گر پڑی

عدالت کو دیکھ کر وہ غریب، اجنبی مسافر یاد آتا ہے جو پنجابی کے لفظ ٹپئی کو اردومیں بطور گر پڑی سوچتے سوچتے اپنی منزل کھوٹی کر بیٹھا تھا۔

راوی بیان کرتا ہے کہ ایک شخص کو ہندوستان میں اپنی زمین کے بدلے میں راولپنڈی کے مضافات میں واقع علاقے ٹپئی میں زمین الاٹ ہوئی۔ اجنبی مسافر الاٹمنٹ لیٹر جیب میں ڈالے راولپنڈی کے ریلوے سٹیشن پر اترا۔ لوگوں سے مطلوبہ جگہ کا پتہ پوچھا مگر سٹیشن پر موجود مقامی لوگ بھی سرکاری کاغذ میں لکھے نام Tai paiسے واقف نہ تھے۔

اس زمانے میں اجنبی مسافروں خاص طور پر ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے پاکستانیوں کی مدد و رہنمائی کا جذبہ عروج پر تھا۔ لوگ اکٹھے ہو ئے اور کسی نے بتایا کہ انگریزی میں یہ نام ٹپئی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اجنبی کی رہنمائی کی گئی اور اسے بتایا گیا کہ وہ کمپنی باغ میں موجود بسوں کے اڈے پر چلا جائے وہاں سے اسے ٹپئی جانے والی بس مل جائے گی۔ کہا جاتا ہے انسان جو زبان بھی بولے سوچتا اپنی مادری زبان ہی میں ہے۔ اردو بولنے والے اس مسافر کے ذہن میں ٹپئی کا سن کر گر پڑی کا تصور پید ا ہوا۔ جب وہ کمپنی باغ (موجودہ نام لیاقت باغ) پہنچا تو اس کے سامنے مطلوبہ بس ڈہونڈنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ اس نے کاغذ دکھا کر کسی سے پتہ پوچھنے کا ارادہ کیا تو اس پر انکشاف ہوا کہ وہ کاغذ تو ریلوے سٹیشن پر ہی کسی کے ہاتھ میں تھما آیا ہے۔ اس نے اللہ کو یاد کیا اور گر پڑی جانے والی بس ڈہونڈنا شروع کی۔ اس کو بتایا گیا کہ گر پڑی نام کا تو کوئی گاوں ہے ہی نہیں۔ اجنبی مسافر کی رہنمائی کے لیے مجمع اکٹھا ہوا اور عقل اجتماعی نے فیصلہ کیا کہ مسافر اردو سپیکنگ ہے ناموں سے ناموس ہے یقینا اس نے چڑ پڑی جانا ہو گا۔ مسافر کو چڑپڑی جانے والی بس میں سوار کر دیا گیا۔ قصہ پاکستان بننے کے دنوں کا ہے، دلچسپ ہونے کی وجہ سے زبان زد عام ہوا، عام طور پر ایسے قصوں کی تحقیق کی جائے تو لطیفہ ہی ثابت ہوتے ہیں، اس کے باوجود زبان کی چاشنی اسے علاقے میں مقبول رکھے ہوئے ہے،

پڑی نام سے راولپنڈی میں کئی گاوں اور علاقے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک ایک غیر معروف اور غیر ترقی یافتہ علاقے کا نام تخت پڑی ہوا کرتا تھا۔ تخت پڑی جی ٹی روڈ کے کنارے اور راولپنڈی سے صرف چھ کلو میٹر دور ہونے کے باوجود غیر معروف علاقہ اس لیے تھا کہ ۰۱۲۲ ایکڑ پر پھیلا ہوا سرکاری جنگل تھا۔ جس کو مقامی زبان میں رکھ کہا جاتا تھا۔ (راولپنڈی کا موجودہ ایوب پارک بھی ان دنوں توپی رکھ ہوا کرتا تھاجس کا رقبہ ۰۰۳۲ ایکڑہوا کرتا تھا۔البتہ ایوب پارک کا اس وقت رقبہ ۰۰۳ ایکڑ ہے) ۔ تخت پڑی کو شہرت اس وقت ملی جب اس جنگل کو کاٹ کر اس کے درخت بیچ دیے گئے۔ پھر اس سرکاری جنگل کی بندر بانٹ شروع ہوئی۔ بندر بانٹ کا دلچسپ مرحلہ حصہ نہ پانے والے بندر کا رد عمل ہوا کرتا ہے۔

تخت پڑی رکھ کی زمین کی بانٹ کے دوران رد عمل پیدا کرنے والوں نے معلومات میڈیا کو لیک کرنا شروع کیں تو معلوم ہوا کہ اس میں کئی نامور اور بااثر خاندانوں کے افرادکے نام شامل ہیں۔ کچھ حصہ ایک ہاوسنگ سوسائٹی کو بھی الاٹ ہوا۔ جس نے اس جگہ کو ڈویلپ کر نا شروع کیا تو اپنے اثرو رسوخ کے بل بوتے پر ۰۰۰،۶ کنال کے غیر الاٹ شدہ رقبے پر بھی قبضہ کر کے اسے اپنی ہاوسنگ سکیم میں شامل کر لیا۔ پہلے عام عوام نے حیرت کا اظہار کیا، پھر اخباروں میں مرچ مصالحے کے ساتھ کہانیاں شائع ہوئیں اور انجام کار بات عدالت تک جا پہنچی۔ ان دنوں ہمارے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار ہوا کرتے تھے۔ عدالت اسی ہاوسنگ سوسائٹی کو کراچی میں الائٹ کی گئی زمین کے ساتھ غیر قانونی طور پر قبضہ میں لی گئی زمین کے بارے میں ایک کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے ۰۶۴ ارب روپے قسطوں میں بطور جرمانہ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دے چکی تھی۔ اب راولپنڈی میں واقع ۰۰۶ کنال کی غیر قانونی قابض زمین کا عدالت میں فیصلہ ہونا ہے۔ ہاوسنگ سوسائٹی والوں نے عدالت کو ۵ا لاکھ روپے فی کنال ادا کرنے کی تجویز دی ہے۔ہمیں ہاوسنگ سوسائٹی کے کردار سے دلچسپی ہے نہ سرکاری اداروں کی کرکردگی پر گلہ ہے۔ البتہ عدالت کو دیکھ کر وہ غریب، اجنبی مسافر یاد آتا ہے جو پنجابی کے لفظ ٹپئی کو اردومیں بطور گر پڑی سوچتے سوچتے اپنی منزل کھوٹی کر بیٹھا تھا۔ حالانکہ عدالت کے بارے میں گر پڑی کا لفظ انتہائی نا مناسب ہے البتہ حقیقت یہ ہے کہ دل و دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات کی پکڑ تو خدا کے ہاں بھی نہیں ہے۔

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 149662 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.