فَمَنْ اَظْلَمُ ‘قرآن کریم کاچوبیسواں (24) پارہ ہے ۔
فَمَنْ اَظْلَمُ کامطلب ہے ’’اس سے بڑھ کر ظالم ہے ‘‘ ۔ اس پارہ میں
سُوْرۃٓ الزُّمَرِ کی آخری44 آیات , سُوْرَۃِ الْمَُْومِن یا سورۃ غافر،
سُوْرَۃ حٰمٓ السَّجْدَۃ یا سورۃ فصّلت شامل ہیں ۔
سُوْرٓ الزُّمَرِ( آخری44 آیات )
سُوْرۃٓ الزُّمَرِکی 31 آیات کا خلاصہ سابقہ پارہ میں بیان ہوچکا ، آخری
44آیات کا خلاصہ یہاں بیان کیا جاجائے گا ۔ مشر کین کی جانب سے اللہ اور
اس کے رسول ﷺ پر جھوٹے ، گھٹیا الزامات لگائے جارہے تھے، بعض بعض تو دعویٰ
کر نے لگے تھے کہ اللہ کی اولادہے، اس کابیٹا ہے، یا اس کی بیوی ہے وغیرہ
وغیرہ ، ان الزامات میں کسی قسم کی صداقت ہی نہیں تھی ۔ اللہ نے آیت 32
میں فرمایا کہ ’’اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولے ،
اور سچا دین جب اس کے پاس آئے تو اسے جھوٹا بتائے، اللہ نے کہا ’کیا ایسے
کفار کے لیے جہنم ٹھکانا نہیں ہے;238;‘ ۔ اللہ نے کسی کسی جگہ اپنی طاقت
اور اختیار کا اظہار بھی فرمایا ہے ، مقصد حوصلہ بلند کرنا، ہمت افزائی
کرنا بھی تھا ۔ کہا اللہ پاک نے ’’کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی
نہیں ، لوگ آپ کو اللہ کے سوا اوروں سے ڈرا رہے ہیں اور جسے اللہ گمراہ
کردے اس کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ‘‘،یہاں بندہ سے مراد بنی محمد ﷺ
ہیں ، یہ آپ کو غیر اللہ سے ڈراتے ہیں ، لیکن اللہ جب آپ کا حامی و ناصر
ہے تو آپ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ قرآن ، دنیا کے تمام انسانوں کو
دو گروہ میں تقسیم کرتا ہے ، ایک گروہ کافروں و مشرکین کا ہے، جو توحید پر
ایمان نہیں رکھتے ، اللہ پر الزام، رسول ﷺ کی تکذیب کرتے ہیں ، اس گروہ کا
ٹھکانا یقینا جہنم ہے، دوسرا گروہ اللہ پر مکمل ایمان اور انبیا ء کی اتباع
کرنے والا ہے ۔ ایسے لوگوں کی جگہ جنت ہوگی ۔
سُوْرۃٓ الزُّمَرکی آیت 42 میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی موت کے بارے میں
اپنی قدرت کاملہ کا تذکرہ فرمایا ہے ۔ ا س کا مشاہدہ ہم ہر روز کرتے ہیں وہ
یہ کہ جب ہم سوجاتے ہیں تو ہماری روح اللہ کے حکم سے گویا نکل جاتی ہے ۔
کیونکہ ہمارے احساس و ادراک کی قوت ختم ہوجاتی ہے اور جب ہم بیدار ہوتے تو
روح اللہ کے حکم سے دوبارہ بھیج دی جاتی ہے، جس سے ہمارے حواس بحال ہوجاتے
ہیں ۔ البتہ جس کی زندگی کے دن پورے ہوچکے ہوتے ہیں ، اس کی روح واپس نہیں
آتی اور وہ موت سے ہمکنار ہوجاتا ہے،مفسرین نے اس کو وفات صغریٰ (نیند
والی موت) اور وفات کبریٰ (دائمی موت) سے تعبیر کیا ہے ۔ اب دیکھتے ہیں کہ
عارضی موت اور دائمی موت جنہیں وفات صغریٰ اور وفات کبریٰ بھی کہا گیا ،
آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کس طرح بیان کیاہے ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ
نے’’وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت رُوحین قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا
ہے اُس کی رُوح نیند میں قبض کرلیتا ہے، پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ
کرتا ہے اُسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی رُوحین ایک وقت مقر رکے لیے واپس
بھیج دیتا ہے ۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے
والے ہیں ‘‘ ۔ یہاں اللہ پاک ہر انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ موت
اور زِیست کس طرح اُس کے دستِ قدرت میں ہے ۔ کوئی شخص بھی یہ یقین سے نہیں
کہہ سکتا کہ رات کو جب وہ سوئے گا تو صبح لازمی زندہ ہی اٹھے گا، اور ایسی
مثالیں بے شما ہمارے سامنے ہیں کہ انسان رات میں معمول کے مطابق ، تندرست و
