ہم جسے عام طور پر "مسجد اقصی" کہتے ہیں، اسے اور بھی
دوسرے ناموں مثلا: "المسجد الأقصی" اور"الحرم القدسي الشریف" وغیرہ سے جانا
جاتا ہے۔ یہ تاریخی مسجد، فلسطین کے شہر یروشلم (القدس) میں واقع ہے، جو ان
دنوں غاصب صہیونی ریاست اسرائيل کے قبضے میں ہے۔ یہ مسجد مسلمانوں کا قبلہ
اوّل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے
تقریبا سولہ یا سترہ مہینے تک مسجد اقصی کی طرف رخ کرکے نمازیں ادا کی۔
شرعی طور پر اہمیت وفضیلت کے اعتبار سے مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد،
مسجد اقصی کا مقام ومرتبہ ہے۔ قرآن وحدیث میں مختلف جگہوں پر اس مبارک مسجد
کا ذکر آیا ہے۔ اس مسجد کے ارد گرد کی جگہوں کو برکت والی جگہیں کہا گیا
ہے۔ انھیں وجوہات کے پیش نظر دنیا بھر کے مسلمان مسجداقصی اور قدس کو بڑی
عقیدت ومحبت سے دیکھتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کے موقع سے مسجد حرام سے جس جگہ لے
جایا گیا، وہ یہی مسجد اقصی ہے۔ آپؐ نے اس مسجد میں سارے انبیاء علیہم
السلام کی امامت کی۔ آپؐ اسی مسجد سے سفر معراج پر روانہ ہوئے۔ مسجد حرام
سے مسجد اقصی کے آپؐ کے اس مبارک سفر کو قرآن نے کریم نے یوں بیان کیا ہے:
﴿سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ
إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بارَكْنا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ
آياتِنا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾. (سورۃ الاسراء:1) ترجمہ:
"پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے
گئی، جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انھیں اپنی کچھ
نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ ہر بات سننے والی اور ہر چیز دیکھنے والی ذات
ہے"۔
مسجد اقصی کو مسلمانوں کا "قبلۂ اوّل" ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ
ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے، مدینہ منورہ
تشریف لائے؛ تو آپؐ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پہلے مسجد اقصی کی جانب
ہی رخ کرکے تقریبا سترہ مہینے تک نمازیں ادا کرتے رہے۔ صحابی رسول حضرت
بَرَاء بن عازِب فرماتے ہیں: «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ صَلَّى إِلَى بَيْتِ المَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، أَوْ
سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَكَانَ يُعْجِبُهُ أَنْ تَكُونَ قِبْلَتُهُ
قِبَلَ البَيْتِ،....». (صحیح البخاری: 4486) ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا
کی؛ جب کہ آپ یہ چاہتے تھے کہ آپؐ کا قبلہ بیت اللہ (کعبہ شریف) کی طرف
ہو...."۔
مسجد اقصی وہ مسجد ہے جس کی بنیاد روئے زمین پر مسجد حرام کے تقریبا چالیس
سال بعد رکھی گئی۔ اس حوالے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَوَّلِ
مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ «الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ» قُلْتُ:
ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: «الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى» قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟
قَالَ: «أَرْبَعُونَ عَامًا، ثُمَّ الْأَرْضُ لَكَ مَسْجِدٌ، فَحَيْثُمَا
أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ». (صحیح مسلم: 520) ترجمہ: "میں نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روئے زمین پر سب سے پہلے تعمیر کی جانے والی مسجد
کے حوالے سے سوال کیا۔ آپ نے جواب دیا: "مسجد حرام"۔ میں نے سوال کیا: پھر
کون(اس کے بعد کون سی مسجد تعمیر کی گئی)؟ تو آپ نے جواب دیا: "مسجد اقصی"۔
میں نے سوال کیا: ان دونوں کی تعمیر کے دوران کتنا وقفہ ہے؟ تو آپ نے جواب
دیا: "چالیس سال، پھر پوری زمین تیرے لیے مسجد ہے،جہاں بھی تمھیں نماز کا
وقت آجائے، نماز پڑھ لو"۔
اس حدیث شریف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السّلام نے "مسجد حرام"
کی تاسیس کے 40/سال بعد مسجد اقصی کی بنیاد رکھی۔ محدثین نے مزید وضاحت یہ
کی ہے کہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ مشرفہ کی تعمیری تجدید کی،
اسی طرح مسجد اقصی کی تجدید یعقوب علیہ السلام یا داؤد علیہ السلام نے کی
