رمضان المبارک 1440 اختتام پزیر ہوا۔ حسب معمول برطانیہ
میں ایک مرتبہ پھر دو عیدیں منائی گئیں۔ اس حوالے سے چند عام فہم حقائق اور
حل کیلئے چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔ برطانیہ کے ہر شہر اور قصبہ میں مسلمان
کمیونٹی تقسیم نظر آئی۔ کچھ نے چار جون اور کچھ نے پانچ جون کو عید
منائی۔کم و بیش ہرسال اسی طرح کی صورت حال پیش آتی ہے۔ عید سے کچھ دن پہلے
اور بعد ہر خاص و عام مجلس میں چاند ہی موضوع بحث ہوتا ہے۔ لیکن جوں ہی
عیدگزرجاتی ہے تو سارے لوگ اپنے اپنے مشاغل میں مصروف ہو کراگلے چاند تک
کیلئے اس موضوع کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اسی لیے آج اس بے موسمے موضوع کا
انتخاب کیا ہے کہ اب وقت ہے ہم سوچیں اور اس مسئلہ کے حل کی طرف متوجہ ہوں۔
چاند کی روئت کے حوالے سے ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ شاید مسلکی
اختلافات کی وجہ سے چاند کے متعلق فیصلوں میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ مسالک کے اختلافات کی وجہ سے نہیں بلکہ دو مختلف نظریات
اور نکتہ نظر کی وجہ سے اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ ایک طبقہ سعودیہ کی رویت پر
اندھا دھند اعتماد کر کے آغاز رمضان یا عید کا اعلان کر دیتا ہے جبکہ دوسرا
طبقہ لوکل مون سائیٹنگ کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ مسلکی اختلاف اس وجہ سے بھی
نہیں کہ بریلوی مکتبہ فکر کے علماء و مشائخ، وفاق العلماء کی تمام دیوبندی
مساجد، یو کے اسلامک مشن کی اکثر مساجد اور تمام شیعہ امام باگاہیں اس پر
متفق ہیں کہ ہمیں شرعی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نئے ماہ کا آغاز مقامی
مون سائیٹنگ پرکرنا چاہیے۔ البتہ دیوبندی مکتبہ فکر کی تنظیم’’ حزب العلماء
‘ ‘ ، اہل حدیث مساجد، بنگلہ دیشی کمیونٹی کی مساجداور کچھ دیگر مساجد
سعودیہ کے اعلان کی پیروی کرتے ہوئے اسلامی مہینے کا آغازکر تے ہیں۔ اس سے
یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ اختلاف مسلکی نہیں بلکہ نظریاتی ہے۔ ہماری
تحقیق و جستجو سے یہ بات سامنے آئی کہ سعودی عرب کے چاند دیکھنے کی خبر کی
اندھا دھند پیروی نہ کرنے کے پس پردہ قطعا کوئی عناد یا ضد نہیں بلکہ اس کی
وجہ سعودیہ کے نظام روئت ہلال کا سائینسی و شرعی اصولوں کے مطابق ناقابل
اعتبار ہونا ہے۔ ہر مکتبہ فکر کے جید علمائے کرام نے بارہا سعودی’’ نظام
رویت ہلال‘‘ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ حال ہی میں دیوبندی مکتبہ فکر کے
فلکیات کے ماہر مفتی طارق مسعود صاحب نے اپنے ایک وڈیو بیان میں واشگاف
الفاظ میں کہا ہے کہ ’’ سعودی عرب کو ہم سو دفعہ سلام کرتے ہیں مگر ان کا
چاند دیکھنے کا نظام شفاف نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ سعودی
عرب میں درجنوں دفعہ ایسا ہوا ہے کہ دوسرے دن بھی لوگوں کو چاند نظر نہیں
آیا۔ جبکہ تیس کا چاند ساری دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے۔ سعودی عرب کے
علماء بھی وہاں کے نظام روئت سے متفق نہیں ہیں۔ سعودی عرب کے مفتی شیخ بن
باز بھی سعودیہ کے چاند دیکھنے کے سسٹم سے متفق نہیں تھے‘‘۔ ویسے تو بے
شمار لوگوں کے اس حوالہ سے اعتراضات موجود ہیں البتہ اس ایک حوالے کا
انتخاب اس لئے کیا کہ اس کنفیوژن کا ازالہ ہو سکے کہ صرف بریلوی مکتبہ فکر
کے علماء کی ہی سعودی رویت ہلال کے نظام پرتشویش نہیں بلکہ دیگر مکاتب فکر
کے جید علماء بھی اس حوالے سے یہی موقف رکھتے ہیں ہیں۔ اگر سعودی عرب کا
نظام رویت قابل اعتماد ہو جائے تو سب سے پہلے ہم سعودی عرب کی پیروی کرنے
کیلئے تیار ہیں کیونکہ( اگر کہیں دن رات کا فرق نہ ہو تو) فقہ حنفی میں
اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں ہوتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورت
حال کو جوں کا توں چھوڑ کر دو دو عیدیں کرتے رہیں یا اس کا کوئی حل بھی
