تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج کے اس نفسا نفسی
کے شکار معاشرے میں نوے پر سنٹ افراد جس میں عام شہری وکلا تاجر ڈاکٹرز
مولوی و پیر صاحبان سے لیکر حکومتی ارکان سر فہرست ہیں نوٹوں کی ہوس کی خا
طر اپنے ضمیر ایمان اور اپنے فرائض و منصبی کے سوداگر بن کر انسانیت کی
تذلیل کرنے میں مصروف عمل ہیں جس کی بقا کے حصول کی خا طر نواسہ رسول حضرت
امام حسین علیہ السلام اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا یہاں افسوس ناک پہلو
تو یہ ہے کہ ان ناسوروں کی وجہ سے امن و امان عدل و انصاف پیارو محبت بھائی
چارہ سچائی اعتماد احترام وفاداری شرم و حیا اور احساس کا مکمل طور پر
خاتمہ ہو چکا ہے یہاں تک کہ عدالتی نظام بھی مفلوج ہو چکا ہے ایسے گھناؤ نے
نظام میں عدل و انصاف کی توقع رکھنا بس ایک دیوانے کا خواب ہے تو یہاں مجھے
ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ چند ایک چوروں نے ایک مکان کی نقب لگا کر
گھریلو سامان چوری کر لیا جس کی اطلاع مالک مکان نے علاقے کے تھانے کو دی
جس پر تھانے کا تفشیشی آفیسر موقعہ واردات پر پہنچا تو اُس نے مالک مکان کو
کہا کہ وہ چوری شدہ سامان کی لسٹ دے جس پر مالک مکان نے تفشیشی آفیسرکی
موجودگی میں چوری شدہ سامان کی لسٹ تیار کرنا شروع کر دی کہ اسی دوران
تفشیشی آ فیسر نے مالک مکان کو کہا کہ جو سامان یہاں موجود ہے اُس کو بھی
لسٹ میں شامل کر رہے ہو جس پر مالک مکان نے تفشیشی آ فیسر کو جواب دیتے
ہوئے کہا کہ جو سامان یہاں موجود ہے اُسے میں نے فروخت کر کے اُس سے حاصل
ہونے والی رقوم آپ کو نذرانے کے طور پر دینی ہے بالکل یہی کیفیت مقتول
خاندان کے افراد کی بھی ہوتی ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں علاقے
کے چند ایک اوباش نوجوانوں نے ملکر ایک پانچ سالہ معصوم بچے کو اغوا برائے
تاوان کیلئے اغوا کیا لیکن بر وقت تاوان نہ ملنے کے سبب معصوم بچے کو گلہ
دبا کر ہلاک کر دیا جبکہ اُس کی نعش رات کے اندھیرے میں قریبی نہر میں
پھینک دی بعد ازاں ایک رحم دل پولیس آ فیسر نے اپنی قابلیت کے بل بوتے پر
بڑے ڈرامائی انداز میں مذکورہ ملزمان کو گرفتار کر کے اُن کی نشاندہی پر
معصوم بچے کی نعش نہر سے بر آ مد کر کے مذکورہ بے رحم ملزمان کے خلاف مقدمہ
درج کر کے اُن ناسوروں کو بند سلاسل کر دیا یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس
کاروائی کے دوران مذکورہ مقتول معصوم بچے کا والد جو محنت مزدوری کر کے بڑی
مشکل سے اپنے خاندان کی کفالت کر رہا تھا مذکورہ ملزمان کو سخت سے سخت سزا
دلوانے کیلئے اپنا گھریلو ں سامان جس میں طلائی زیورات بھی شامل تھے فروخت
کر کے وکلا صاحبان کی فیس ادا کی جبکہ باقی ماندہ اخراجات کیلئے مظلوم اور
بے بس والد نے مخیر حضرات سے بھیک مانگ کر پوری کیئے یہ سلسلہ ابھی جاری
تھا کہ اسی دوران مذکورہ ملزمان کے بااثر ورثا نے اپنا مقدمہ ہائیکورٹ میں
دائر کر دیا جس کی اطلاع پا کر مذکورہ مقتول بچے کا والد حیران و پریشان ہو
