احمد سلیم سلیمی صاحب میرے کولیگ بھی ہیں۔قلم قبیلے کے
رفیق بھی اور خوش قسمتی سے دوست بھی اور اب دور کے ہمسایہ بھی۔ وہ درست
معنوں میں قلم کار ہیں۔افسانہ نویسی میں گلگت بلتستان کا نامور نام ہے بلکہ
انہیں کا ہی نام ہے۔ میرے حوالے سے ان کا پہلا اور أخری تاثر یہی ہے کہ میں
*ایک منہ پھٹ جذباتی انسان ہوں* جبکہ اپنے یاد صاحب صرف *جذباتی* پر اکتفا
ٕ کرتے ہیں۔ان دونوں میں میرے بارے قدرے مشترک یہ ہے کہ دونوں میرے سامنے
میری براٸی ثواب سمجھ کر کرتے ہیں تاہم غیبوبت میں دفاع بھی کرتے ہیں۔یقینا
ان کو ان کی نیت کے مطابق اجر ملے گا۔لیکن یہ طے شدہ ہے کہ دونوں مجھ سے
پیار کرتے ہیں۔مجھے غصہ کراکر ان کو سکون ملتا اور میں بھی ان کے سکون کے
لیے ان کیساتھ جھگڑتا رہتا۔سلیمی صاحب تو مشکل میں خاموشی سے کام بھی أجاتے
ہیں یقینا ان کا خلوص ہے۔ورنا یہ زمانہ کام أنے کا نہیں بلکہ کام خراب کرنے
کا ہے۔لوگ دوسروں کے کام بھی اجر عظیم کی نیت سے بگاڑ دیتے ہیں۔
ہمارے فکر وخیال میں کسی حد تک یکسانیت بھی پاٸی جاتی ہے لیکن اختلاف کا
عنصر ہمیشہ باقی رہتا ہے۔وہ ایک مخصوص *دھن* میں مست ہیں اور ہماری *اپروچ*
ہی الگ ہے۔ تہذیب نفوس اور تطہیر افکار کے لیے یہی اختلاف ہی باعث رحمت ہے
نہ کہ مار دھاڑ والی مخالفت۔
احمد سلیم سلیمی صاحب رمضان المبارک سے قبل گلگت امپھری سے جوٹیال اپنے نٸے
گھر منتقل ہوٸے ہیں جو ان کو مبارک ہو۔اتفاق سے ہم بھی جوٹیال میں فروکش
ہیں۔ سلیمی صاحب گزشتہ أٹھ سال سے یہی کہتے أرہے ہیں کہ جب جوٹیال شفٹ
ہوجاٸیں گے تو دوستوں کو گھر پر مدعو کریں گے اور ہم مل کر أوارہ گردیاں
بھی کریں گے لیکن انہوں نے أج کل *لیل گردیاں* شروع کی ہوٸی ہیں۔میں چونکہ
رمضان المبارک میں *قیام اللیل* کرتا ہوں۔میرے قیام اللیل کا مفہوم عام
أدمی سے ذرا مختلف ہے۔سلیمی صاحب ہمارے قیام اللیل میں مخل ہیں اور مخل
ہونا ہمیں اچھا لگتا ہے۔ وہ رات کے ساڑھے دس بجے فون کرتے ہیں اور اپنی کار
لےکر پہنچ جاتے ہیں اور مجھ سمیت رات گردیاں کرتے ہیں۔کھبی کسی موٹل پہنچتے
تو کھبی کسی چاٸے کارنر میں۔اکثر یوں ہوتا کہ اپنے کسی مشترک دوست کو بھی
بلا لیتے ہیں جو کھبی کریمی کی شکل میں ہوتا ہے تو کھبی جمشید خان دکھی
کی۔پھر کیا ہوتا کہ متنوع موضوعات پر بحث چھڑتی۔ماحول کھبی *عاشقانہ* ہوتا
ہے اور کھبی *مذہبیانہ*۔ کھبی *ادیبانہ* ہوتا ہے تو کھبی کھبی *عالمانہ*
بھی ہوجاتا ہے۔
علم و عرفان کی بات ہوتی ہے تو دور تک چلی جاتی ہے۔اداروں کے نظم و ضبط پر
بھی ہم کڑھتے رہتے ہیں اور لوگوں کے رویوں سے بھی شاکی ہوجاتے ہیں۔اور دین
ومذہب کے علمبرداروں پر بھی *ناگفتنی* کرجاتے ہیں۔ یہ بدیہی امر ہے کہ
لکھاری بہت حساس ہوتے ہیں۔ان کی تحریر و تقریر اور میل ملاپ سے حساسیت چھلک
رہی ہوتی ہے۔حساسیت کیساتھ مثالیت پسند بھی ہوتے ہیں۔کاربار حیات دیکھنے کا
انداز ان کا بلکل مختلف ہوتا ہے۔وہ کاروبار حیات کو ہزار زاویوں سے دیکھنے
کے عادی ہوتے ہیں۔عموما خود کو معاشرے کیساتھ *ان فٹ* محسوس کرتے ہیں جو
فرسٹریشن کی ایک شکل بھی ہوسکتی ہے۔
اہل قلم سے نشست و برخاست سے یہی *حساسیت* اور *مثایت پسندی* مستقل محسوس
کرتا أرہا ہوں۔اور ہاں میرا مسٸلہ مگر یہ ہے کہ میں بے محل بے دھڑک بولتا
جو کسی حد تک مستحسن بھی ہے مگر عمومی طور پر خصلت بد ہے۔ اسے مجھے اجتناب
برتنا چاہیے جو ناممکن ہے۔اور سلیمی صاحب أفیشل اور غیر أفیشل محافل میں
بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن مروت میں کہہ نہیں پاتے جو برا نہیں تو اچھا
بھی نہیں۔اشارے کنایوں اور ادبی پیراٸیوں میں کہے ہوٸے پر کون کان دھرتا
ہے۔بہر صورت انسان کو بےباک ہونا چاہیے۔ *جیک گا بلیک بٸی*
سلیمی صاحب نفیس انسان ہیں اور تمام وقت بھرپور نفاست سے سگریٹ کے کش لگاتے
رہتے ہیں۔کھبی کھبار ہماری طرف بھی بڑھاتے لیکن ہم نے *کڑک چاٸے* کے علاوہ
کوٸی نشہ پالا ہی نہیں، اس لیے سگریٹ کے کشوں سے تو معذرت کرتے ہیں لیکن
سلیمی کے اڑاٸے مرغولوں کا ضرور انجواٸی کرتے۔أج جب ہمیں پک کرنے چوک پر
پہنچے تو ہم ذرا لیٹ تھے۔ سلیمی صاحب کہنے لگے کہ *اتنا انتظار تو اچھے
وقتوں میں ہم نے محبوب کا بھی نہیں کیا تھا*۔ ہم نے عرض کیا کہ اللہ ایسے
برے دن کسی کو نہ دکھاٸے۔ یقینا اختتام عشق یا ناکامی عشق کے بعد انسان کی
حالت دیدنی ہوتی اور وہ دریا کناروں وقت گزارنے پر مجبور ہوجاتااور رومانٹک
کتابوں اورعاشقانہ ناولوں میں کھو جاتا ہے اورتخلیہ پسند ہوجاتا۔پھر بحالی
بڑی دیر سے ہوتی ہے لیکن بحالی کے بعد بھی انسان اچھے وقتوں کی یاد میں
کڑھتا رہتا ہے۔یہی حال سلیمی جی کا ہے۔میری یہ ابزرویشن پڑھ کر وہ خوب
محظوظ ہونگے اور جی بھر کر ہنس بھی لیں گے لیکن وسیع تر ذاتی مفاد کے لیے
سیاست دانوں کی طرح تردید بھی کریں گے اور ہم پر مصنوعی غصہ بھی۔لیکن مجھے
جو کہنا ہوتا ہے بلاکم وکاست کہہ جاتا۔ظفر وقارتاج کی زبان میں *جیک گا
بلیک بٸی* یعنی جو ہوگا دیکھا جاٸے گا۔تو
احباب کیا کہتے ہیں؟ |