ممکن ہے؟ ہمارے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں اس کا حل ممکن ہے بشرطیکہ ہر
مکتبہ فکر کے علمائے اخلاص نیت سے اس اہم مسئلہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مل
بیٹھ کر شرعی اور سائینسی اصولوں کے مطابق حل کی کوشش کریں۔ ہمیں سوچنا
چاہیے کہ اگر کسی کے غلط فیصلے سے ہزارہا لوگوں کا فرض روزہ چھوٹ گیا تو اس
کا ذمہ دار کون ہوگا؟ یہ ایک کمیونٹی اشو بھی ہے لہذا کمیونٹی کے سیاسی و
سماجی راہنما اور مساجد کمیٹیاں بھی اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ ہم چند ایک
تجاویز پیش کرتے ہیں اور ان شاء اﷲ انہیں خطوط پر اتحاد کیلئے عملی کوششوں
کیلئے بھی علمائے کرام کے پاس بھی حاضر ہوں گے۔ ایک یہ بات بھی زہن نشین
ہونی چاہیے کہ چاند کا مسئلہ فقہی مسئلہ ہے نہ کے اعتقاد ی۔ رویت ہلال کے
متعلق احادیث نبویہ کی روشنی میں ،برطانیہ میں بسنے والے دیوبندی، بریلوی
اور یو کے اسلامک مشن حنفی فقہ کے مطابق تمام عبادات اور معاملات بجا لاتے
ہیں۔ چاند کی روئت کے متعلق فقہ جعفری اور اہل حدیث مکاتب فکر کا یہی ضابطہ
کار ہے جو کہ فقہ حنفی کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک پاکستان، انڈیا ،
برمااور بنگلہ دیش میں کبھی بھی ان مسالک نے رویت ہلال پر اختلاف نہیں
کیا۔) رہی بات مسجد قاسم خان اور مفتی پوپلزئی صاحب کی، سالہا سال سے ان کی
اپنی انوکھی منطق ہے جس پر ان کے ہم مسلک علماء بھی نالاں اور شکوہ کناں
ہیں(۔اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ اتفاق رائے سے تمام مسالک پر مشتمل ’’یو کے
نیشنل رویت ہلال بورڈ‘‘ تشکیل دیا جائے۔یہ بورڈ مل بیٹھ کر اتفاق رائے سے
شرعی اور فلکیاتی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے برطانیہ جیسے غیر معتدل ملک
میں روئت ہلال کے اصول طے کرے۔ ضرورت پڑے تو دیگر ممالک سے اس فن کے ماہرین
اور جید علماء سے بھی مشاورت کرے۔بالآخر ایک متفقہ فارمولا تشکیل دے کر اس
کے مطابق عمل شروع کر دیا جائے۔یہ بورڈ نہ صرف رمضان المبارک اور عیدین کے
موقع پر بلکہ ہر ماہ انہیں اصولوں کے مطابق نئے مہینے کے آغاز کا اعلان ٹی۔
وی چینلز پر کرے اور اخبارات میں خبر دے کر لوگوں کو آگاہ رکھے۔ علاوہ ازیں
مساجد کی نیٹ ورکنگ کر کے ان کا ایک ایک نمائندہ مشاورتی بورڈ کا ممبر
بنایا جائے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ چاند کا اعلان ہر مسلک بلکہ ہر مسجد سے
اپنے طور پر ہوتاہے۔ اس وجہ سے سالہا سال سے کمیونٹی مشکلات کا شکار ہے۔ یہ
ایک قومی سطح کا مسئلہ ہے اور اسی نہج پر اسے حل ہونا ہے۔ہم جو عرض کر رہے
ہیں یہ کوئی حرف آخر ہے اور نہ ہی کوئی نئی بات ۔بلکہ کئی ایسی مثالیں
موجود ہیں کہ ہر مکتبہ فکر کے اکابر علمائے کرام نے قومی سطح کے مذہبی اور
سیاسی مسائل کو ایسے ہی مل بیٹھ کر حل کرنے کی سعی کی۔ مسئلہ ختم نبوت کے
حل، نظام مصطفیﷺ کے نفاذ اور متحدہ مجلس عمل کی تشکیل میں ہمیں اتحاد مسالک
کایہی نظریہ کار فرما نظر آتا ہے۔ چاند کا مسئلہ یو کے میں گھنبیر صورت
اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس کو حل کرنا ہر مکتبہ فکر کے علمائے کرام
اورسماجی راہنماؤں کا فرض منصبی ہے۔ حالات پہلے ہی بہت نازک ہیں اوراس سے
پہلو تہی ہماری نئی نسل کے لئے کنفیوژن اور دین سے دوری کا باعث بن رہی ہے۔
دیگر مذاہب کے لوگوں کے سامنے ہمارے یہ رویے جگ ہنسائی کا باعث بھی بنتے
ہیں۔ ایک ایک گھر بلکہ فیملیز میں دو دو عیدوں ں سے اس اہم تہوار کی خوشیاں
بھی ماند پڑ جاتی ہیں۔یہ کسی کی ذات یا خاندان کا مسئلہ نہیں بلکہ شریعت
اسلامیہ کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ خدا کے لئے تمام ذمہ داران باہمی اختلافات
کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس اہم دینی و سماجی مسئلہ کو حل کرنے کیلئے مل
بیٹھیں ، تجاویز دیں اور اس کے حل کیلئے بھرپور تعاون کریں۔
|