بلا شبہ عید با عثِ مسرت بھی ہے اور لمحہ فکریہ بھی صدیوں
سے ہما رے آبا اجداد نے نہ جا نے کتنی عیدیں منائی ہیں اور روز محشر تک اہل
اسلام منا تے رہیں گے لیکن اگر ہم گزرنے والی عیدوں کا بغور مشاہدہ کریں تو
کتنی اِیسی عیدیں ہو نگیں جو حقیقی معنوں میں عید کہلا سکتی ہیں شاید ایسی
چند ہی عیدیں گزری ہو نگی جو محبوب خدا ﷺ کے دور میں خلفا راشدین کے دور
میں حقیقی معنوں میں خو شی اور حقیقی مسرت کا احساس دلا تی ہوں عیدیں اہل
اسلام کے لیے قومی ثقافتی زندگی کے دو اہم مواقع ہیں ھا دی دو جہاں ﷺ نے
خوب خو شی منا نے کا بھی فرمایا ہے اور خو شی کا اظہار فطری اور بر محل بھی
ہے لیکن اسلام نے خو شی اور غمی کے موقعوں پر کچھ حدود بھی قائم کر دی ہیں
مسلمانوں میں عیش میں یا د ِ خدا اورطیش میں خو فِ خدا نظر آنا چاہیے اسلام
نے خو شی کی اجا زت اِس حد تک دی ہے کہ غفلت کا رنگ نہ نظر آئے اور غم کو
اتنا طا ری نہ کیا جا ئے کہ زندگی عذاب لگنے لگے ہما رے ہاں عید کے مو قع
پر شراب نو شی نا چ گانے کی محفل کا خصوصی طو ر پر اہتمام کیا جا تاہے
معاشرے کے دولت مند با اثر افراد اپنی نشے سرور میں دھت ایسی محا فل کا
انتظا م ضروری سمجھتے ہیں جن کے کر نے سے معا شرے میں ان کا قد بڑا ہو تا
ہے اور دوسروں پر ان کی دولت اور اثر رسوخ کا بھی رعب چڑھتا ہے رمضان المبا
رک کے مہینے میں بھو ک پیا س کثرت عبا دات کا جو فلسفہ دین اسلام کا مغز ہے
اس کی دھجیاں بکھیر دی جا تی ہیں ما ہ رمضان کا مقصد بھو ک پیاس اور تقوے
سے ایسی تربیت حاصل کی جا ئے جو سال کے با قی 11مہینوں میں بھی نظر آئے
لیکن عید کے دن کی ابتدا کے ساتھ ہی رمضان کا سارا رنگ ہوا میں تحلیل ہو
جاتاہے رنگ و نور نا چ گانا اور نشے میں دھت ہو کر ما ہ ِ رمضان کی روح کو
گدلا کر دیا جاتا ہے مہنگے ترین ملبو سات پہن کر غریبوں مسکینوں لا چاروں
کا مذاق اڑا یا جا تا ہے ٹی وی پر وگرامز جو رمضان میں اسلامی تعلیمات میں
ڈوبے نظر آتے تھے ایک دن کے بعد ہی نا چ گا نے شروع ہو جا تے ہیں رمضان کا
مقصد غریبوں کی بھو ک پیاس اور ضرورتوں کا خیال تھا لیکن عید کے دن اِس
فلسفے کو موت کے گھاٹ اتارد یا جا تا ہے عید کا تصور اور مقصد محض نا چ
گانا اور تہوار نہیں ہے بلکہ یہ دن بھی خدا کے شکر اور عبا دات کا ہے اپنے
پالنہا ر سے اپنے تعلق کو مضبو ط بنا نے کا دن ہے خدا سے روحا نی تعلق
استوار کر نے کا دن ہے اِس لیے عید الفطر دراصل روزہ دار مسلمانوں کے لیے
خو شی اور مسرت کا باعث ہے اور عید الاضحی کے پس منظر میں حضرت ابراہیم اور
ان کے فرزندحضرت اسماعیل کی بے پنا ہ استقامت اور عظیم قربانی کا عکس کا ر
فرما ہے یعنی دونوں تہواروں میں با مقصد اور احساس عبدیت کا رنگ ہے ۔ وطن
عزیز میں اہل وطن خو شیوں میں غرق ہیں جبکہ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ عید ایک
دن ہے یا اِس کی اہمیت کچھ اور بھی ہے کیا عید صرف مہنگے چمکیلے ملبو سات
اور روپیہ اڑانے کا نام ہے سینما گھروں ہوٹلوں میں جاکر دولت لٹانے کا نام
ہے لمبی چوڑی مہنگی دعوتیں اشتہا انگیز کھانے کھلا نے کا نام ہے کیا عید
ایک سما جی ثقافتی تہوار ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عید دوسروں کے احساس کانام
ہے دوسروں سے خو شیاں شیئر کر نے کا نام ہے اور دوسروں میں خو شیاں بانٹنے
کا نام ہے عید کا دن اپنے اندر خاص مقصدیت رکھتا ہے خا ص روحانی رنگ ہو نا
چاہیے عید کے دن مہنگے اجلے ملبو سات پہننا کا فی نہیں بلکہ دل و دما غ کا
