برطانیہ کی فضائی کمپنی برٹش ایئرویز کا جدید ترین بوئنگ
787 طیارہ گیارہ سال بعد آج پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے بین
الاقوامی ہوائی اڈے پر لینڈ کر چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی برٹش ایئرویز
مغربی ممالک کی وہ واحد ایئرلائن بن گئی ہے جو پاکستان کے لیے اپنی پروازیں
چلا رہی ہے۔
|
|
لندن اور اسلام آباد کے درمیان براہِ راست پروازوں سے برٹش ایئرویز پاکستان
کی قومی فضائی کمپنی، پی آئی اے، کو ہی نہیں بلکہ خلیجی ایئرلائنز کے لیے
بھی مقابلے کی فضا پیدا کرے گی۔
گذشتہ برس جب 18 دسمبر کو برٹش ایئرویز نے پاکستان کے لیے اپنی براہِ راست
پروازوں کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تو پاکستان کے سیاسی محاذ پر ایک
عجیب سی ہلچل نظر آئی کیونکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کے درمیان
کریڈٹ لینے کے چکر نے اس سارے معاملے کو بہت اہم بنا دیا۔
برٹش ایئرویز اور پاکستان کا دہائیوں پر محیط رشتہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
برٹش ایئرویز کا ورثہ
برٹش ایئرویز کسی نہ کسی شکل میں پاکستانی مسافروں کے لیے ہمیشہ سے سفری
سہولیات فراہم کرتی رہی ہے۔ جب پی آئی اے اور تمام خلیجی ایئرلائنز نہیں
تھیں تب بھی یہ ایئر لائن اپنی خدمات فراہم کرتی تھی۔ برٹش ایئرویز برطانیہ
کی سب سے بڑی فضائی کمپنی ہے مگر طیاروں کی تعداد کے حساب سے ایزی جیٹ اس
سے بھی بڑی ایئر لائن ہے۔
|
|
برٹش ایئرویز کی کہانی تقریبا ایک صدی پرانی ہے۔
حالیہ تاریخ میں سنہ 1974 میں برطانوی حکومت نے ملک کی دو بڑی بین الاقوامی
فضائی کمپنیوں یعنی برٹش اوورسیز ایئرویز کارپوریشن اور برٹش یورپین
ایئرویز کو قومیانے کا فیصلہ کیا اور دو ملکی کمپنیوں یعنی کیمبریئن
ایئرویز اور نارتھ ایسٹ ایئرلائنز کو بھی اس نظام کا حصہ بنا کر اس برٹش
ایئرویز کی بنیاد رکھی جو آج ہمارے سامنے ہے۔
|
|
31 مارچ 1974 کو برٹش ایئرویز ایک قومی کمپنی کے طور پر وجود میں آئی۔ بعد
میں فروری 1987 کو اس کی نجکاری عمل میں آئی اور اب یہ ایک نجی کمپنی ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ جن دو کمپنیوں کے انضمام سے برٹش ایئرویز (بی اے) وجود
میں آئی ان میں سے ایک برٹش اوورسیز ایئرویز کارپوریشن کو ایمپریئل ایئرویز
اور ماضی کی برٹش ایئرویز (جی ہاں ایک برٹش ایئرویز نامی کمپنی ماضی میں
بھی رہی ہے) کو ملا کر ایک کمپنی بنایا گیا تھا۔ ایمپریئل ایئرویز کو تاجِ
برطانیہ کے تحت علاقوں تک رسائی خصوصا ڈاک کی ترسیل کے لیے قائم کیا گیا
تھا۔
|
|
برصغیر کے لیے پروازیں
ایمپریئل ایئرویز 31 مارچ 1924 کو وجود میں آئی۔
اس کے بعد اگلے پانچ سال تک منصوبہ بندی جاری رہی جس میں ایرانی حکام سے
