ابو افنان
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ماہِ مبارک رمضان میں سوشل میڈیا
سے کنارہ کش رہنے کی توفیق عطاء فرمائی اُن ہی کی وسعتِ رحمت کو دیکھ کر
پُرامید ہوں کہ وہ ہمارے ٹوٹے پھوٹے اعمال کو شرفِ قبولیت سے نوازیں گے ،
اسلام نے نہ صرف یہ کہ اپنے ماننے والوں کیلئے دنیوی فرحت و انبساط کے
اہتمام کی اجازت دی ہے بلکہ خود اس کا ایسے خوبصورت طریقے سے انتظام فرمایا
ہے کہ مسلمانانِ عالم یاد الٰہی سے بھی غافل نہ رہیں اور اسلامی برادری سے
شناسائی کے مواقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
یہی وجہ ہے کہ عیدین جیسی عظیم خوشیوں میں بھی مسلمان خالقِ حقیقی کے سامنے
سجدہ ریز ہو جاتا ہے گویا مسلمان کی خوشی کی انتہاء بس یہی ہے کہ اُس کا
خالق اس سے راضی ہو جائے عید ایک خوشی ہے اور خوشی کو صرف اپنی حد تک محدود
نہیں کرنا چاہئے ، اور خاص کر اس خوشی میں تو غرباء و مساکین ، محتاجوں اور
لاچاروں کو ضرور شامل کرنا چاہئے کہ یہی اسلام کی تعلیم ہے ، خوشیاں
درحقیقت زندگی کی راہوں میں تازگی اور مسرتوں کے چراغ ہیں اگر انکی روشنی
دوسروں کی راہوں میں بکھیر دی جائے تو اس سے ان کی تمتماہٹ میں کوئی کمی
نہیں آئیگی۔ عید کا دن جہاں پیار محبت اور خوشیاں بانٹنے کا دن ہے وہاں
نفرتوں ، ملامتوں اور ناراضگی کے مٹانے کا بھی دن ہے ، عید کے موقع پر
نفرتوں کو بھول کر ، رنجشوں کو ختم کرکے عزیز رشتہ داروں کو گلے سے لگائیں
، کیا معلوم اگلی عید کے موقع پر ہمیں آپس میں ملاقات نصیب ہوتی ہے یا نہیں
۔ غمزدہ اور پریشانِ حال حضرات کو بھی دوسروں کی خاطر بتکلف سہی لیکن
مسکرانا چاہئے ، اس کو بھی حدیث میں صدقہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے ، شاید
یہی ایک خود ساختہ مسکراہٹ آپ کے ہزار غموں کی دوا بن جائے ، عید کے موقع
پر والدین اور دیگر رشتداروں کو ضرور وقت دیں ، عموماً زندگی کے انتہائی
تیز رفتار شب و روز میں اپنے بزرگوں کو کچھ نہ کچھ ہم خرید کر دے دیتے ہیں
اور اُنکی ضروریات بھی پوری کردیتے ہیں مگر ایک چیز جسکے لئے وہ ترستے ہیں
اور جس کی آج کل تقریباً ہر کسی کے پاس شدید کمی ہے یعنی وقت وہ ہم اپنے
بڑوں کو نہیں دے پاتے اگر غور کیا جائے تو یہ نکتہ کھل کر سامنے آئے گا کہ
روز افزاں ترقی نے راستے سمیٹنے کے بجائے مزید بڑھا دیئے ہیں، اب عید کے
روز ہم مصنوعی خوشیوں کی تلاش میں حقیقی خوشی( عزیز و اقارب سے دور ہوتے جا
رہے ہیں) ہماری طرح ہماری عیدیں بھی بوڑھی ہوتی جارہی ہیں ، آج سے چند سال
قبل عید کے رنگ ہی نرالے تھے۔ صبح صبح نماز عید کے بعد پڑوسیوں اور رشتے
داروں کا ایک دوسرے کے گھروں میں جانا ، بچوں کی عیدی کے لئے ضد کرنا ، نئے
کپڑوں کا شوق اور تحائف کا تبادلہ وغیرہ ، سب کچھ آہستہ آہستہ عنقا ہوتا
جارہا ہے ، جس کی ایک وجہ تو مہنگائی کو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سماجی
رویوں کا بھی ہمارے اطوار وعادات کو بدلنے میں بڑا رول ہے۔ کسی کی خالص
اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے زیارت پر بڑا اجر ہے لیکن اب یہ اخلاقی فرض صرف
موبائل فون کے ذریعے ’’فاروڈ‘‘ ایس ایم ایس بھیج کر پورا کرلیا جاتاہے ۔
خاندانی نظام کی کمزوری کا عالم یہ ہے کہ اب رشتدار عید جیسی مقدس تہوار پر
بھی اکٹھے نہیں ہو پاتے ہیں، اور جب مشکل سے وقت نکال کر چند لمحوں کے لئے
اکٹھے ہوجاتے ہیں تو اس دوران بھی خاندان کے بعض نوجوان ، بالشت بھرے
موبائل ہاتھ میں لئے پاس بیٹھے سے ناخبر دوسرے جہاں میں کسی دوست یا رشتدار
سے دوستی پکی کر رہے ہوتے ہیں جبکہ بڑے ، بوڑھے پرانے وقتوں کو یاد کرکے
کڑھتے نظر آتے ہیں۔ اُنہیں کیا معلوم کہ اس عہد کے بچے اتنے شاطر ہو گئے
ہیں کہ جگنو کو ٹھیک نصف النہار میں پرکھنے کی ضد کرتے ہیں ، روایتی عید
اور ماڈرن عید میں اتنا ہی فاصلہ آچکا ہے جتنا کہ خود عیدین میں وقت کا ہے
بڑوں کے ذہنوں اور دلوں پر عید کے جو نقوش کندہ ہیں ، دورِ جدید میں وہ اسے
یاد کر کے صرف آہیں ہی بھر سکتے ہیں ، بہرحال میری دعاء ہے کہ اللہ تعالی
مجھ سمیت تمام مسلمانوں کے اعمالِ صالحہ کو قبول فرمائیں اور عید کی یہ
بہار بار بار میرے اور آپ کے گھر کے آنگن میں بہاریں لاتی رہے ذرا سی لمبی
یہ مبارکباد قبول کیجئے گا ، عید آپ کو مبارک ہو ، سعادتیں نصیب ہوں ،
کامیابی آپ کے قدم چومے |