وکیل جج لڑائی میں وکیل کو سزا۔۔ حقائق کیا ہیں؟

 معاشرئے کی اِس سے بڑی بدنصیبی نہیں ہوسکتی کہ اشرافیہ نے معاشی دہشت گردی کا ایسا جال بُن رکھا ہے کہ عام آدمی کاجینا محال ہے۔ عدالتوں میں انصاف نام کی کوئی شے اگر ملتی ہے تو اتنی دیر ہوچکی ہوتی ہے کہ اُس انصاف کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ موجودہ ایک دہائی سے جوڈیشل افسران کی تنخواؤں میں بہت زیادہ اضافہ کیا گیااور اُن کو بہتر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں تاکہ وہ یکسو ہو کر قسمت کی ماری غریب عوام کو ریلیف دینے کے لے لیے کوئی قابل ذکر کردار ادا کر سکیں۔ لیکن وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ ججوں کی جانب سے مقدمات کے غیر ضروری التوا کی وجہ سے انصاف کا خون ہورہا ہے۔ راقم کا تعلق بھی وکالت سے ہے اور راقم دیانت داری سے یہ بات سمجھتا ہے کہ وکلاء کسی طور بھی انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہیں بلکہ ماتحت عدلیہ نے خود کو فرعون سمجھا ہوا ہے اور تاریخ پہ تاریخ دی جاتی ہے۔ یوں جب کیس لٹکتا ہے تو سائل لامحالہ یہ سمجھتا ہے کہ شاید اس کا وکیل کمزور ہے اور وہ محنت نہیں کر رہا ۔ جج صاحبان عدالت میں ایک دفعہ مُنہ دیکھا کر پھر دوسرے ججوں کے چیمبرز میں بیٹھے گپیں ہانکتے ہیں جب ریڈرز سے پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جج صاحب میٹنگ میں ہیں۔یوں عام سے کیسوں میں بھی برس ہا برس لگ جاتے ہیں۔ میرا ایک کیس سول کورٹ لاہور میں نادراکے حوالے سے ہے دو سال ہوگئے ہیں ابھی تک جرح نہیں کی گئی۔ قصور کس کا ہے عدالت کا ہے نادرہ کا نمایندہ نہیں آتا تو اُس کا رائٹ کلوز کیا جائے۔ لیکن تاریخ پہ تاریخ۔ یہ تو فقط ایک مثال ہے ورنہ آوئے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ باقی مستثنیات ہو سکتی ہیں کچھ اچھے جج بھی ہیں۔ اِس طرح وکلاء میں کچھ غلط لوگ بھی ہیں ۔ وکلاء کیونکہ اپنے کیسوں کے لیے عدالتوں میں جاتے ہیں اِس لیے اُن کے جانب سے جب حق کے لیے آواز اُٹھائی جاتی ہے یا ججوں کے کنڈکٹ پر بات کی جاتی ہے تو اُسے پھر وکلاء گردی کا نام دے دیا جاتا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک پہلو ہے۔ وکلاء چونکہ معاشرے کا فعال طبقہ ہے اِس لیے " اسٹیٹس کو" کے پجاریوں کو گراں گزرتا ہے کہ کوئی حق کی آواز بلند کرئے یوں ججوں کے افسوس ناک رویے پر بات کرنے کو وکلاء گردی کہہ کر خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ جس طرح کے مشکل ترین حالات میں وکلاء کام کر رہے ہیں خدا کی پناہ۔ماتحت عدلیہ کے ججوں نے بھی خود میں نزاکتیں پال رکھیں ہیں وہ بھی نوکر شاہی کی طرح اپنی گردنوں میں سریا ڈالے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی غیر جانب دار کمیشن بنا کر حکومت اندازہ لگا سکتی ہے کہ ججوں کے کام کرنے کی کیا رفتار ہے۔ آئے دن اعلیٰ عدلیہ کی جناب سے مختلف سٹائل کی عدالتوں کا اعلان کردیا جاتا ہے لیکن افسوس ججوں کی کارکردگی کی بناء پر نتائج نہیں نکل پا رہے اُلٹا وکلاء کو الزام دیا جاتا ہے کہ وکلاء انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
 