اور سلیمان علیہ السلام نے اس کی تکمیل کی۔
ایک حدیث شریف میں مسجد اقصی سے حج یا عمرہ کا احرام باندھ کر، حج یا عمرہ
ادا کرنے والے کو اگلے اور پچھلے گناہوں کے معافی کی بشارت دی گئی ہے۔ نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے
کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
«مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ، أَوْ عُمْرَةٍ مِنَ الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى إِلَى
الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَا
تَأَخَّرَ - أَوْ - وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ». (سنن ابي داؤد: 1741)
ترجمہ: "جس نے مسجد اقصی سے مسجد حرام کے لیے حج یا عمرہ کا احرام باندھا،
اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے – یا – جنت اس کے لیے واجب
ہوجائے گی"۔
مسجد اقصی ان تین مساجد میں سے ایک ہے جن میں عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کی
نیت سے سفر کرنا باعث ثواب ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس
حدیث کو مختلف ابواب کے ذیل میں ذکر کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: المَسْجِدِ
الحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
وَمَسْجِدِ الأَقْصَى». (صحیح بخاری:1189) ترجمہ: "(عبادت کی نیت سے) صرف
تین مسجدوں کے لیے ہی سفر کیا جائے (اور وہ ہیں): مسجد حرام، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد اقصی"۔
ایک حدیث شریف میں مسجد اقصی میں ایک پڑھی جانے والی نماز کا ثواب، پچاس
ہزار نمازوں کے ثواب کے برابر بتایا گیا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «صَلَاةُ
الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ بِصَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ
بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ صَلَاةً، وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي
يُجَمَّعُ فِيهِ بِخَمْسِ مِائَةِ صَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ
الْأَقْصَى بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِي
بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ». (سنن ابن ماجہ: 1413) ترجمہ: "ایک آدمی کی ایک
نماز اپنے گھر میں، (ثواب میں) ایک نماز کے برابر ہے، اس کی نمازمحلے کی
مسجد میں، پچیس نمازوں کے برابر ہے، اس کی نماز جامع مسجد میں، پانچ سو
نمازوں کے برابر ہے،اس کی نماز مسجد اقصی میں، پچاس ہزار نمازوں کے برابر
ہے، (اسی طرح) اس کی نماز میری مسجد (مسجد نبوی) میں، پچاس ہزار نمازوں کے
برابر ہے اور اسی شخص کی ایک نماز مسجد حرام میں، ایک لاکھ نمازوں کے برابر
ہے"۔
مسجد اقصی کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے کہ اسی مسجد سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کا سفر معراج ہوا۔ اسی سفر معراج میں آپ کو نماز کا تحفہ دیا گیا۔ یہ
واقعہ بخاری شریف میں ایک لمبی حدیث میں آیا ہے۔نماز والے حصے کا حاصل یہ
ہے کہ اوّلا اللہ تعالی نے اس سفر میں آپؐ کو پچاس نمازوں کا تحفہ دیا۔ پھر
حضرت موسی علیہ السلام کے کہنے پرکہ آپؐ کی امت ان پچاس نمازوں کیادائیگی
نہیں کرپائے گی۔ آپؐ نے اللہ تعالی سے نماز کی تعداد کی کمی کی درخواست کی۔
پھراللہ تعالی نے اس نماز کو کم کرتے کرتے پانچ نمازیں امت محمدیہ کے لیے
باقی رکھی۔ (بخاری: 349)
پہلی صلیبی جنگ کے بعد، جب 15/جولائی 1099ء کوعیسائیوں کا بیت المقدس پر
قبضہ ہوا؛ تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ پھرصلاح الدین
ایوبی نے 538ھ/1187ء میں بیت المقدس کو فتح کیا؛ تو مسجد اقصٰی کو عیسائیوں
کے خرافات سے پاک کیا۔ 88 سالوں کے علاوہ، عہد فاروقی سے بیت المقدس اور
مسجد اقصی مسلمانوں کے قبضے میں رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ ادھر چند سالوں سے
پھر قدس اور مسجد اقصی غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہیں؛ مگرآج
بھی مسجد اقصی اس کا انتظام وانصرام اردن کی "وزارت ِاوقاف اور شئونِ
مقدّساتِ اسلامیہ" کے تحت ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی قدس اور مسجد اقصی کو
ان ظالم وجابر اور غاصب لوگوں کے قبضے سے آزاد کرادےاور فلسطینیوں کی
قربانی بار آور ثابت ہو! آمین! |