توانا سویا صبح کو جب سب اٹھے تو اسے ابدی نیند میں سوتا ہوا پایا ۔ موت کا
تو ایک لمحہ کے لیے معلوم نہیں کہ کس کو کب موت آجائے گی، کہتے ہیں نا کہ
’’سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں ‘‘ ۔ کوئی لمحہ بھی ، کوئی پریشانی، کوئی
مشکل ، کوئی غیر معمولی بات یا کوئی بات بھی نہ سہی موت کا لمحہ ہوسکتا ہے
۔
شفاعت کی تمام اقسام کامالک صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ آیت 44 میں فرمایا اللہ
نے ’’کہہ دیجئے ساری سفارش اللہ ہی کے اختیار میں ہے، آسمانوں اور زمین
میں اسی کی بادشاہی ہے ، پھر تم اسی کی طرف لوٹا ئے جاوَگے‘‘ ۔ دل سے اللہ
اور اس کے انبیا ء پر ایمان نہ لانے والوں کی فطرت بیان کی گئی ہے ۔ یعنی
نعمت ملتے ہی سرکشی اور طغیانی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں
کہ اس میں اللہ کا کیا احسان ، یہ تو ہماری مرضی و دانائی کا نتیجہ ہے ، یا
یہ تو میری قسمت میں لکھا تھا ۔ انسان کو نہیں معلوم یہ تو اللہ کی جانب سے
آزمائش یا امتحان ہوتا ہے ، وہ شکر کرے یا کفر، قارون نے بھی تو اپنی دولت
پر گھمنڈ کیا تھا اللہ نے اسے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیاتھا ۔
صور پھوکے جانے کا تذکرہ ہے، فرمایا اللہ تعایٰ نے آیت 68 میں ’’اور اس
روز صور پھونکا جائے گا اور وہ سب مرکر گرجائیں گے جو آسمانوں اور زمین
میں ہیں ، سوائے اُن کے جنہیں اللہ زندہ رکھنا چاہے ۔ پھر ایک دوسرا صور
پھونکا جائے گا اور یکا یک سب کے سب اُٹھ کر دیکھنے لگیں گے ۔ زمین اپنے رب
کے نور سے چمک اٹھے گی ، کتابِ اعمال لاکر رکھ دی جائے گی، انبیاء اور تمام
گواہ حاصر کردیے جائیں گے ، لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ
کردیا جائے گا اور اُن پر کوئی ظلم نہ ہوگا، اور ہر متنفس کو جو کچھ بھی
اُس نے عمل کیا تھا اُس کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا ۔ لوگ جو کچھ بھی
کرتے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے‘‘ ۔ رب سے ڈرنے والے ، اس کے احکامات پر
عمل کرنے والے جنت میں داخل کیے جائیں گے ۔ وہ لوگ گروہ در گروہ جنت کی
جانب لے جائے جائیں گے ، جب وہ اس کے پاس پہنچیں گے تو جنت کے دروازے کھلو
دیے جائیں گے اور ا کے دربان ان سے کہیں گے ، تم پر سلام ہو ، تم پاکزہ رہے
، اب تم اس میں ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاوَ ۔ جنت کے آٹھ دروازوں کا ذکر
احادیث میں آیا ہے، ان میں سے ایک دروازہ ’’ریان‘‘ ہے جس سے صرف روز ے دار
ہی داخل ہوں گے ۔ کہا گیا کہ جنتی فرشتوں کو عرش کے ارد گرد حلقہ بنائے
دیکھیں گے ، وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کررہے ہوں گے ۔
ِسُوْرَۃِ الْمَُْومِن;241;سورۃ غافر
سُوْرَۃِ الْمَُْومِنمکی سورۃ ہے، اسے سورۃ غافر بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن
کریم کی ترتیب کے اعتبار سے چالیسویں (40)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار60ویں
سورۃ ہے ۔ اس میں 9رکو ،85آیات ہیں ۔ سورہ میں خاص مومن کا ذکر آیا ، اس
کانام اسی سے ماخوذہے ۔ کفار نے مکہ المکرمہ میں اعلان نبوت کے بعد کفار نے
نبی ﷺ کے خلاف دو طرح کی سازشیں تیا ر کیں ۔ ایک یہ کہ الزامات، شبہات،
وسوسے، فتنہ فساد، لڑائی جھگڑے ، عجیب عجیب قسم کی بحثیں چھیڑ دیں کے نبی
اکرم ﷺ پریشان اور زچ ہوجائیں ۔ دوسری سازش یہ کہ آپ ﷺ کو قتل کردینے کے
لیے حالات ساز گار بنائیں جائیں ۔ اس سورہ میں دو نوں سازشوں کے جواب میں
اللہ نے بہت سی باتین کیں ہیں ۔ مثالیں دیں ، سابقہ انبیاء کی ان کی قوم نے
ایسے ہی منصوبے اس وقت کے نبیوں کے بارے میں بنائے تھے ان کا انجام بتا یا
گیا ہے جیسے فرعون وغیرہ کا انجام زلت کی موت ہوا ۔ اس سورہ میں ملاءکہ
