بچے نئی نسل، قوم اور ملک کا نستقبل ہوتے ہیں اور انہی
بچوں کی تربیت انہیں آگے آنے والے وقت میں ملک و قوم کی ذمہ داری اپنے
کندھوں پر اٹھانے کے قابل بناتی ہے. بچے کا حق ہوتا ہے کہ اسے پیدا ہوتے ہی
خوبصورت نام دیا جاؤ پھر اسکے لباس، خوراک اور اچھی تعلیم کا بھی حق ادا
ہومگر کبھی وقت ایسی ٹھوکر لگاتا ہے کہ وہی بچے جنہیں ابھی جینا ہوتا ہے
والد کی ناگہانی موت کے بعد ذمہ داری انکے کندھوں پر آ جاتی ہے۔وہ بچے جو
گھر میں عمر کے لحاظ سے سب سے چھوٹے ہوتے ہیں وہ گھر کے بڑے بن کر معاشیت
اور معاشرت کو سنبھالنے میں لگ جاتے ہیں. یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان
میں اس وقت 50 لاکھ بچے یتیم ہیں جنکی عمروں کا تناسب 15-18 سال ہے. یہ بچے
والد کی وفات کے بعد بہت سی محرومیوں کا شکار ہو جاتے ہیں، بنیادی سہولیات
نہ ملنے کے باعث یہ بچے در بدر ہو کر رہ جاتے ہیں اور انکا مستقبل اندھیر
نگری بن کر ایک سوالیہ نشان رہ جاتا ہے۔مگر اس ضرورت کے پیش نظر الخدمت
فاؤنڈیشن اور انکے ساتھ وومن ونگ نے آرفن فیمل سپورٹ اور آغوش ہومز کے نام
سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔آرفن فیملی سپورٹ کے تحت ملک بھر کے مختلف شہروں
میں بچوں کی کفالت کا سلسلہ جاری ہے۔اس مہم میں بچوں کو بنیادی سہولیات کے
ساتھ ساتھ دینی تربیت پر بھی کام کیا جاتا ہے۔ایک بچے کی کفالت پر ماہانہ
خرچ 3500 روپے آ تا ہے جس میں اسکی بنیادی ضروریاتِ کو پورا کیا جاتا
ہے۔آغوش ہومز کے نام سے ادارہ جات جو بنائے گئے ہیں ان میں رہائش پزیر بچوں
کی تربیت، تعلیم، زہنی و جسمانی نشونما کے لہے ماحول کو تیار کیا گیا
ہے۔یہاں پر لائبریری، کمپیوٹر کلاسز وغیرہ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔نبی
اکرم ﷺنے اپنی دونوں انگلیاں ایک ساتھ جوڑیں اور فرمایا یتیم کی کفالت کرنے
والا روز محشر میرے ساتھ اس طرح کھڑا ہو گا. ایک اور جگہ فرمایا جسکا مفہوم
کچھ یوں ہے کہ یتیم کے سر پر دست شفقت رکھا کرو جتنے بال تمھارے ہاتھ کے
نیچے آئیں گے اﷲ پاک اتنی نیکیاں دے گا تمھیں۔
مگر افسوس ہمارا معاشرہ اس سبق کو بھول گیا. یتیم کی ذمہ داری ریاست پر آتی
ہے یہ معاشرہ میں رہنے والے ہر فرد کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔آج ہی آگے بڑھیں
اور سوچیں کہ آپ ان کے لیے کیا کر سکتے ہیں کہیں کوء بچہ سڑک کنارے پھول
بیچتا، کوئی گاڑی کے شیشے صاف کرتا یتیم کہیں آپکی ایک نظر کا محتاج نہ رہ
جائیں،آئیں اور اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالیں |