• آیت نمبر 1 تا 3 میں اللہ عزوجل کی قدرت کاملہ کا ذکر
کیا گیا ہے اور تخلیق انسان کے ابتدائی مراحل کا ذکر کیا گیا ہے۔
• آیت نمبر 4 تا 11 میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تسلی دی گئی
ہے اوربتایا گیا ہے کہ کافر کھلی نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود ایمان نہیں
لانے والے اور حق کو تسلیم نہیں کرنے والے۔
• آیت نمبر 12 تا 19 میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو حکم دیا گیا
ہے کہ وہ کفار کو بتادیں کہ میں آسمان و زمین کے خالق کے سوا کسی اور کو
اپنا کارساز ہرگز نہیں مان سکتا اور بتا دیں کہ میں ہی وہ ہوں جو سب سے
پہلے اسلام لایا اور یہ بھی بتا دیں اللہ عزوجل جس کو ضرر پہنچانا چاہے تو
کوئی اسکے سوا نجات دینے والا نہیں اور وہ جسکے ساتھ بھلائی کا ارادہ
فرمائے تو کوئی اسکو روک نہیں سکتا اور یہ بتائیے کہ اللہ عزوجل کے عذاب
میں ہر ایک کو ڈراؤں اور اس کی وحدانیت کی طرف بلاؤں اور شرک سے بیزاری کا
اظہار کروں۔ اور آگے موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا ذکر ہے
• آیت نمبر 20 تا 32 میں کافروں کا مؤقف ذکر کیا گیا ہے یعنی وہ اللہ عزوجل
اسکے رسولوں اور اسکی کتاب کا رد کرتے ہیں ۔۔ مشرکوں کو اللہ عزوجل قیامت
کی دن جمع فرما کر ان کے باطل معبود کا پوچھے گا کہ وہ اب کہا ہیں تو کافر
اپنے عمل کو چھپانے لگیں گے۔۔ اور آگے کفار کے پچھتاوے کا بھی ذکر کیا
گیا۔۔
• آیت نمبر 33 تا 39 میں کفار کی باطل فرمائش کرنے کا ذکر کیا گیا ہے اور
آگے یہ بتایا گیا ہے کہ روز حشر مشرک بھی ایک ہی رب کو پکارنے لگیں گے۔
• آیت نمبر 40 تا 47 میں پچھلی امتوں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ انکی طرف
رسول کو بھیج کر آزمایا گیا پھر ان پر جب ان پر مصیبت عذاب کی صورت میں
نازل ہوئی تاکہ وہ گڑگڑا کر اللہ کو پکاریں ، لیکن دلوں کی سختی نے انہیں
ایسا کرنے نہیں دیا ، اور ان کی گمراہ کن راہوں کو شیطان نے آراستہ کر دیا
تھا ۔۔ آگے بتایا گیا ہے کہ اگر اللہ عزوجل تم سے تمہاری آنکھیں، کان لے لے
اور تمہارے دلوں پر مہر لگادے تو کون سا معبود ہے جو اس کو لوٹائے گا۔۔
• آیت نمبر 48 تا 67میں اللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی
دلجوئی فرمائی ہے کہحق کے دشمن کو اس کے حال پر چھوڑدیجیے، بے شک آپ سچے
ہیں۔۔
• آیت نمبر 68 تا 73 میں منع کیا گیا ان لوگوں کے ساتھ سے جو اللہ عزوجل کی
آیتوں میں بیہودہ بحثیں کرتے ہیں ۔۔ اور آگے دین اور قرآن کے ذریعے نصیحت
کا حکم دیا گیا ہے۔
• آیت نمبر 74 تا 83 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور انکے والد آزر اور
انکی قوم کے درمیان ہونے والا مکالمہ مذکور ہے۔
• آیت نمبر 84 تا 90 میں بیان ہے کہ اللہ عزوجل نے تمام انبیاء کرام کو
ہدایت دی اور تمام مخلوقات پر فضیلت دی ، پس ان کی لائی ہوئی ہدایت کی
پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔
• آیت نمبر 91 تا 94 میں بتایا گیا ہی کہ یہودی اس بات کا انکار کرتےکہ کسی
