مولانا محمد اسلم شیخوپوری
حسن خلق کا تعلق ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ بھی ہے اور بندوں کے ساتھ بھی،
ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ حسن خلق یہ ہے کہ مذکورہ پورے شرح صدر کے ساتھ
اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی پر عمل کرے، محرمات تو کیا بعض مباحات کو بھی
اللہ کی رضا کے لئے چھوڑ دے اور دوسری طرف اس کا حال یہ ہو کہ فرائض اور
واجبات کے علاوہ نفلی عبادات بھی خوب رغبت اور محبت کے ساتھ ادا کرے۔
لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک یہ ہے کہ ہر کسی کے ساتھ نیکی کرنے کی کوشش کرے
اور اپنے قول و عمل سے کسی کو تکلیف نہ دے، احسان کرنے والوں کو بہتر سے
بہتر بدلہ دے اور زیادتی کرنے والوں کو معاف کردے اگر کوئی مسلمان بیمار ہو
تو اس کی عیادت کرے، تنگدست ہو تو اس کی امداد کرے، مقروض ہو تو اسے مہلت
دے، یہ نہ دیکھے کہ دوسرے میرے ساتھ کیا کرتے ہیں، یہ دیکھے کہ مجھے اللہ
کی رضا کے لئے دوسروں کے ساتھ کیسا معاملہ کرنا چاہئے، اس کی گفتگو میں
محبت اور اپنائیت کی خوشبو ہو، قرآن کریم کی وہ تمام آیات حسنِ اخلاق ہی سے
تعلق رکھتی ہیں جن میں اعزاء و اقربا، یتیموں، مسکینوں، بیواﺅں مسافروں اور
عام انسانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے یا وہ آیات جن میں
ظلم کی مذمت اور عدل کی تعریف ہے، متکبرین کی برائی اور متواضعین کی مدح ہے،
سیہ کے جواب میں حسنہ اور زیادتی کے جواب میں احسان کرنے کا حکم ہے، خود
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حسنِ اخلاق کی تاکید فرمائی ہے اور اس
کے بے پناہ فضائل بیان فرمائے ہیں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اہل ایمان میں سب سے کامل ایمان
اس شخص کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے
جو اپنی بیوی کے ساتھ سب سے زیادہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرے۔ (ترمذی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا ”مجھے اس لئے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل
کروں۔“ (مسند احمد)
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اللہ کے نبی وہ کون
سی چیز ہے جو سب سے زیادہ دخولِ جنت کا سبب بنتی ہے، آپ نے فرمایا ”اللہ کا
تقویٰ اور خوش خلقی“ پھر پوچھا گیا وہ کون سی چیز ہے جس کی وجہ سے عام طور
پر لوگ جہنم میں داخل ہوں گے آپ نے فرمایا ”منہ اور شرم گاہ“۔ (ترمذی)
اب آئیے! اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی میں حسن اخلاق کی چند
جھلکیاں بھی دیکھ لیجئے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ کہتے تھے وہ کرتے
بھی تھے، آپ کے قول و عمل میں کوئی تضاد نہ تھا اور آپ کی زندگی قرآن کریم
کی چلتی پھرتی تصویر اور عملی تفسیر تھی۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل مدینہ کی لونڈیوں میں سے
کوئی بھی لونڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر جہاں چاہتی
تھی لے جاتی تھی۔ (بخاری) یعنی آپ ہر کسی کی خدمت اور حاجت برآری کے لئے ہر
وقت تیار رہتے تھے، چاہے وہ امیر ہو یا غریب، آزاد ہو یا غلام اور لونڈی،
اپنا ہو یا پرایا، اور اس میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں فرماتے تھے۔
حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس وقت میں نے زرد رنگ کی
قمیض پہنی ہوئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو بہت خوش
ہوئے اور اس قمیض کی بہت تعریف فرمائی، میں مہر نبوت کے ساتھ کھیلنے لگی،
اس پر میرے والد نے مجھے ڈانٹا لیکن آپ نے فرمایا اسے کھیلنے دو پھر آپ نے
اس قمیض کے بارے میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں خوب پہننے اور پرانا
کرنے کی توفیق نصیب فرمائے چنانچہ (آپ کی دعا قبول ہوئی) وہ قمیض اتنا عرصہ
استعمال ہوتی رہی کہ لوگوں میں اس کی بقا کے تذکرے ہونے لگے۔ (بخاری)
ایک چھوٹی سی بچی جو نسبی اعتبار سے رشتہ دار بھی نہیں ہے، سرورِ دو عالم
صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی ہے، اس کا والد اس
چھیڑ چھاڑ کو محسوس کرتا اور اسے بے ادبی سمجھتا ہے لیکن اللہ کے وہ نبی جو
حسنِ اخلاق کی مجسم تصویر تھے قطعاً برا نہیں مناتے بلکہ الٹا اس بچی کی
دلجوئی فرماتے ہیں۔ اس کے پیراہن کی تعریف فرماتے اور دعائیں بھی دیتے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت کی ہے، آپ نے مجھے کبھی اف تک نہیں کیا، نہ ہی کسی کام
کے کرنے پر یہ فرمایا کہ تو نے کیوں کیا اور نہ ہی چھوڑنے پر فرمایا کہ تو
نے یہ کام کیو ںنہ کیا اور آپ انسانوں میں سب سے زیادہ خوش اخلاق تھے۔“
(صحیح بخاری)
یہ اس خادم کی گواہی ہے جسے ایک دو سال نہیں پورے دس سال خدمت کی سعادت
حاصل ہوئی اور جسے آپ کی داخلی اور خارجی، ازدواجی اور معاشرتی زندگی کا ہر
پہلو دیکھنے کا موقع ملا، یہ بات حیرت انگیز ہے کہ عام انسانوں کے برعکس جو
لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جتنے زیادہ قریب تھے اور جنہیں آپ کی معاشرت
اور معاملات زیادہ سے زیادہ دیکھنے کا موقع ہاتھ آیا وہ اتنے ہی زیادہ آپ
کے مداح تھے ورنہ کئی مشہور شخصیات اور لیڈر ایسے ہوتے ہیں جن کے حسنِ
اخلاق اور اصول پرستی وغیرہ کی شہرت تو بہت ہوتی ہے لیکن جب ان کے ساتھ
عملی واسطہ پڑے اور انہیں پرکھنے اور قریب سے دیکھنے کا موقع ملے تو وہ
عوامی ہیرو بالکل زیرو ثابت ہوتے ہیں۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اب بھی وہ منظر میرے سامنے ہے
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء میں سے ایک نبی (اور درحقیقت خود
اپنی ہی) کے بارے میں بتا رہے تھے کہ اسے اس کی قوم نے مار مار کر زخمی
کردیا، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے ہوئے اللہ سے دعا کر رہے تھے: اے میرے
رب! میری قوم کو معاف فرما دے کیونکہ یہ جانتے نہیں ہیں۔ (بخاری) دوستوں
اور محسنوں کے ساتھ بداخلاقی تو ایک طرف اپنے بدترین دشمنوں کے لئے بھی آپ
کے دامن میں مغفرت کی دعاﺅں اور حسنِ اخلاق کے سوا کچھ نہ تھا، ہم جو آپ کے
نام لیوا ہیں کیا ہم بھی ایسے خوش اخلاق ہیں؟ نہیں ہرگز ہرگز نہیں! ہماری
بداخلاقی اور بدمعاملگی تو پوری دنیا میں مشہور ہوچکی ہے ہاں ہم میں سے بعض
جو خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اپنے مطلب اور غرض کے لئے اور یا پھر
ان دشمنان دین کے سامنے جو اس وقت قوت و طاقت اور سیاست کے سرچشموں پر قابض
ہیں اور جنہیں ہر اعتبار سے مادی ترقی اور عروج حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں محض اس کی رضا کی خاطر حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی
توفیق نصیب فرمائے۔ |