراً روزہ خور کا فتویٰ لگ جاتا ہے یا لگا دیا جاتا ہے حالانکہ آج تکہ کسی پر بھی نماز خور ،حج خور زکوٰۃ خور یا جہاد خوری کا فتویٰ نہیں لگا،ہمیں کسی کے کیے گئے فعل سے نجانے کیوں اپنا اسلام خطرے میں نظر آنے لگتا ہے کیا ہمارا ایمان اتنا ہی کمزور ہے کہ کسی کو کھاتے پیتے دیکھ کر میرا روزہ خراب ہو جائے گا تو معذرت کے ساتھ مجھے اپنے معاملات پر ریویو کی ضرورت ہے میں نے روزہ اپنے لیے رکھنا ہے کسی اور کے لیے نہیں اور نہ ہی کسی اور نے میرے لیے رکھنا یا چھوڑنا ہے،انتہائی حیران کن بات ہے کہ پورا سال ہوٹلوں پر جو کچھ بک رہا ہے جیسا بک رہا ہے جتنے میں بک رہا ہے گاہکوں کو جو کچھ کھلایا جا رہا ہے کسی کی بلا سے مگر اس ایک مہینے میں تھانیدار سے لیکر ایس پی تک اور پٹواری سے لیکر ڈپٹی کمشنر تک ہر کوئی صرف اس شخص کی گردن ماپنے کے چکر میں ہوتے ہیں جس نے کسی عذر کی بنا پر روزہ نہ رکھا ہو یا کہیں کھاتا پیتا نظر آ جائے،اﷲ نے قرآن میں روزے کی بے پناہ فضیلتیں اور انعامات بتائے ہیں گنتی کے چند دن کہہ کر رکھنے کی ترغٰب بھی دی ہے مگر ساتھ رعایت بھی دی ہے کہ جو نہ رکھ سکیں مسافر ہوں یا بیمار انہیں معافی ہے اور ان کے علاوہ بھی جو لوگ کسی شرعی عذر کی بنا پر نہ رکھ سکیں وہ بعد میں رکھ کر پورے کر لیں مگر یہاں معاملہ الٹ ہے،لمبی ڈکٹیٹر شپ نے جہاں اور کئی معاملات میں اس ملک کا بیڑہ غرق کیا وہیں خود ساختہ آردینینس کے ذریعے معاشرے پر اسلام کے نام پر عجیب و غریب پابندیاں بھی ٹھونس دیں،اسی طرح کا ایک آرڈیننس احترام رمضان ہے آپ اگر اسکا بغور جائزہ لیں تو یہ آرڈئننس اور اس کو تیار کرنے والوں کی عقل اور قابلیت پر عش عش کر اٹھیں گے،اس کے مطابق کوئی بھی شخص رمضان میں کسی کھلی جگہ پر کچھ بھی کھا پی نہیں سکتا،کوئی شخص مخصوس اجازت کے بغیر ہوٹل نہیں کھول سکتا،اور اب تیلا بڑھتے بڑھتے سوٹی اور ڈنڈے تک یوں آن پہنچا کہ مخصوص اجازت والے ہوٹلوں کے آس پاس پلس کے شیر جوان منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں جونہی کوئی کھانے پر بیٹھا یہ پہنچ گئے دس اوے کیا کھا رہے ہو اور کیوں کھا رہے ہو،ڈاکٹر کی پرچی دکھاؤ اگر بیمار ہو تو یا ٹکٹ دکھاؤ جو مسافر ہو تو،اب اگر کسی کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں ہو ں گی تو روزہ خور بنا کر گردن دبوچ لی جائے گی اور وہ بے چارہ بھلے مزدور تھا یا عام آدمی عزت کی نیلامی اور تھانے کے ڈر سے وہیں پولیس سے مک مکا کرتا ہے جس کے بعد اس کی جگہ پر وہی اہلکار بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہوتے ہیں،پھر تیلا آگے بڑھ کر مزید ڈنڈ ا یوں بنا کہ اگر کسی نے دن کو سموسے پکوڑے نکالنا شروع کیے اور بچوں کا رزق کمانے کی کوشش کی تو بھی دھر لیا جائے گا،کیا روزہ صرف سموسے پکوڑوں سے ٹوٹتا ہے ،پھلوں کے بارے میں کیا خیال ہے ،یہ تو پانی کے ایک گھونٹ سے بھی ٹوٹ جاتا ہے تو کیا پھر مسجدوں میں وضو کے لیے پانی کی فراہمی بند کر دی جائے،شہر میں موجود بڑی بڑی بیکریز جو باقاعدہ گرم کر کے کھانا سموسے پکوڑے اور دیگر لوازمات