مذاکرات بھی شامل تھے کہ وہ پروازوں کو اپنے ملک کی فضائی حدود استعمال
کرتے ہوئے کراچی جانے دیں۔
|
|
اس طرح برٹش ایئرویز کی پہلی پرواز 6 جنوری 1927 کو کراچی پہنچی مگر یہ ایک
سروے پرواز تھی جو راستے کے تعین کے لیے چلائی گئی۔ یہ سفر تقریباً پچپن
گھنٹوں میں طے کیا گیا۔
بالآخر دو سال کے مذاکرات کے بعد 30 مارچ 1928 کو لندن سے کراچی کی پروازیں
شروع ہوئیں۔ لندن میں ان دنوں ہیتھرو کا ہوائی اڈہ نہیں تھا اور لندن کے
ساتھ کروئیڈن سے پروازیں چلتی تھیں۔ مگر یہ سارا سفر فضائی نہیں تھا بلکہ
مسافر لندن سے سوئٹزرلینڈ کے شہر بیزل جاتے۔ جہاں سے ٹرین پکڑ کر اطالوی
شہر گینوا پہنچتے۔ جس کے بعد ایک فلائنگ بوٹ یا ایسا طیارہ جو پانی پر سے
پرواز کرتا تھا پکڑ کر مصر کے شہر سکندریہ جاتے۔
|
|
سکندریہ سے قاہرہ کا سفر پھر ٹرین پر اور قاہرہ سے پرواز پکڑ کر مسافر
کراچی کے لیے عازمِ سفر ہوتے۔ قاہرہ سے کراچی کے سفر کے دوران طیارہ گیارہ
بار اتر کر ایندھن لیتا اور ان میں سے ایک سٹاپ گوادر بھی ہوتا تھا۔
اگلے کئی سالوں تک یہ سفر بدلتا رہا، بہتر طیارے اس کی طوالت میں کمی لاتے
رہے مگر اس میں کسی نہ کسی صورت میں ریل کا سفر شامل رہا۔
شروع میں قاہرہ سے کراچی کی پروازوں کے لیے برطانوی طیارہ ساز کمپنی ڈی
ہیولینڈ کے ہرکولیس طیارے استعمال ہوتے تھے۔ اس کے تین انجن ہوتے تھے اور
اس میں ڈاک کے علاوہ سات مسافر بیٹھ سکتے تھے۔
طیارے کے دونوں پائلٹ طیارے کی ناک کے اوپر باہر بیٹھتے۔ یعنی ان کا کیبن
اوپر سے کھلا ہوتا تھا۔ ان کی مدد کے لیے ایک وائرلیس آپریٹر بھی ہوتا تھا۔
بعد میں اس پرواز کے لیے تھوڑے بڑے طیارے برطانوی کمپنی ہینڈلے پیج سے حاصل
کیے گئے۔ یہ طیارے ہینڈلے پیج ہیرلڈ کہلاتے تھے۔ ان طیاروں میں دو کیبن
ہوتے تھے اور کل ملا کر اس میں 12 سے 38 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی
تھی۔ اس طیارے میں بالاآخر پائلٹ کے سر پر چھت لگا دی گئی تھی۔
اور یوں لندن کے کروئیڈن ایئرپورٹ سے شروع ہونے والا فضائی سفر کا یہ سلسلہ
ہیتھرو منتقل ہوا مگر کراچی وہیں کا وہیں رہا۔ کراچی کے لیے بی اے نے اپنی
پروازیں سنہ 1991 میں خلیج کی پہلی جنگ اور منافع نہ ہونے کی وجہ سے بند
کیں۔ ایمپیرئیل ایئرویز نے اپنے ایک طیارے کا نام سٹی آف کراچی بھی رکھا جو
اس نے 21 دسمبر 1931 کو حاصل کیا۔
|
|
اسلام آباد کے لیے پروازیں
دوسری جانب اسلام آباد کے لیے پروازیں 1976 میں شروع کی گئیں اور یہ سلسلہ
20 ستمبر 2008 تک چلتا رہا۔ مگر اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں ہونے والے
خود کش بم دھماکے کے چند دن بعد ہی برٹش ایئرویز نے اسلام آباد کے لیے اپنی
براہِ راست پروازیں بند کر دیں تھیں۔
