اپنے بچے کو مثالی طالب علم بنائیں

آجکل کے پر آشوب دور میں فرنچائز اداروں کی موجودگی میں تعلیمی شعبہ تجارت بن کر رہ گیا ہے۔ بچے کو سکول میں داخل کروانے کے لیئے رجسٹریشن فیسوں کی مد میں ہزاوں روپے وصول کیئے جاتے ہیں۔ سٹیشنری کے چارجز الگ اور اے سی چارجز بھی وصول کیئے جاتے ہیں۔ ماہانہ پی ٹی ایم پہ جائیں تو پارلر سے تیارہو کر آئی ہوئی ٹیچرز آپ کے بچے کو سب سے اچھا بچہ قرار دیں گی اور جب آپ اس کی تعلیمی حالت کے بارے میں کوئی سوال کریں گے تو آپ کو ایک اچھی سی اکیڈمی کے بارے میں بتا یا جاتاہے یا ہوم ٹیوٹر رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ایک تعلیمی ادارے میں میر اایک سابقہ طالب علم اکاؤنٹنٹ کا کا م کرتا ہے جب میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کی تنخواہ کتنی ہے تو اس نے مجھے بتا یا کہ اپنی تنخواہ سے ذیادہ تو میں ہوم ٹیوشن سے کما لیتا ہوں۔سکول میں ٹیچر ز والدین کو ہوم ٹیوٹر کا مشورہ دیتی ہیں اور نمبر میرا دے دیتی ہیں ۔کبھی سکول والے آئی ڈی کارڈ کے چارجز مانگتے ہیں تو کبھی دو ماہ کی اکھٹی فیس کی ڈیمانڈ کر دیتے ہیں۔صبح آٹھ بجے سے دوپہر ایک بجے تک بچے کو سکول میں پڑھانے کا احسان کرتے ہیں اور ہوم ورک کا بوجھ لیئے طالب علم جب گھر پہنچتے ہیں تو پھر سے اکیڈمی کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔اگر تو رکشے کا انتطام کیا جائے تو سکول اور اکیڈمی کے لیئے دی جانے والی فیس سے ذیادہ پیسے تو رکشے والا لے جاتا ہے۔ اگر یہ ذمہ داری والد اپنے سر پر لے لیتا ہے تو پھر دفتر میں باس سے چھٹی لینی پڑتی ہے اور گھنٹو ں ٹریفک میں سے گزر کر یہ فریضہ سر انجام دینا پڑتا ہے۔ ان تمام مسائل کا حل مشکل ہی نہیں تو ناممکن تو ضرور نظر آتا ہے۔ جب تک میر ی ملاقات پروفیسر ظفر شاہ صاحب اور پروفیسر صلاح الدین صاحب سے نہیں ہوئی تھی میری نظر میں ان مسائل کا حل تلاش کر لینا ممکن نہیں تھا۔ لیکن ان دونوں احباب سے جب طیب صاحب کے توسط سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے روزمرہ زندگی کے ان تما م مسائل کا حل مثالی ریذیڈنشل سکول کی صورت میں نکالا ۔

اس طرح کے اداروں میں ایک چھت کے نیچے طالب علم کے تما م مسائل اور مشکلات کا حل موجود ہوتاہے۔ اس ادارہ کے اوکاڑہ کیمپس کا ٹائم ٹیبل دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ اس ادارہ میں جو بچے تعلیم حاصل کریں گے وہ یقینا زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ہونگے۔صبح فجر کے وقت بچوں کو جگا یا جاتا ہے اور قاری صاحب انہیں نماز پڑھانے کے ساتھ ساتھ ناظرہ قرآن مجید بھی پڑھا تے ہیں۔اس کے بعد فزیکل ٹرینر ان کو ورزش اور پی ٹی کرواتا ہے جو ایک گھنٹے کی ہوتی ہے۔ پھر بچوں کو سکول کی تیا ری کرنے کے لیئے وقت دیا جاتا ہے۔ اسمبلی میں روزانہ گھر سے آنے والے بچوں کا پہنچنا بھی ضرری ہے۔ اسمبلی کے بعد بچوں کی پہلی چار کلاسز ہوتی ہیں اور اس کے بعد انہیں آدھے گھنٹے کی بریک دی جاتی ہے۔ اس میں بچوں کو چائے یا جوس دیا جاتا ہے جو کہ ادارہ کی طرف سے تازہ تیا رکروایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کے باقی چار پیریڈ ہوتے ہیں اور پھر ان کے ظہر کی نماز پڑھوائی جاتی ہے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوتے ہیں تو ان کو تھوڑی دیر آرام کے لیئے لٹایا جاتا ہے جس کو قیلولہ کہا جاتا ہے۔ تقریبا ایک گھنٹے کے بعد ان کی کلاس لی جاتی ہے جس میں اس دن پڑھے گئے تما م اسباق کو دہرایا جاتے ہے۔ اس کے بعدنما ز عصر کے بعد بچوں کو ایک گھنٹہ کراٹے اور جمناسٹک سکھائی جاتی ہے۔ مغرب کی نماز کے بعدان بچوں کی فرسٹ پریپ کلا س ہوتی ہے جو ایک گھنٹہ کے لیئے ہوتی ہے۔ اس میں انہیں سنیئر ٹیچرز پڑھاتے ہیں ۔ عشاہ کی نماز کے بعد کھانا دیا جاتاہے اور اس کے بعد ان کی سیکنڈ پریپ ہوتی ہے۔ اس کے بعد بچے سونے کی تیا رکی جاتی ہے۔ اس سسٹم میں بچے کو سکول سے جانے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ اتوار والے دن والدین اپنے بچے کو خرید و فروخت کے بازار لے جا سکتے ہیں۔ہر ماہ کے آخر ی تین دن بچوں کو چھٹیاں دی جاتی ہیں جس میں بچے اپنے گھر وں کو جاسکتے ہیں۔

جن شہر وں میں یہ سسٹم رائج ہیں وہاں کے لوگ اپنے بچوں کو اس میں داخل کرواتے ہیں او ر ہر سال ان کی بورڈ میں پوزیشن آتی ہیں۔اس سسٹم میں بچوں کی تمام تر توجہ تعلیم پر ہوتی ہے۔ آجکل کے مصروف والدین کی نظروں سے اوجھل ہو کر بچے یا تو موبائل یا لیپ ٹاپ پر اپنا وقت گزارتے ہیں یا پھرٹی وی پر کارٹون دیکھتے رہتے ہیں۔رات کو دیر تک جاگنے سے بچے سکول میں پوری توجہ سے پڑھ نہیں پاتے ۔ ادھوری نیند کا خمار ان کی تعلیمی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔جب تک ایک طالب علم پوری توجہ سے اپنی تعلیم حاصل نہیں کرے گا وہ کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ اس کی اعلی تعلیمی کارکردگی میں اس کے ٹائم ٹیبل کا ایک اہم کردار ہے جو نہ صرف اس کی موجودہ زندگی میں ڈسپلن پیدا کرتا ہے بلکہ اس کی آئندہ آنے والی زندگی میں بھی کامیابیاں اور کامرانیاں لے کر آتا ہے۔

 

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 71 Articles with 88943 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.