پاکستان میں ایک رواج ہے اور بہت عام ہے کہ سیاسی مخالفت
ہو، علاقائی مصلحت ہو یا سیاستدانوں کا ذاتی نقصان ہوجائے تو فوراََ کہہ
دیا جاتا ہے کہ ملکی سالمیت خطرے میں ہے یعنی یوں کہئے کہ ہمارے ہاں سب سے
کمزور شے ملکی سلامتی ہے جس کو ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اس کے لیے حساسیت
قابلِ تعریف ہے کہ ہم محتاط رہیں لیکن اس کو پستہ بادام سمجھ لینا کہ دانت
کے نیچے رکھا اور توڑ دیا یہ تصور بالکل غلط ہے لیکن ہو یہی رہا ہے اور اس
کو ایسا ہی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ ہر ایک اس کو لا ولد کی جاگیر
سمجھے کہ جب چاہا تا راج کر دیا۔اس سے میرا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ خطرات سے
آنکھیں بند کر دی جائیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ بد خواہوں کو ہر وقت یہ بتایا
جائے کہ ہم تمہاری ہر سازش ناکام بنانے کے لیے تیار ہیں۔ہم لمبے عرصے سے
بلوچستان کے بارے میں خاکم بدہن یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ بس ہو اچلی اور
اس سوکھے پتے کو اڑا لے جائے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نصف سے کچھ کم
پاکستان، یعنی بلوچستان کے وسیع و عریض صوبے میں کچھ جگہوں پر بد امنی اور
خود غرض قوم پرستی پھیلانے والے عناصر ضرور ہیں لیکن ہمارا ہر سیاستدان اور
سیاسی جماعت بلوچ کارڈ ضرور کھیلتا ہے ہاں اپنے دورِ حکومت میں وہ آنکھیں
اور کان بند کر لیتے ہیں اور جب حکومت جاتی ہے تو پھر وہی ملکی سالمیت کی
دھمکیاں۔ایسی ہی دھمکی سندھو دیش کی بھی استعمال ہوتی رہی ہے اور پختونستان
کی بھی۔ دہشت گردی کی تباہ کاریوں نے قومی منظر نامے کو جہاں بحیثیت مجموعی
متاثر کیا وہیں خیبر پختونخواہ پر خصوصی اثرات چھوڑے۔یہاں عرصے تک خوف و
ہراس کی فضا چھائی رہی، ترقی کے عمل کو سبوتاژ کیا گیا بلکہ روک دیا گیا
اور دہشت گردی کی روک تھام ظاہر ہے پہلی ترجیح بن گئی۔کو ئی دوسرا منصوبہ
نہ توجہ پا رہا تھا نہ تکمیل اور پھر جب ناقابلِ تلافی نقصان کے بعد خدا
خدا کر کے دہشت گردی میں کمی آئی اور کافی حد تک اس پر قابو پا لیا گیااور
دشمن نے جب دیکھا کہ اُس کے مسلک فرقے کی چال کو عوام نے سمجھ لیا اور اُن
پر واضح ہو گیا ہے کہ اُن سے دوسروں کی جنگ لڑوائی جا رہی ہے تو اُس نے ایک
اور چال چلی اور اُنہی شمالی علاقوں جہاں سے وہ خود کش تیار کرکے بھیجتا
تھاوہاں سے لسانیت کی آگ بھڑکانے کی کوشش شروع کر دی۔یہ علاقے جن میں تاریخ
میں شاید پہلی بار ترقی کا عمل شروع ہو ا تھا یا ہونے جا رہا تھا یہاں
منظور پشتین کے فتنے کو اُٹھا دیا گیا اور ہمارے کچھ سیاسی لیڈر انہیں اپنے
حقوق کی جنگ لڑتے کچھ نوجوان کہہ کر انہیں کریڈٹ دینے کو کوشش کر رہے ہیں
لیکن کوئی اِن سے پوچھے کہ یہ لوگ اُس وقت کہاں تھے جب اِن کے علاقے جلائے
جا رہے تھے سکول اڑا دیے جاتے تھے بازار بموں کی زد میں ہوتے تھے کہ کاوبار
نہ چلے یہ اُن لوگوں کے خلاف کیوں کبھی نہ اُٹھے کہ آج اُس فوج کے خلاف
اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں جس نے انہیں اس ناسور سے نجات دلانے کے لیے اپنے ہزاروں
جوانوں کی قربانی دی ہے لیکن اب ”نوجوانوں کا ایک گروہ“ اِس کے خلاف اُٹھ
کھڑا ہو ااور خود کو پختونوں کے حقوق کا علمبردار کہنے لگا اور وہ لیڈر جو
ملکی سالمیت کے اوپر سیاست کرتے ہیں قوم کو پھر دھمکانے لگے پھر اُنہیں
بنگلہ دیش کی مثالیں دینے لگے۔ میں ہر بار بلوچستان کارڈ کھیلنے والوں سے
یہی عرض کرتی ہو کہ بلوچستان پاکستان کا وہ واحد صوبہ ہے جس کی سرحدیں باقی
تینوں صوبوں سے جڑی ہوئی ہیں اور یہ ایک ہزار میل کے فاصلے پر بھی نہیں
جہاں کے مکینوں کو پتہ بھی نہ چلے کہ پاکستان کے دوسرے صوبے بھی لندن یا
پیرس نہیں ایک ایسے غریب ترقی پذیر ملک کے صوبے ہیں جہاں غربت ہر جگہ پائی
جاتی ہے صرف اُن کے ہاں نہیں۔ہاں اُن کے سرداروں نے اُن پراپنی گرفت کچھ
زیادہ سخت رکھی ہوئی ہے لہٰذا ان کے مسائل یقیناََ زیادہ ہیں اور ان کا حل
ترجیحی بنیادوں پر ہونا چاہیے اورصرف سیاسی فوائد کے لیے ان مسائل کو
لاینحل بنا کر پیش نہیں کرنا چاہیے۔لیکن وہاں مسائل حل کرنے کے بجائے اب
یہی کھیل خیبر پختونخواہ میں کھیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہی
”نوجوانوں کی تنظیم“ جو خود کو انسانی حقوق کی علمبردار رکہتی ہے اسی
علمبرداری میں صوبے میں احساس محرومی پھیلانے پر مامورکی گئی ہے اور ہمارے
سیاستدان یہاں پھر بنگلہ دیش کو یاد کر رہے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ
بٹھان وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا جو اس کی پہلی جنگ لڑ
کراس کی بقا ء کے ضامن بنے اُس وقت میں جب یہ ملک جنگی سازوسامان سے بھی
تہی دامن تھا اورخزانے میں بھی کچھ نہ تھا یہ اپنی بنیادوں پر ابھی نیا نیا
اُٹھنے لگا تھا ایسے میں یہی پٹھان اٹھے اور اس کے بازوئے شمشیرزن بنے۔یہ
بات بھارت بھی خوب جانتا ہے اور دوسرا ہر دشمن بھی لہٰذا ان لوگوں نے ان
پٹھانوں پر کئی بار کام کرنا شروع کیاپختونستان کانعرہ بھی کئی بار لگوایا
گیا لیکن انہی پختونوں نے اسے ختم کردیا اور یوں دشمن کی چال کو ناکام
بنادیا اوریہی پختون ہیں جو آج بھی پاکستان کے دفاع کی دیوار بنے ہوئے ہیں۔
یہ لوگ جو پٹھانوں کی محرومی کا رونا رو رہے ہیں کیا اُن کے خیال میں باقی
پورے پاکستان سے غربت ختم ہو گئی ہے، صحت کے مسائل حل ہو گئے یا تعلیم سب
کے لیے یکساں اور مفت ہو گئی ہے جو اِن کے علاقوں میں نہیں ہے۔اس وقت پاک
فوج کو لیں تو یہاں پٹھان جوان سے لے کر افسر اور جرنیل تک موجود ہیں۔ آپ
کو بڑے بڑے عہدوں پر پٹھان سول افسران نظر آئیں گے جج، عدالت، تعلیم
اورصحافت کے میدان میں غرض ہر جگہ پٹھان اپنے ملک کی خدمت کرتا نظر آتا ہے
اور یہ کوئی انہونی بات نہیں یہ اُن کی اپنی ذہانت اور قابلیت ہے جس کے بَل
بوتے پر وہ ہر اُس مقام پر پہنچ سکتے ہیں جہاں پر کوئی بھی دوسرا پاکستانی۔
لہٰذا کو نسی محرومیت لیکن یہ گروہ اپنی سیاست چمکانے کے لیے خود اعتماد
پختونوں کی خود اعتمادی کو ختم کرنے کی سازش میں مصروف ہیں اور یہی دشمن کی