کر اپنے تین مرلے کا رہائشی مکان فروخت کر کے اُس سے حاصل ہونے والی رقوم
ہائیکورٹ کے وکلا کے سپرد کر کے از خود اپنے اہلخانہ جس میں معصوم بچے بھی
شامل تھے کھلے آ سمان کے نیچے عدل و انصاف کی توقع کیلئے بیٹھ گیا جبکہ اس
دوران مذکورہ ملزمان کے ورثا مجبور اور بے بس والد کو طرح طرح کی دھمکیاں
دینے کے ساتھ ساتھ تھوڑی بہت رقوم دینے کی پیش کش کرتے رہے قصہ مختصر اسی
طرح تقریبا دو سال کا عرصہ بیت گیا جبکہ اسی دوران مذکورہ ملزمان کے بااثر
ورثا نے اپنا کیس سپریم کورٹ میں دائر کر دیا جبکہ دوسری جا نب مقتول معصوم
بچے کے والد کے پاس بیچنے کیلئے کوئی چیز باقی نہ رہی جسے بیچ کر وہ سپریم
کورٹ کے وکلا کی فیس ادا کرتا جس پر مجبور والد اپنا فیصلہ خداوند کریم کے
سپرد کر کے ضلع بدر ہو کر کہیں روپوش ہو گیا بعد ازاں مختلف مکاتب و فکر سے
تعلق رکھنے والے افراد کی زبانی معلوم ہوا کہ اُن میں سے ایک ملزم جیل کے
اندر ہی مر گیا جبکہ باقی ماندہ ملزمان جو انسانیت کے نام پر ایک بد نما
داغ تھے باعزت بری ہو کر گھر آ گئے ان باتوں کو سننے کے بعد میں سوچوں کے
سمندر میں ڈوب کر یہ سوچنے لگ گیا کہ یہ کیسا عدل و انصاف ہے کہ ایک قابل
ترین آ فیسر اپنی قابلیت کے بل بوتے پر انسانیت کے قاتل ملزمان کو گرفتار
کر کے اُن کی نشاندہی پر مظلوم کی نعش بر آ مد کرتا ہے لیکن ہمارا مفلوج
نظام کئی سال گزر جانے کے باوجود اُن ناسوروں کو سزا دینے سے قاصر رہتا ہے
آ خر یہ کب تک مفلوج نظام مظلوم اور بے بس غریب افراد کی آ ہوں سے ٹکراتا
رہے گا آ خر کب تک اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو یہی کیفیت ہمارے
مولوی اور پیر صاحبان کی بھی ہے جو ہمیں نیکی کی راہ پر گامزن کرنے کے
بجائے مذہبی فسادات اور مختلف عقائد کے چکر میں ڈال کر اپنا اپنا مفاد حاصل
کرنے میں مصروف عمل ہیں اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو ایک وہ وقت
تھا کہ جب اﷲ پاک کے نیک بندے دنیا داری سے کنارہ کشی کر کے جنگلوں غاروں
اور پہاڑوں میں چھپ کر خداوند کریم کے حضور سجدہ زن ہو کر رو رو کر اپنی
امت کی بہتری اور بھلائی کیلئے دعا مانگتے تھے تاریخ گواہ ہے کہ آپ نے کبھی
بھی اپنی آل کیلئے کچھ نہ مانگا لیکن افسوس کہ آج کے پیر صاحبان ہمیں مختلف
عقائد میں مبتلا کر کے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف عمل ہیں ان کی روز
بروز بڑھتی ہوئی لوٹ مار کی ہوس کااندازہ اس بات سے لگا لیں کہ یہ پیر
صاحبان اگر کسی اپنے مرید کے گھر جاتے ہیں تو انھیں اگر وہاں پر کوئی اچھی
بھینس گائے یا پھر کوئی بکرا وغیرہ نظر آ جائے تو یہ اُسے مانگنے میں زرہ
بھر دریغ نہیں کرتے یہاں تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ جو پیر صاحبان ہم سے
بھیک مانگ کر اپنی تجوریاں بھر کر عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں وہ ہمیں
کیا دے سکتے ہیں لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم جو کچھ بھی مانگے خداوندکریم اور
اُس کے پیارے محبوب سے مانگے چونکہ یہ پتھر میں پڑے ہوئے کیڑے کو بھی رزق
