اس سے کس کو انکار ہے کہ کتاب سب سے اچھی دوست ہے اور
ایسی دوست کہ جس سے کبھی بھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچتی اور علم کی ترسیل
ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کتب بینی کی عادت ختم ہو چکی ہے جسکی وجہ سے مطالعے کا
فقدان ہے اور اسکی وجہ سے ذہن محدود ہو گئے ہیں لیکن مغربی ممالک میں
مطالعہ ابھی بھی ایک عام عادت ہے۔آپ دوستوں کو یہاں مغربی ممالک کے بارے
میں بتانا چاہتاہوں کہ یہاں ہر سال فروری کے آخری مہینے میں کتابوں کی ایک
بہت بڑی سیل لگتی ہے جس کے لیئے لوگ سال بھر منتظر رہتے ہیں۔ اس سیل میں
بہت اہم اور اچھی کتب بہت مناسب اور بعض اوقات بہت سستی قیمت پر مل جاتی
ہیں۔ لوگ اکثر وقت سے پہلے اپنی پسندیدہ کتب کی فہرست بنا لیتے ہیں-
اب جو یہ سیل شروع ہو چکی ہے تو پہلے دن بے حد ہجوم ہوتا ہے اور اکثر مقبول
مصنفین کی کتابیں پہلے روز ہی فروخت ہو جاتی ہیں۔
اسی طرح موسم خزاں میں بھی ایک دن ایسا ہوتا ہے جب لوگ آپس میں کتابیں
تبدیل کرتے ہیں اسے کہا جاتا ہے ‘‘کتابیں آپس میں‘‘۔ اس روز لوگ وہ کتابیں
جو خود پڑھ چکے ہوتے ہیں کسی قیمت کے بغیر دوسرے احباب سے بدل لیتے ہیں اور
اس طرح سب کو مختلف موضوعات کی کتابیں پڑھنے کا موقع بھی مل جاتا ہے-
میں سوچتی ہوں کیا ہم لوگ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے تا کہ لوگوں کو خاص
طور پر نوجوانوں کو مطالعے کی عادت ڈالی جا سکے۔
کتابیں لکھنا اور کتابیں پڑھنا ہماری قوم میں دو الگ شعبے ہو چکے ہیں۔ میں
عرصہ دراز سے ایک چیز محسوس کر رہا ہوں کہ اکثر مصنف حضرات جو مضمون یا نثر
مخلتف حوالوں سے لکھتے ہیں، وہ کسی اور کی تحریر کو در خور اعتناء جانتے ہی
نہیں ہیں۔ یہی وقت کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ جب قلمکار ہی مطالعے سے
دستبردار ہوجائے تو پھر عام افراد سے کیا توقع رکھنا کہ وہ کوئی کتاب پڑھیں۔
ہم پڑھنے سے زیادہ سننے کو ترجیح دیتے ہیں کہ سنی سنائی باتوں پر چلتے چلتے
آج ہم فکر و علم کے حقیقی منبابع سے قطعا دور ہو چکے ہیں۔پھر اس پر مستزاد
روگ یہ ہے کہ ہم اس سنی سنائی روایت پرستی اور مستعار علم کی بنیاد پر خود
کو عاقل و دانا جاننے لگتے ہیں۔ اس کا آج نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے
قلمکار، راہنما اور مفکرین، سبھی فکر نا رساء کے تجار بن گئے ہیں اور قوموں
کی بھیڑ میں ہماری شنوائی تک نہیں رہی۔ |