فراہم کر رہی ہیں وہ مستثناء ہیں ،سختی آئی ہوئی ہے تو صر ف غریب غرباء کی،یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اگر کوئی غریب شخص اسکول کے بچوں مزدوروں یا مسافروں کے لیے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اپنی دکان لگا کر بیٹھا ہے تو میرے روزے کو اس سے کیا خطرہ ہے ،روزہ اگر عبادت ہے تو پھر اس میں زبردستی کیسی جس نے رکھنا رکھے جس نے نہیں رکھنا نہ رکھے جوابدہ وہ اﷲ کو ہے نہ حکومت کو ،یا تو ان مزدوروں کو ایک ماہ کا راشن اور تنخواہ دے دیں کہ گھر بیٹھیں کام پر نہ جائیں ریاست آپ کو اس ایک ماہ کی تنخواہ دے گی راشن بھی دے گی پھرتو بے شک آپ ایسی پابندیاں اور قدغنیں لگائیں مگر یہ سراسر ظلم ہے کہ آپ تین بجے سے پہلے کسی بھی شخص کو صرف سموسے اور پکوڑے محض اس وجہ سے نہ بنانے دیں کہ لوگوں کے روزے کو خطرہ ہے،روزے کو تو پھر پھل دودھ دہی،کولڈ درنکس اور شربت کی دکانوں سے بھی خطرہ ہے،حیرت ہے کہ لوگوں نے اسلام کے نام پر کیسی کیسی خرافات ایجاد کر لی ہیں ،میرے گھر میں کچھ افراد بعض اوقات شرعی عذر کے تحت روزہ نہیں رکھتے وہ عین اس وقت ناشتہ کر رہے ہوتے ہیں جب میں دفتر کے لیے نکل رہا ہوتا ہوں میرے دفتر میں بہت سے لوگ روزہ رکھتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو روزہ نہیں رکھتے ہمارے سامنے پانی پی رہے ہوتے ہیں مگر یقین کریں آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ گھر میں یا دفتر میں ہمارا روہ خراب ہو گیا ہو ،واٹر ڈسپنسر کے پاس کھڑے ہو کر بھی مجھے تو آج تک ایسا کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا کہ روزہ گیا کہ گیا اور تو اور اپنی بیالیس سالہ زندگی میں کم از کم میرے ساتھ تو ایسا اتفاق بھی نہی ہوا کہ بھول کر کچھ کھا لیا یا پی لیا،لیکن بات ساری عقل و شعور کی ہے یہاں گلی گلی فتوے کی فیکٹریاں کھلی ہوئی ہیں ہو سکتا ہے مجھ پر بھی اس تحریر کے بعد فتویٰ لگ جائے مگر ھم نے جو بات محسوس کرنی ہے وہ کہنی ہے غلط کو غلط کہنا ہی اصل اسلام ہے اور دوسری بات اسلام وہ ہر گز نہیں جو ہم پر آرڈینسسز کے ذریعے نافذ کیا گیا اسلام اور میرا مذہب صرف وہ ہے جو آقائے کریم حضرت محمد مصطفے ٰ ﷺ نے دنیا کے سامنے پیش کیا ،جو اتنا خوبصورت مذہب ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب مل کر اس کے کسی ایک جزو کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے،اسلام آسانیاں پیدا کرنے اور آسانیاں بانٹنے کا نام ہے،ریاست کو چاہیے کہ وہ ان ڈنگ ٹپاؤ کاموں کو چھوڑ کر اپنے اصل کام کی طرف توجہ دے،یہ احترام رمضان کے نام پر پکڑ دھکڑ یہاں نہ کھاؤوہاں نہ پیو کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے،جس نے روزہ رکھنا ہے اس نے ہر صورت ہر موسم میں رکھنا ہے اور جس نے نہیں رکھنا اس کے لیے آپ چاہے کچھ بھی کر لیں اس نے نہیں رکھنا،خدارا مزدوروں اور غریب دکانداروں پر رحم کریں اور ان کے بچوں اور فیملیز کے منہ سے روٹی کا نوالہ مت چھینیں،،،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے۔