بشر پر کچھ نازل نہ فرمایا۔۔ اور ان کی موت کے وقت کی سختی اور ذلت والے
عذاب کا ذکر کیا گیا ہے، پھر قیامت میں ان سے ہونے والی پوچھ گچھ کا ذکر ہے
کہ کہا ہے وہ معبود جن کو ےم اللہ عزوجل کا شریک ٹہراتے تھے ۔۔۔
• آیت نمبر 95 تا 104 میں نعمتوں کا ذکر کر کے توحید کو بیان کیا گیا ہے۔۔
اور آگے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شیطانی وعدے محض دھوکہ ہیں، پھر آگے اللہ
عزوجل کے بے مثال ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔۔
• آیت نمبر 105 تا 107 میں رسول اور مؤمنین کو وحی کی اتباع کرنے کا حکم
دیا گیا ہے۔۔
• آیت نمبر 108 میں ایک اصول بیان کیا گیا ہے پر امن معاشرے کے لیے کہ تم
مشرکوں کے باطل معبودوں کو برا نہ کہو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ عزوجل کی
شان میں کو نازیبا الفاظ کہہ دیں ۔۔
• آیت نمبر 109 تا 111 میں کفار کی خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ قسمیں
کھاتے ہیں اور متعدد مطالبات کر کے اپنے ایمان لانے کا یقین دلاتے ہیں
،اللہ عزوجل نے بتا دیا کہ یہ محض ان کی بہانے بازیاں ہیں اور محض جہل پر
مبنی مطالبات ہیں یہ ہرگز ایمان نہیں لانے والے۔
• آیت نمبر112تا 117 میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تسلی دیا گیا
ہے اور فرمایا کہشریر جن وانس کو دشمن بنایا ، جو ایک دوسرے سے دھوکے میں
ڈالنے کے لیے ایک دوسرے کو خوش نما باتیں کہتے ہیں۔۔
• آیت نمبر 118 تا 121 میں بتایا گیا ہے کہ جس ذبیحہ پر اللہ عزوجل کا نام
لیس گیا ہو وہ حلال ہے اور جس پر نام نہ لیا گیا ہو وہ حرام ہے۔ اور آگے
بیان ہے کہ گناہ اعلانیہ ہو یا پوشیدہ، گناہ گناہ ہوتا ہے اور اسکو ترک
کرنا چاہیے ہے اور جو گناہ کرے گا اس کی سزا بھی پائے گا۔اس کے بعد ہدایت
یافتہ اور گمراہ کا تقابلی جائزہ مذکور ہے کہ کیا وہ دونوں برابر ہوسکتے
ہیں۔
• آیت نمبر122 تا 127میں مؤمنين اور کفار کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے اور
پھر بتایا کہ اللہ عزوجل جسے چاہتا ہے ہدایت سے اسکا سینہ کھول دیتا ہے اور
جسے چاہتا ہے گمراہ کرنا ، تو اس کا سینہ تنگ کر دیتا ہے۔۔
• آیت نمبر 128 تا 131 میںبتایا گیا ہے کہ بعض ظالموں پر بعض کو مسلط کر
دیا جاتا ہے کیونکہ وہ معصیت کے کام کرتے تھے ۔۔ آگے بتایا گیا ہے کہ اللہ
عزوجل اتمام حجت کے لیے قیامت کے دن گروہ جن و انس سے سوالات فرمائے گا کہ
کیا تمہارے پاس میرے رسول نہیں آئے تھے کیا وہ میری آیات اور ملاقات کے دن
سے نہیں ڈراتے تھے۔
• آیت نمبر 132 تا 135 میںبتایا گیا ہے کہ اعمال کے مطابق ہر ایک درجات
ہوتے ہیں۔اور پروردگار بے نیاز ہے رحمت والا ہے۔۔
• آیت نمبر 136 تا 144 میں ہے کہ کفار نے زمانہء جاہلیت میں اپنے کھیتوں
اور مویشیوں کو تین حصوں میں بانٹ رکھا تھا ، ۱- ایک حصہ باطل معبودوں کے
لیے اس حصے سے نفع اٹھانا کسی کے لیے بھی جائز نہ تھا جس کو چاہتے کھلاتے