دیتے ہیں اور مردوں کو زندی کرنا بس انہی کی شان ہے یہاں افسوس ناک پہلو تو
یہ ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں مقدس پیشے سے تعلق رکھنے والے ینگ ڈاکٹر جو
روس اور چین جیسے ممالک جہاں پر حرام جانور جس میں مینڈک کچھوے سانپ اور
بلیاں وغیرہ کا گوشت وہاں کی عوام حرام و حلال کی تمیز کیئے بغیر کھا جاتی
ہے سے ڈاکٹری کی ڈگریاں حاصل کر کے یہاں کے ہسپتالوں جس میں ڈی ایچ کیو
ہسپتال جھنگ صدر اور سٹی ہسپتال جھنگ شہر سر دہرست ہیں میں تعنیات ہو کر
انسانیت سے بیگانہ ہو جاتے ہیں جن کی قابلیت کا یہ عالم ہے کہ ان سے بہتر
تو مذکورہ ہسپتالوں کے کم پوڈر ہیں جو آئے روز غریب مریضوں کااج معالجہ
کرنے میں مصروف عمل ہیں جبکہ مذکورہ ینگ ڈاکٹر تو صرف اور صرف لیبارٹری
ٹیسٹوں کے مر ہون منت اپنی پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں بالکل یہی کیفیت
ہمارے بلدیات کے مفلوج نظام کی ہے جہاں پر ایک سیور مین کو غیر قانونی طور
پر سینٹری انسپکٹر بنا دیا جاتا ہے فائر بریگیڈ کے اپاہج ڈرائیور کو فائر
بریگیڈ کا افسر بنا دیا جاتا ہے حالانکہ فائر بریگیڈ کے آ فیسر کا کوئی
عہدہ ہے بھی نہیں بالکل اسی طرح پچاس پچاس ہزار روپے کے عوض جعلی سینٹری
انسپکٹر کی اسناد پانے والے اہلکار آج کھلم کھلا بغیر کسی ڈر اور خوف کے
سینٹری انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہو کر اپنے فرائض و منصبی دہاڑی لگاؤ اور
مال کماؤ کی سکیم پر عمل پیرا ہو کر ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں جبکہ حقیقت
پر مبنی سینٹری انسپکٹر کی لاہور سے اسناد پانے والے افراد آج اپنے اہلخانہ
کی کفالت کیلئے خاکروب بن کر بے بسی اور لا چارگی کی زندگی گزار رہے ہیں جس
کا واضح ثبوت بلدیہ جھنگ ہے جہاں پر کرپٹ ترین اہلکار ہیڈ کلرک کی سیٹ پر
بر جمان ہو جاتے ہیں جبکہ قابل ترین اور تجر بہ کار ہیڈ کلرکوں کو اُن کی
سیٹ سے فارغ کر کے اُنھیں ضلع کچہری کی کاروائیوں تک محدود کر دیا جاتا ہے
یہی کافی نہیں بلدیہ جھنگ میں بااثر افراد نیچے سے لیکر اوپر تک کے عملہ سے
ساز باز ہو کر لا قانو نیت کا ننگا رقص اس قدر جاری رکھے ہوئے ہیں کہ آج
ضلع جھنگ کی تمام گلیاں سڑکیں اور سیوریج کا نظام مکمل طور پر تباہ و بر
باد ہو کر رہ گیا ہے جس کے نتیجہ میں ضلع جھنگ کی عوام مختلف پریشانیوں سے
دوچار ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف موذی امراض میں مبتلا ہو کر اذیت ناک زندگی
گزارنے میں مجبور ہو کر رہ گئی ہے اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو آج
دولت کی ہوس کے پجاریوں نے پورے پاکستان کے نظام کو مفلوج بنا دیا ہے جسے
اکیلے درست کرنا وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے بس کی بات نہیں کہ جب تک
پاک فوج کے سر براہ اور چیف جسٹس آ ف پاکستان ان کا مکمل ساتھ نہ دیں چونکہ
یہ اندرونی جنگ بیرونی جنگوں سے زیادہ خطر ناک ہے ۔۔کون کہتا ہے کہ موت آئی
تو میں مر جاؤں گا۔۔میں تو ایک دریا ہوں سمندر میں اُتر جاؤں گا ۔ |