مقربین کے ایک خاص گروہ کا تذکرہ ہے، یہ گروہ ان فرشتوں کا ہے جو عرش
کواٹھائے ہوئے ہے اور اس کے اردگرد ہیں ۔ ان کا کام صرف اللہ کی حمد و ثناء
کرنا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیت 11 میں انسان کے لیے دو موتوں کا
ذکر کیا ہے فرمایا ’’اے ہمارے رب! تو نے ہ میں دوبار موت دی ، اور تونے
دوبار زندگی دی، تو ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں ‘‘ ۔ دو دفعہ موت اور
دو دفعہ زندگی کے بارے میں مفسرین کی رائے ہے کہ اس سے مراد انسان کی بے
جان زندگی سے زنددگی میں آنا، یعنی وہ وقت جب انسان کا وجود نہیں ہوتا،
بلکہ وہ اپنے باپ کی پشت میں ہوتا ہے ، اللہ نے اسے دنیا میں لانے کے لیے
پہلی زندگی اس وقت عطا فرمائی جب اس کا وجود اس کی ماں کے پیٹ میں عمل میں
آیا، باپ کی پشت سے منتقلی کو پہلی موت قرار دیا ، جب کہ دوسری موت تو وہی
ہے جس میں اللہ انسان کو دنیا میں لاتا ہے زندگی بخشتا ہے ، اور وقت مقرہ
پر وہ قبر کی گود میں چلا جاتا ہے،اسے دوسری موت کہا گیا ۔ اب انسان پھر
روز قیامت زندہ کیا جائے گا، حساب کتاب ہوگا اور نیکوں کو جنت اور گناہ
گاروں کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔ احوال آخرت کا بیان ہے جس میں اللہ
نے ڈرایا ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ، اللہ کے آخری نبی ﷺ
جن باتوں کاحکم دیں ان پر عمل کریں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم پر ظلم
و زیادتی کرنے والا فرعون ، جو بہت ظالم و جابر تھا ، اس کے علاوہ اس کے
ایک درباری مشیر وزیر ہامان ، اور قارون اپنے وقت کا بے تاج بادشاہ ، امیر
کبیر، انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی تکزیب کی انہیں جادو گر کہا، یہاں تک
کہ انہیں کے قتل کا منصوبہ بھی بنایا لیکن اللہ نے ان سب کی تمام
کارستانیوں کے جواب میں انہیں نیست و نابود کردیا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام
کا تذکرہ آیت 34 میں کیا گیا ، اس پر بھی ان کی قوم نے شکوک و شبہات کا
اظہار کیا ، ان کی موت کے بعد ان کی قوم نے خیال کیا کہ اب کوئی رسول نہیں
آئے گا ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا یعنی
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات عطا کی، پہلے قیامت کے وقوع پذیر ہ ہونے
کی تفصیل بیان کی اب آیت60 میں ایسی رہنمائی دی جارہی ہے جسے اختیار کر کے
انسان آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہوسکے ،فرمایا اللہ تعالیٰ نے ’’اور
تمہارے رب نے کہا : تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘ ۔ پھر
انسان کی پیدائش کی تفصیل67 میں بیان کی ، یہ تفصیل ا س سے قبل بھی کئی
سورتوں میں بیان ہوچکی ہے ۔ سورۃ کے اختتام پر نبی ﷺ کو صبر کی تلقین کی
گئی ، جھٹلانے والوں کے لیے جہنم کا کہا گیا ۔
سُوْرَۃ حٰمٓ السَّجْدَۃ;241;سورۃ فصّلت
سُوْرَۃ حٰمٓ السَّجْدَۃِمکی سورۃ ہے اس سورہ کو سورہ فصّلت بھی کہا جاتا
ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے اکتالیسویں (41)اور نزولِ ترتیب کے
اعتبار61ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 6رکو ،54آیات ہیں ۔ سُوْرَۃ حٰمٓ السَّجْدَۃ
دو لفظوں کا مرکب ہے ایک حٰم اور دوسرا لسجدہ ۔ اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا
ہے کہ وہ سورۃ جس کا آغاز حٰم سے ہوتا ہے اور جس میں ایک مقام پر آیت
سجدہ آئی ہے ۔ تفسیر تفہیم القرآن کے مطابق اس سورہ کا زمانہ نزول حضرت
حمزہ رحمت اللہ علیہ کے ایمان لانے کے بعد اور حضرت عمر رضہ اللہ عنہ کے
ایمان لانے سے پہلے کا ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سورۃ میں کفار کی اس
