حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں مسلمانوں کے ایک کمانڈر
قنیبہ بن مسلم نے اسلام کے بتائے ہوئے کچھ اصول نظر انداز کر کے سمرقند پر
قبضہ کر لیا۔ مفتوعہ آبادی عیسائیوں کی تھی۔ پادری نے ایک پیامبر کے ذریعے
خلیفہ کو ایک خط بجھوایا جس میں اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کی شکائت کی
گئی تھی۔جب یہ خط خلیفہ کو پیش کیا گیاتو خلیفہ نے اسی خط کی پشت پر لکھا
عمر بن عبدالعزیز کی جانب سے اپنے عامل کے نام، ایک منصف مقرر کرو جو پادری
کی شکائت سنے
پادری اس حکم کو دیکھ کر مایوس تو ہوا مگر اس نے مناسب سمجھا کہ یہ پیغام
سمرقند میں خلیفہ کے گورنر تک پہنچائے۔ جب گورنر نے اپنے خلیفہ کا حکم نامہ
دیکھا تو اس نے اسی وقت جمیع نامی ایک منصف مقرر کر دیا۔ جمیع نے اپنی
عدالت سجائی۔پادری اور قنیبہ دونوں کو طلب کر لیا۔ قاضی نے دونوں کو ایک
جیسا پروٹوکول دیا۔ پہلے شکائت کنندہ پادری کی بات سنی گئی۔ پادری نے کہا
کمانڈر نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ دعوت اسلام دی کہ اس
پر سوچ بچار کرتے۔
منصف نے قنیبہ کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا تو قنیبہ نے کہا جنگ تو
ہوتی ہی فریب ہے۔ اور یہ کہ سمرقند کے جوار میں لوگوں نے اسلام قبول کرنے
کی بجائے ہماری مزاحمت کی تھی۔لہذا ہم نے حملہ کر کے سارے سمرقند پر قبضہ
کر لیا۔
منصف نے پوچھا پیشگی اطلاع دی تھی یا نہیں۔ قنبیہ کے پاس خاموشی کے سوا
جواب نہ تھا۔وہ خاموش رہے تو منصف نے کہا قنبیہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم
اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہو۔اب عدالت حکم جاری کرے گی۔۔ اور عدالت نے
کمانڈر کو اپنی فوج سمیت سمرقند سے نکل جانے کا حکم سنا دیا۔
قصص من التاریخ نامی کتاب کے مصنف شیخ علی طنطاوی نے اس قصے کو بیان کرنے
کے بعد لکھا ہے کہ اس دن شام کے وقت سمر قند والوں نے دیکھا کہ اسلامی لشکر
واپس جا رہا ہے اور پیچھے گرد و غبار کے بادل ہیں۔ گرد کے بیٹھ جانے کے بعد
سمرقندیوں کو حقیقت حال معلوم ہوئی۔ ان کو احساس ہوا کہ ان کے عارضی
حکمرانوں کا ان کے ساتھ برتاو ان کے پرانے حکمرانوں کی نسبت اخلاقی،
معاشرتی اور معاملات کے لحاظ سے بہت بہتر تھا۔لوگ اسی پادری کے پاس گئے جس
نے قنیبہ کی شکائت کی تھی اور اسے مجبور کیا کہ وہ ان کیساتھ جا کر نئے
حکمرانوں کو پاس لائے۔مسلمانوں بطور حکمران واپس آئے۔ طویل عرصہ سمر قند پر
حکومت کی اور ایک وقت آیا کہ سمر قند مسلمانوں کا دارلخلافہ بھی بنا۔
عمر بن عبدالعزیر کا نام آج بھی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔اور ان کے
منصفوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ منصف کا
کام انصاف کرنا ہے خواہ وہ اپنی حکومت ہی کے خلاف کیوں نہ ہو۔ یہ ایسا اصول
ہے جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کا پھل انتہائی شیرین ہوتا ہے۔
انصاف کے طلب گار ہمیشہ کمزور طبقات ہوا کرتے ہیں۔ منصف انصاف کر کے کمزور
کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو بالا دست طبقات کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہو
جاتے ہیں۔ اور نا عاقبت اندیش حکمران تو منصف کی کرسی ہی کو الٹا دینے کی
کوشش کرتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں ایک جج کی کرسی کو الٹانے کی کوشش میں
خود جنرل صاحب کی کرسی الٹ چکی ہے۔ جنرل مشرف کی حکومت کو سہارا دیتے وقت
اور حکومت کی اعانت کے دوران تو جج اچھا تھا مگر جب ایک فیصلہ جو ابھی آنا
تھا اور مشرف حکومت کو شک تھا کہ فیصلہ خلاف بھی آ سکتا ہے تو جج کو جی ایچ
کیو میں بلا کر اس سے استعفیٰ طلب اور گاڑی سے جھنڈا اتار لیا گیا۔ ایک جج
جو سالوں سے فیصلے کر رہا ہے اس کے سب فیصلے تو منظور ہوں مگر حکومت کی
مستقبل کی پلاننگ میں کوئی فیصلہ روڑا بنتا نظر آئے تو پہلے اس کے خلاف
سوشل میڈیا پر تحریک چلائی جائے۔ پھر اپنے تنخواہ دار صحافیوں اور ٹی وی کے
اینکروں کی مدد سے اس پر الزامات کی بوچھاڑ کی جائے تو عوام بھی ششدر ہو کر
رہ جاتی ہے۔
دنیا دوسروں کی غلطیوں سے سیکھتی ہے ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیاں
دنیا کے لیے مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ہر دور حکومت میں کچھ جج حکمرانوں
کی نظروں میں کھٹکتے ہیں۔ ہمارے موجودہ حکمران بھی سابقہ روایات کو برقرار
رکھنے کی رسم پر پورا اتر رہے ہیں
|