چال ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ملک کے اندر سے کیوں بار بار بنگلہ دیش
سے مماثلت کے آوازے اُٹھ رہے ہیں اور کیوں مسئلے کو پیچیدہ بنانے کی کوشش
کی جارہی ہے کیوں لسا نیت کو ہوا دی جارہی ہے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی
کی جارہی ہے،کیوں یہ یاد نہیں رکھا جا رہا کہ مسائل کو ہوا دینے سے مسائل
حل نہیں ہوتے بلکہ ان کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ کو شش کی ضرورت ہوتی ہے ان
پر سیاست کی نہیں۔پٹھان انتہائی محبِ وطن پاکستانی ہیں اور وہ سب میری طرح
اس بات پر اپنی توہین محسوس کرتے ہیں کہ کیوں ان کو غدارانِ وطن کے ساتھ
جوڑا جارہا ہے اور کم از کم میں اس بات پر شدید احتجاج کرتی ہوں کہ کیوں
ہماری مما ثلت بنگلہ دیش سے پیدا کی جا رہی ہے۔ میں ہمیشہ کی طرح ایک بار
پھر کہوں گی کہ بنگلہ دیش بد قسمتی سے تین اطراف سے بھارت میں گھرا ہو اتھا
ہزاورں کلومیٹر دور بنگالی ٹیلی وژن اور فلموں میں دکھائے جانے والے مغربی
پاکستان کے پوش علاقوں کو ہی دیکھ سکتے تھے اُنہیں اسلام آباد کی اونچی
عمارتیں تو نظر آجاتی تھیں اس کے مضافات میں واقع کچی آبادیاں نہیں، وہ
کراچی میں اونچے اونچے پلازے ہی دیکھ سکتے تھے اس میں بستے بے گھر بے چھت
مزدور کی کہانی سے وہ بے خبر تھے لیکن اب یہی اسلام آبادپشاور کے پڑوس میں
واقع ہے اور وہاں کا سارا حال پشاور کا باشندہ جانتا ہے۔فاصلے بہت بڑا
کردار کرتے ہیں ورنہ آج پاکستان میں رہنے والے یہ نہ سمجھتے کہ امریکہ میں
کوئی غریب نہیں پایا جاتا۔وہ فلموں میں ایک ایسا امریکہ دیکھتا ہے جہاں سب
اچھا ہے لیکن اسی امریکہ میں ترقی یافتہ دنیا میں دوسرے نمبر پر غربت پائی
جاتی ہے۔ یہاں کی ایک بہت بڑی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی
ہے، بہت بڑی تعداد بے گھر بلکہ بے چھت گلیوں میں سوتی ہے، بہت بڑی آبادی
ٹرکوں اور کاروں پر رہ رہی ہے اوربے شمار ریلوے سرنگوں میں رہ رہے ہیں تو
آخر ہم کیوں اپنے بارے میں اس قدر منفی تاثر پھیلا تے ہیں اور کیوں منظور
پشتین اوراس کا گروہ اور اس گروہ کی جینزشرٹ والی لڑکیاں مستقل ہماری بے
بسی کا رونا روتے ہیں۔ایک مشورہ ان کے لیے یہ بھی ہے کہ گلالئی اسماعیل اور
ثناء اعجاز جیسی خواتین اپنے یورپ اور امریکہ کے دورے کم کر کے ان پر آنے
والے اخراجات پختونوں کے انتہائی مصائب زدہ خاندانوں پر کیوں نہیں لگا
دیتیں اور ان کے حامی بلاول زرداری جیسے انتہائی دولت مند سیاستدان کیوں
اپنی دولت کا عشرِعشیر کسی ایک غریب پختون علاقے پر نہیں خرچ کر دیتے یا
اسفندیار ولی اپنی فالتو دولت میں سے کچھ ان کو کیوں نہیں دے دیتے۔ یقین
کریں ان کی دولت کا یہ نا محسوس حصہ ان غریب لوگوں کی زندگی بنا دے گا
لہٰذا صرف روئیے مت کچھ کیجیے اور ملک کی سالمیت کو کانچ کا بنا کر پیش مت
کریں اسے اتنا مضبوط بنائیے کہ اس کے خلاف کام کرنے کا سوچنے والا ہزار
دفعہ سوچ کر بھی کچھ کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔
|