برٹش ایئرویز اُن دنوں اسلام آباد کے لیے ہفتے میں چھ پروازیں چلاتی تھی
اور پی آئی اے کے علاوہ واحد دوسری ائیرلائن تھی جو ڈائریکٹ فلائٹ چلایا
کرتی تھی۔
کرایہ کتنا تھا؟
سات دنوں پر محیط سفر کا کرایہ بھی کافی تھا اور آج بھی کافی ہے۔ ان دنوں
یکطرفہ کرایہ 130 پاؤنڈ سٹرلنگ تھا مگر یہ کم ہو کر سنہ 1938 میں 85 پاونڈ
تک ہو گیا تھا۔ آج کے حساب سے یہ کرایہ لگ بھگ 3800 سے لے کر 9000 پاونڈ
سٹرلنگ تک تھا۔ جو ان دنوں بھی بے تحاشا مہنگا تھا۔ اس لیے زیادہ تر مسافر
حکومتی اہلکار، سرکاری افسر، لارڈز اور شکاری ہوتے تھے۔ ہر افتتاحی پرواز
پر صحافیوں کو بھی لازمی جگہ دی جاتی تھی۔
|
|
اس وقت صورتحال کیا ہے؟
دنوں، ہفتوں اور متعدد سٹاپ پر رکنے والی یہ پروازیں ایمپریئل ایئرویز سے
برٹش اوورسیز ایئرویز کارپوریشن اور پھر برٹش ایئرویز تک کا یہ سفر پاکستان
کی ہوا بازی کے سفر کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اب تک پاکستان سے برطانیہ خصوصاً
لندن سفر کرنے کے لیے آپ کے پاس صرف پی آئی اے کی پرواز ہے جو نان سٹاپ
یعنی ڈائریکٹ ہے۔
اس کے علاوہ اگر آپ پاکستان سے لندن کا سفر کریں تو خلیجی ایئرلائنز ایمرٹس،
اتحاد، قطر ایئرویز، اومان ایئر، گلف ایئر، سعودی عریبین ایئرلائنز، ٹرکش
ایئرلائنز اور کویت ایئرویز اپنے مرکزی ایئر پورٹس پر سٹاپ کے ساتھ پروازیں
فراہم کرتی ہیں۔ اور ان ہوائی اڈوں پر قیام تین گھنٹے سے لے کر کئی گھنٹوں
پر محیط ہوتا ہے۔
برطانیہ اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ پروازوں کا معاہدہ موجود ہے جس کی
موجودگی میں کسی اجازت نامے کی ضرورت نہیں اور برٹش ایئرویز تین سے زیادہ
پروازیں بھی چلا سکتی ہے۔
برٹش ایئرویز کی واپسی کیسے ممکن ہوئی؟
|
|
برٹش ایئرویز کی واپسی کے لیے کوششیں گذشتہ کئی برسوں سے جاری تھیں۔ مگر اس
کی راہ میں دو رکاوٹیں حائل تھیں۔ ایک عملے کے قیام کے لیے راولپنڈی سے
اسلام آباد کا سفر اور دوسرا ہوائی اڈے پر سہولیات کی عدم دستیابی۔
یاد رہے کہ پرواز کا دورانیہ طویل ہونے کے نتیجے میں ایئرلائن کے لیے یہ
قانوناً لازمی ہے کہ وہ عملے کو اسلام آباد میں رکنے کے لیے سہولت فراہم
کرے۔ یہ سہولت برٹش ایئرویز کے عملے کے لیے میریٹ ہوٹل میں فراہم کی جاتی
تھی۔
سول ایوی ایشن کے ایک سابق سینیئر اہلکار کے مطابق ’میریٹ اسلام آباد میں
قیام کے لیے راولپنڈی سے اسلام آباد کا سفر ایسا تھا جس پر برٹش ایئرویز کے
عملے اور اہلکاروں کو شدید تحفظات تھے۔ اور اس وجہ وجہ سے کافی مسائل تھے۔‘
تاہم اس حوالے سے برطانیہ کے پاکستان میں ہائی کمشنر تھامس ڈریو اور
پاکستان کے برطانیہ میں سابق ہائی کمشنر ابن عباس نے مل کر کام شروع کیا،
جس میں سول ایوی ایشن اور ایوی ایشن ڈویژن نے معاونت کی۔
|
|