مخالفت کو موضوع ِ بحث بنایا ہے جو قرآن مجید کی دعوت کو زَک دینے کے لیے
اس وقت تیار کی جارہیں تھی ۔
آغاز ’حٰ مٓ :’ یہ قرآن ر حمٰن و رحیم کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ ایک ایسی
کتاب کہ جس کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں ، عربی زبان کا قرآن اُن
لوگوں کے لیے جوعلم رکھتے ہیں ، بشارت دینے والا اور ڈرادینے والا‘‘ ۔ یعنی
اللہ نے اس آیت میں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل
ہورہا ہے تم جتنی رٹ لگائے رہو کہ ِاسے محمد ﷺ خود تصنیف کررہے ہیں ، لیکن
سچ یہی ہے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اسی کی طرف سے نازل ہورہی ہے ۔ اور یہ کہ
اللہ اپنی مخلوق پر بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے ۔ یہ عربی میں نازل
کیا گیا اگر کسی اور زبان میں ہوتا تو اہل عرب عذر پیش کرسکتے تھے، پھر یہ
علم رکھنے والوں کے لیے ہے ۔ یہاں آیت 7 میں کہا گیا کہ’’ جوزکوٰۃ نہیں
دیتے، اور وہ آخرت کے بھی منکر ہیں ‘‘، زکوٰۃ ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوئی
، اس لیے یہاں اس سے مراد صدقات ہی ہوسکتا ہے جس کا حکم مسلمانوں کومکہ میں
بھی دیا جاتا رہا تھا، جس طرح پہلے صرف صبح وشام کی نماز کا حکم تھا، پھر
ہجرت سے ڈیڑ سال قبل لیلتہ الا سراء میں پانچ فرض نمازوں کا حکم ہوا، زکوٰۃ
سے یہاں مراد کلمہَ شہادت بھی ہوسکتا ہے ۔ اس بات کا ذکر کہ’’ اللہ نے
آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا‘‘متعدد بار پہلے بھی آچکا
ہے ، یہاں اس کی کچھ تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ مشرکین نے کہا کہ’’ اگر ہمارا
رب چاہتا تو ضرور فرشتے نازل کرتا ، جو کچھ دے کر تمہیں (نبی ﷺ) کو بھیجا
گیا ہے ہم تو اس کے منکر ہیں ‘‘آیت 14، اس کے جواب میں اللہ نے عاد قوم کے
تکبر کا ذکر کیا، اس پر طوفانی ہوا کا عذاب ، ثمود قوم کا ذکر کیا ، ان پر
چیخ والا عذاب نازل ہوا، پھر اخروی عذاب کا تذکرہ ہے ۔ کہا کہ جب وہ دوزخ
کے پاس پہنچیں تو ان کے خلاف ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی جلدیں
ان اعمال کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے ۔ اللہ ہر بات کی قدرت رکھتا ہے
جب مردہ زمین کو بارش کے ذریعے اس طرح زندہ کردینا اور اسے روئیدگی کے قابل
بنا دے ، اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مردوں کو بھی زندہ کرے گا ۔ آخر میں نبی
کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا آیت 43 میں ’’آپ سے بھی وہی کچھ کہا
جارہا ہے جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہا گیا ، بے شک آپ کا رب معاف کردینے
والا بھی ہے اور درد ناک عذاب دینے والا بھی‘‘ ۔ اللہ نے کہا کہ قرآن عجمی
زبان میں نہیں اگر وہ عجمی زبان میں ہوتا تو یہ لوگ اعتراض کرتے کہ آیات
عربی میں کھول کھول کر بیان کیوں نہیں کی گئیں ۔ اللہ نے مشرکین پر طنز
کرتے ہوئے فرمایا ’کیا کتاب عجمی ہے اور رسول عربی;238; کہہ دیجئے ان کے
لیے جو ایمان لائے ہدایت اور شفا ہے اور جولوگ ایمان نہیں لاتے ان کے دلوں
میں بوجھ ہے اور ان کے حق میں اندھا پن ہے ، پھر کہا کہ بیشک ہم نے موسیٰ
علیہ السلام پر کتاب نازل کی ، پھر اس میں اختلاف کیا گیا، کہا کہ بیشک وہ
اس قرآن کے متعلق بے چین کردینے والے شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔ سورہ کا
اختتام اللہ تعالیٰ کے عدل پر ہوتا ہے کہا رب تعالیٰ نے’ جس نے نیک عمل کیا
تو اس کے اپنے ہی لیے ہے اور جس نے برا کیا وبال اسی پر ہے اور آپ کا رب
بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ‘ ۔ (24رمضان المبارک 1440ھ ،30 مئی2019ء)
|