تھے صرف اور صرف مرد کھا سکتے تھے عورتیں نہیں ، ۲- دوسرا حصہ وہ جس کو خاص
بتوں کے لیے رکھتے تھے اس پر سوار ہونا اس پر سامان لادنا حرام تھا۔ ۳۔ بعض
مویشیوں پر وہ ذبح کے وقت بتوں کا نام لیتے تھے اللہ عزوجل کا نام نہ لیتے
تھے۔آگے ذکر کیا گیا کہ پھلوں کھیتوں اور جانوروں جو کہ اللہ عزوجل کی
نعمتیں ہیں ان کو کھاؤ ، ان میں اسراف نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور پھلوں
اور کھیتوں کے عشر کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
• آیت نمبر 145 تا 158 میں محرمات قطعیہ کا اور یہودیوں کی ایک اور سرکشی
کا ذکر کیا گیا ہے کہ ان پر ناخن والے جانور اور گائے ،بکری کی چربی کو ان
پر حرام کر دیا گیا تھا لیکن انہوں نے اسکو پگھلا کر فروخت کیا گیا، آگے ہر
منافقوں کی ایک چال کو بیان کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم جو کرتے ہیں وہ
مشیت الہی کے تحت کرتے ہیں اگر اسکی مرضی نہ ہوتی تو ہم کچھ نہ کر پاتے۔۔
آگے شرک نہ کرنے کا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا ، اولاد کو قتل نہ
کرنے کا، قتل ناحق ، یتیم کا مال ناحق نہ کھانے کا، لین دین میں ناپ تول
پورا کرنے کا ، انصاف کرنے کا ، اور اللہ عزوجل کے وعدوں کی پاسداری کا حکم
دیا گیا ہے۔
• آیت نمبر 159 تا 165 میں دین میں تفرقہ ڈالنے سے منع کیا گیا ہے،اور قرآن
اور دین کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔۔اور بتایا گیا ہے کہ جو کوئی نیکی
کرے تو اس کو دس نیکیاں ملتی ہیں اور جو گناہ کرتا ہے تو اسکو اسی کی ایک
کی سزا ملتی ہے۔۔
رکوع ، آیات، حروف اور الفاظ کی تعداد :
20 رکوع، 165 آیات ، 12418 آیات، 3055 الفاظ۔
سورة الانعام کی وجہ تسمیہ :
عربی میں مویشیوں کو انعام کہا جاتا ہے، اس سورت کی آیت نمبر 136 تا 138
میں مشرکین کے ان مویشیوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کی انہوں نے قسمیں بنا رکھی
تھیں کچھ کو بتوں کے لیے اور کچھ کو باطل معبودوں کے لیے رکھتے تھے۔۔
فضیلت:
• شعب الایمان حدیث نمبر 2433 میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے
روایت منقول ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا سورہ انعام
نازل ہوئی اور اسکے ساتھ بلند آواز سے تسبیح کرتی ہوئی فرشتوں کی ایک جماعت
تھی جس سے زمین و آسمان کے کنارے بھر گئے، زمین ان فرشتوں کی وجہ سے ہلنے
لگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تین مرتبہ سبحان ربی العظیم
کہا۔
• مستدرک حاکم میں ہے کہ اس سورت کے نازل ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ
والہ وسلم نے فرمایا : اس مبارک سورت کو پہنچانے کے لیے اس قدر فرشتے آئے
تھے کہ آسمان کے کنارے دکھائی نہ دیتے تھے ( صفحہ نمبر 147 تفسیر ابن کثیر
جلد نمبر 7)
• ابن مردویہ میں یہ بھی ہے کہ فرشتوں کی اس وقت کی تسبیح نے ایک گونج پیدا
کردی تھی ، زمین گونج رہی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سبحان
اللہ العظیم سبحان اللہ العظیم پڑھ رہے تھے۔
|