اجالا رکھنے کی ضرورت ہے عید دستر خوان سجانے کا نہیں کردار سنوارنے کا نام
ہے اگر ہم اجتما عی طو رپر دیکھیں تو سچ تو یہی ہے کہ ہمیں عید منا نے کا
حق نہیں ہے کیو نکہ جو قوم کھربوں روپے کی مقروض ہو جس کا پیدا ہو نے والا
ہر بچہ پہلے سے ہی لاکھوں رو پے کا مقروض ہواس کو پیدا ہو نے کے بعد فضو ل
خر چی کر نے کی بجا ئے اپنے سر کا قرضہ اتا رنے کا سو چنا چاہیے جس قوم کی
اکثریت جہا لت میں غرق ہو جو نسل در نسل جہا لت میں ہی ڈوبی آرہی ہو اسے
اپنا تن آراستہ کر نے کی بجا ئے اپنے من کو دما غ کو شعور کو علم کے نو ر
سے روشن کر نا چاہیے جس قوم کا بچہ بچہ آئی ایم ایف اور ترقی یا فتہ ملکوں
کے رحم و کرم پرہو اسے ایک دن کے لیے دولت لٹا نے کی نہیں بلکہ مستقل طو ر
پر معا شی کفا لت حاصل کر نے کی منصوبہ کر نی چاہیے جو قوم سیا سی طو ر پر
اخلاقی طو رپر دیوا لیے پن کا شکا ر ہو اس کو اپنی سیا ست سوچ اخلا قیا ت
کو صحیح سمت میں استوار کر نے کی فکر کر نی چاہیے جو قوم مختلف طبقوں میں
تقسیم ہوچکی ہو جو دوسروں پر کا فر کافر کے گو لے داغتی ہو جن کی مسجدوں سے
دہشت گردوں کی عطاریں برآ مد ہو تی ہوں کفر جھوٹ تکبر غرور فریب لوٹ مار جن
کی ہڈیوں میں اتر چکی ہو کر پشن جن کی ترجیح اول بن چکی ہوں جو دوسروں کو
تکلیف میں دیکھ کر خو ش ہوتے ہوں جو دوسروں کو دھو کا دے کر خو ش ہوں وہ
ایک دن ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر چند گھڑیاں گزار کر اگر حقیقی عید کا مقصد
پا نے کی خوش فہمی میں مبتلا ہوں تو وہ بہت بڑی خو ش فہمی کا شکا ر ہیں ۔
جو قوم صرف ایک دن ہنسے اور سال کے با قی دن رو ئے تو ایک دن کا تبسم کیا
معنی رکھتا ہے جو قوم ایک دن پیٹ بھر کا کھا نا کھا ئے اور اس کے کروڑوں ہم
وطن سارا سال روٹی کے نوالے کو ترسیں تو ایک دن کا خو ب کھا یا پیا کس کا م
کا جو قوم عید کے دن ایک دوسرے سے گلے ملے اور اگلے ہی دن ایک دوسرے کو
کاٹنا شروع کر دے تو ایسی جپھیاں کس کام کی جو عید کے دن فطرانے کے چند
روپے با نٹ کر اور بڑی عید پر بچا کچھا گو شت غریبوں میں با نٹ کر خو ش ہو
تی ہو اور سال کے با قی دونوں میں غریبوں کودھکے ما رتی ہو ایسے فطرانے اور
گو شت کا کیا فائدہ ہم انفرادی اور اجتما عی طو رپر جس قدر زہریلے ہو چکے
ہیں مطلبی ہو چکے ہیں مفاد پرستی میں غرق ہو چکے ہیں کیا ہم عید کے حقیقی
پیغام کو اپنا تے ہیں کیا ہم عید کی خو شیاں غریبوں میں بانٹتے ہیں کیا
رمضان المبا رک کا رنگ سارا سال ہم پر قائم رہتا ہے کیا ہم اﷲ تعالی کی دی
ہو ئی نعمتیں دوسروں میں با نٹتے ہیں کیا ہم دوسرے غریبوں کا درد محسوس کر
تے ہیں اگر ہم عید کے دن نا چ گا نے کھا نے پینے میں دھت رہیں گے تو ہم خدا
کے قریب ہو نے کی بجا ئے دور ہو جائیں گے خدا سے روحا نی تعلق استوار ہو نے
کی بجا ئے خدا سے دور ہو تے جائیں گے جس طرح خو شبو کے بغیر پھول تپش کے
بغیر آگ کر ن کے بغیر چاند لو کے بغیر سورج ٹھنڈک کے بغیر بر ف اور آہ سرد
کے بغیر عشق نا مکمل ہے اِسی طرح جب تک عید کا تہوار ہم غریبوں کے ساتھ مل
کر نہیں منا تے عید دوسروں میں خو شی لا نے کا سبب نہیں بنتی ہما رے درمیان
پیا رمحبت کے ترانے نہیں بجتے اخو ت روا داری اور پیار کے گلستان نہیں
مہکتے اس وقت تک ہم عید کی حقیقی خو شیوں سے محروم رہیں گے پتہ نہیں ہما ری
قوم کو کب حقیقی عید کی خو شیاں نصیب ہو نگیں کب ہم حقیقی خو شیوں سے لبریز
حقیقی عید منائیں گے ۔
|