یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جو لاکھوں جانوں کی
قربانیوں کا ثمرہے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ کے نام پر رکھی گئی تھی مگر وطن
عزیز میں اسلامی نظام کے نفاذ کی بجائے مغربی جمہوریت کا کافرانہ نظام قائم
ہے ۔نتیجے میں پورا معاشرہ مغربی تہذیب کا دلدادہ بن کر مادرپدر آزاد
افرادکی بد اعمالیوں کا گہوارہ بن کررہ گیا ہے ۔ ملک میں ایک انوکھا رواج
ہے کہ کسی بھی روح فرسا واقعہ کے بعد ہمارا قانون اعلیٰ حکومتی عہدیداران
کے نوٹس لینے یا پھر ا سوقت کا منتظررہتا ہے جب پورامعاشرہ سراپا احتجاج
کرنے سڑکوں پر آجائے۔ اور پھر ساری غفلت اورذمہ داری کا رخ محکمہ پولیس کی
طرف موڑ دیا جاتا ہے کہ بر وقت کاروائی کیوں نہ کر سکی۔ وقتی طور پر بڑے
بڑے ایکشن لئے جانے کی نوید سنائی دیتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ ہم سب بھول
جاتے ہیں تاوقتیکہ ایک اور واقعہ سامنے آجاتا ہے حالانکہ ایسے واقعات کے
بنیادی اسباب تلاش کیے جائیں تو روک تھام ہو سکتی ہے مگر ہم ڈنگ ٹپاؤپالیسی
پر گامزن ہیں۔ تازہ ترین شرمناک واقعہ اسلام آبادمیں 10سالہ فرشتہ مومن کا
ہے جو کہ صوبہ پختونخواہ کے علاقے مہمند کی رہائشی ہے جسے زیادتی کے بعد
قتل کردیا گیا ہے جس پر پوری ملکی فضا سوگوار ،ہر آنکھ اشک بار اور سول
سوسائٹی سراپا احتجاج ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطا بق اس وقت ملک میں روزانہ
11/12بچے بچیاں جنسی درندگی کا شکار ہو رہی ہیں ۔ قصور کی معصوم زینب
اورننھی فرشتہ مومن کے قتل کے واقعہ کے پس منظر میں جائیں جس کے نتیجے میں
ہمیں یہ شرمناک دن دیکھنے نصیب ہوئے ہیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اسلامی
اقدار اور اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے اسلامی تعلیمات سے نا بلدہماری
نوجوان نسل جنسی تسکین کیلئے سرگرداں مغربی دنیا کے نقش قدم پر چل پڑی ہے
۔اور پورا معاشرہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے آئے روز ایسے روح فرسا واقعات
سے اخبارات بھرے پڑے ہیں اور پھر میڈیا پر شور مچا یاجاتا ہے،، چور مچائے
شور ،،کے مصداق یہ سارا کچھ میڈیا کی آزادی کا کیا دھرا ہی تو ہے جو دن رات
عریانی فحاشی پھیلاکرایسے واقعات کا باعث بن رہے ہیں ۔ انٹر نیٹ پر اور
کیبل نیٹ ورک کے ذریعے اپنی نوجوان نسل کودن رات مخرب اخلاق پروگرام دکھائے
جائیں گے تو یہی نتیجہ ہی تو نکلے گا جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ 97% چینلز
مغربی دنیا کے ملکیتی ہیں جو اپنے مقا صد کی تکمیل کیلئے اور ایک سازش کے
تحت بے حیائی پر مبنی پروگرامزکی سرپرستی کرتے ہیں۔ الیکٹرنک میڈیا، ٹی وی،
کیبل اور انٹرنیٹ کے ذریعے غیر ملکی ثقافتی یلغارنے پورے معاشرے کو اپنی
لپیٹ میں لے رکھا ہے مشرقی ثقافت کی جگہ مغربی موسیقی اور ثقافت نے لے لی
ہے انگریزی طرز پر بے تکے انداز میں نیم برہنہ رقص وگانے بجانے کے پروگرام
پیش کیے جارہے ہیں۔ اکثر چینلز کمرشل اشتہارات میں بھی ناچنے گانے والی بے
حیا عورتوں کے ذریعے عریانی و فحاشی کو پھیلانے میں پیش پیش ہیں ۔کیبل نیٹ
ورک نے ہمارے اسلامی معاشرے کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں بیسیوں چینل دن رات
انسانیت سوز فحش ،گندے پروگرام پیش کرنے میں مصروف ہیں جن کی بدولت ہمارے
نوجوان بے راہروی کا شکار ہو کر ایسے شرمناک جرائم کر رہے ہیں ۔عاقبت نا
اندیش لادین عناصرچند ٹکوں کے عوض ہمارے معاشرے میں بے حیائی کازہر گھولنے
میں مصروف ہیں اور ڈھٹائی کی انتہا ہے کہ بے حیائی کے فروغ اور ایسے واقعات
کا باعث بننے والے شوبز اور فلمی دنیا کے لوگ بھی ان واقعات پر مذمتی بیان
بازی کرکے مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں جوخود ایسے شرمناک واقعا ت کا باعث
اور موجد ہیں اور جن کی لگائی گئی آگ کے باعث نوجوان نسل بربادی کی راہ
پرگامزن ہے حالانکہ معاشر تی اخلاقی انحطاط کے ذمہ دار یہی عناصر ہی تو ہیں
ایک سال قبل واقعہ قصور نے پوری قوم کو جنھجوڑ کر رکھ دیا تھا جس میں عمران
نامی ملزم نے درجن بھر معصوم بچیوں سے زیادتی کے بعد انھیں قتل کرنے کا
اعتراف کیا تھا ۔ملکی سطح پر صدائے احتجاج بلند ہوئی۔تو حکومت نے کچھ
اقدامات کئے مگر ایسے سنگین واقعات کی روک تھام کے لئے اس کے بنیادی اسباب
پر غور کیا اور نہ ہی قانون سازی کی۔ جب اس سفاک قاتل مجرم کوقرآنی احکامات
کے مطابق سر عام سنگسارکرنے کا مطالبہ تواتر کے ساتھ سامنے آیا تو موم بتی
مافیا،مغربی ایجنٹ NGO,s کو انسانی حقوق کا درد ستایااور سرعام سزا کی سخت
مخالفت کی جس پر اسلامی طرز کی سزا پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔اگر ننھی زینب کے
قاتل کو سر عام سنگسار کر دیا جاتا تو جنسی درندوں پر خوف طاری ہوتااور
ایسے شرمناک واقعات میں کمی آجاتی ۔مگر ایسا نہ ہوسکا اور نتیجے میں اب تک
سینکڑوں بچے بچیاں جنسی درندگی کا شکار ہو چکے ہیں۔ پچھلے چند دنوں میں سات
آٹھ معصوم بچے جنسی تشدد کا شکا ر ہوئے ہیں جنھیں بے رحم جنسی درندوں نے
زیادتی کے بعد قتل کر دیاہے۔ اخلاقی دیوالیہ پن کی انتہا ہے کہ صوبہ سرحد
کے دو ایم این ایز علی وزیر اور محسن خان داوڑ نے اس المناک واقعہ پر بھی
سیاست چمکانے اور سازش کے تحت اس شرمناک واقعہ کا بے سروپاا لزام پاک آرمی
پرلگانے کی ناکام کوشش کی ہے ۔ اخلاقیات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسے سفاک
قاتل ملزمان کو وکلاء ہی دستیاب نہ ہوں اگروکلاء صاحبان ایسے سفاک ملزمان
کے مقدمات کی پیروی سے انکار کردیں توایسے واقعات میں کمی ممکن ہے بد قسمتی
سے ہمارا حکمران طبقہ ہمیشہ سے مغرب کی تقلید میں قوم کو رقص و سرود کی
دلدل میں دھکیل دینے کے ایجنڈے پر ہمیشہ گامزن رہا ہے۔ ریاست مدینہ بنانے
کی دعویدارموجودہ حکو مت کو ایسے واقعات کو روکنے کے لئے فوری طور پر سخت
ترین قوانین سازی کرنی چاہئے اور مقامی طور پر شہریوں کو بھی مخرب اخلاق
پروگرامز دکھانے والے عناصر کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی۔روز محشر جب معصوم
زینب اورفرشتہ مومن ایسی سینکڑوں بیٹیاں یہ سوال کریں گی کہ انھیں کس جرم
کے باعث بے آبرو کرکے قتل کیا گیا تھا ۔ اس وقت ہمارے حکمران ،مذہبی و دینی
جماعتوں کے رہنماء اور معاشرے کے دیگر ذمہ دار کیا جواب دیں گے۔؟
گونگی ہوگئی آج کچھ زبان کہتے کہتے
ہچکچایا میں خود کو مسلماں کہتے کہتے ا قبال ؒ
|