فیصل آباد کے علاقہ جڑانوالہ میں سینئر سول جج پر حملہ کیس کے ملزم وکیل کو انسداد دہشتگردی عدالت کی جانب سے 5 سال قید و جرمانہ کی سزا سنا دی گئی۔ جڑانوالہ کی تحصیل کچہری میں 25 اپریل کو عمران منج ایڈووکیٹ نے سینئر سول جج کی عدالت میں گھس کر اپنے والد کے مقدمہ میں حق میں فیصلہ نہ دینے پر سینئر سول جج خالد محمود وڑائچ پر قاتلانہ حملہ کر دیا تھا اور عدالت میں پڑی ہوئی کرسی اٹھا کر سر میں مارتے ہوئے سینئر سول جج کا سر پھوڑ دیا۔ ملزم عمران منج ایڈووکیٹ کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔ جہاں فاضل جج محمد خلیل ناز نے جرم ثابت ہونے پر مجموعی طور پر 5 سال قید اور ڈھائی لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنا دی۔ جس پر ڈسٹرکٹ بار فیصل آباد اور تحصیل بار جڑانوالہ کی جانب سے فیصلے کیخلاف ہڑتال کر دی گئی اور موقع پر موجود وکلاء نے عدالت میں شورو غل اور ہنگامہ شروع کر دیا۔ پولیس کی بھاری نفری طلب کی گئی۔ پولیس نے عدالت کو سخت سیکیورٹی حصار میں لے کر وکلاء سمیت کسی کو بھی احاطہ عدالت میں نہ گھسنے دیا۔ وکلا نے عدالت کے گیٹ پر پتھراؤ بھی کیا۔ انسدادِ دہشتگردی کی خصوصی عدالت فیصل آباد کی جانب سے جج تشدد کیس میں ملزم عمران منج ایڈووکیٹ جڑانوالا کو پانچ سال قیدِ بامشقت کی سزا سنانے جانے کیخلاف لاہور سمیت پنجاب بھر میں آج 24 مئی کو وکلا ہڑتال کیا۔سیشن کورٹس، ایوان عدل، ضلع کچہری، کینٹ و ماڈل ٹاؤن کی عدالتوں میں وکلا پیش نہیں ہوئے۔ 20 ہزار سے زائد مقدمات کی سماعت متاثر ہوئی۔شدید گرمی اور ماہ رمضان میں ہڑتال کی وجہ سے سائلوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہوگا خاص طور پر دور دراز سے آنے والے سائل مقدمات کی نئی تاریخیں لیکر مایوس لوٹ گئے۔ وائس چئیرمین پنجاب بار کونسل کا کہنا ہے کہ جج تشدد کیس کے حوالے سے پنجاب بار کونسل اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے نمائندہ وفد نے بارہا انصاف کے علمبرداروں سے رابطہ کیا اور معاملہ کو مل بیٹھ کر حل کرنے کے لئے درخواست کی مگر انصاف کے اداروں میں بیٹھے افراد نے صرف اور صرف وکلاء برادری کو ٹارگٹ کر کے اس مقدمہ میں ضابطہ فوجداری اور آئینِ پاکستان میں دئیے گئے بنیادی حقوق کی دھجیاں اڑائیں۔ فیصلہ خلافِ قانون، مبنی بر بدنیتی اور بنیادی آئینی و قانونی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ آج جمعتہ المبارک پنجاب بھر کے وکلاء بطور احتجاج عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے، ہنگامی اجلاس منعقد کئے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ پنجاب بار کونسل نے اپنے اجلاس میں انسدادِ دہشتگردی عدالت فیصل آبادکے فیصلہ پر تنقید کی گئی۔ پنجاب بار کونسل کے ممبران کا کہنا تھا کہ محمد عمران منج ایڈووکیٹ سے کی گئی زیادتی کا ازالہ کرتے ہوئے اسے ضمانت پرفی الفور رہا کیا جائے ورنہ وکلاء انتہائی راست اقدام پر مجبور ہونگے۔

اِن حالات میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ وکلاء اور ماتحت عد لیہ کے درمیاں بہتر ورکنگ ریلیشن شپ قا ئم کرنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ اپنا کردار ادا کرے اور انصاف کی فراہمی کے لیے ججوں اور وکلاء کو ایک ایسا ماحول میں کام کرنے کو موقع دیا جائے جس سے سائلین کو انصاف مل سکے۔
 

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 383376 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More