خواتین کا عالمی دن، اسلام اور ہمارا معاشرہ

 پوری دنیا کی طرح 8 مارچ کو پاکستان میں بھی خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے مختلف تنظیمیں اور این جی اوز کے زیر اہتمام سیمینارز ہوتے ہیں، مظاہرے کئے جاتے ہیں، تقریریں ہوتی ہیں، موڈریٹ خواتین دوسری خواتین کو نصیحتیں کرتی ہیں، خواتین کے برابری کے حقوق کی باتیں کی جاتی ہیں، ان کو ترقی کے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں، مردوں کے شانہ بشانہ چلنے اور اپنے حقوق کو پہچاننے کی ”خوبصورت“باتیں کی جاتی ہیں اور اگلے سال کی تیاری کے لئے نشستیں برخاست کردی جاتی ہیں۔ یہی نشست و برخاست ہے جو خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیمیں ہر سال کرتی ہیں ورنہ سارا سال چند ایسے کیسز کو چھوڑ کر کہ جن سے اسلام اور پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے، کسی اور کیس اور خواتین پر ہونے والے مظالم کی نہ تو کوئی بات کی جاتی ہے نہ ہی کوئی تگ و دو۔

اسلام نے خواتین کو جتنے حقوق سے نوازا ہے کسی اور مذہب میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کون نہیں جانتا کہ ظہور اسلام اور حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے پوری دنیا کے معاشروں میں خواتین کی کیا عزت، وقعت اور احترام تھا۔ یہ بلا شبہ دین حنیف کی برکات ہیں جن کی وجہ سے آج کی عورت خصوصاً مسلمان عورت عمر کے ہر دور اور ہر روپ میں قابل عزت بھی ہے، قابل احترام بھی ہے اور قابل تعظیم بھی! حضور اکرم ﷺ کی زندگی تمام مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے، حضور ﷺ حضرت فاطمہؓ کے ان کے پاس آنے پر کھڑے ہوکر اپنی بیٹی کا استقبال کرتے، ان کے بیٹھنے کے لئے اپنی چادر مبارک بچھا دیا کرتے، ان کے بیٹوں (نواسان رسول) سے انتہائی پیار اور شفقت کرتے، یہ اسلام میں ایک بیٹی کی عزت و وقار کی مثال ہے جبکہ اس سے پہلے لوگ بوجوہ اپنی بیٹیوں کو زندہ زمین میں دفن کردیا کرتے تھے اور انہیں اس پر کوئی پچھتاوا بھی نہ ہوتا تھا۔ ایک بہن اپنے بھائیوں کی غیرت ہوا کرتی ہے، بھائی اسے پوری دنیا سے ایسے بچاتے ہیں جیسے گلاب کانٹوں کے درمیان مسکراتا اور مہکتا نظر آتا ہے، بہن کی پکار پر وہ ہزاروں میل کا سفر کر کے علم جہاد بلند کرنے سے بھی نہیں کتراتا، محمد بن قاسم کی روشن مثال ہمارے سامنے ہے۔ عورت اگر بیوی کے روپ میں ہو تو آدمی کی عزت ہوتی ہے، اسلام نے میاں بیوی کے حقوق و فرائض میں ایک خوبصورت توازن عطا فرمایا ہے۔ بیوی کے ماں باپ کو شوہر کے ماں باپ کا درجہ دیا گیا ہے، بیوی کی تمام ضروریات کا کفیل شوہر کو قرار دیا گیا ہے۔ اور اگر عورت ماں کے درجے پر ہو تو اس کی عظمت کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ حضور اکرم ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے ”اے کاش میں آدھی رات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہوں اور میری ماں مجھے آواز دے، میں نماز چھوڑ کر اپنی ماں کی خدمت میں حاضر ہوجاﺅں“۔ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے یعنی جنت کو جانے والا راستہ ماں کے قدموں سے ہوکر جاتا ہے۔ ماں کی عظمت بارے ہزاروں لاکھوں صفحات لکھے جاسکتے ہیں لیکن پھر بھی شائد ماﺅں کی عظمت کا احاطہ ممکن نہ ہو۔

اگر ہم موجودہ پاکستان میں عورتوں کے حقوق کا جائزہ لیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک محدود پیمانے پر ان پر ظلم و ستم بھی ہوتا ہے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم بھی رکھا جاتا ہے۔ کہیں کوئی باپ اپنی بیٹی کو ظلم کا نشانہ بناتا ہے ، کہیں کوئی بھائی اپنی بہن کو، کہیں کوئی شوہر اپنی بیوی کو تو کہیں کوئی بیٹا اپنی ماں کو بھی نہیں بخشتا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے بارے میں عمومی رویہ کس طرح کا ہے اور ان پر ظلم و تشدد کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا ہم اسلام کو ان مسائل کا ذمہ دار سمجھ سکتے ہیں یا اسلامی حدود سے تجاوز اور اسلامی تعلیمات پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ کرنے کو۔ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ اسلام نے خواتین کو عمر کے ہر حصہ میں قابل عزت و احترام جانتے ہوئے ان کے حقوق کا تعین کیا ہے۔ اگر اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھا جائے اور ان پر عمل پیرا ہوا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی خاتون بھی کسی قسم کے ظلم و ستم کا نشانہ نہیں بن سکتی بلکہ ہر معاملہ میں اس کے حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے۔ ہر گھر میں موجود صنف نازک شائد بعض معاملات میں غیر محسوس انداز سے ،میڈیا کی ان معاملات میں خاص توجہ کی وجہ سے یا ایک خاص ذہن رکھنے والی این جی اوز یافتہ خواتین کے بھاشنوں سے اپنے آپ کو بڑا بے بس و لاچار اور ظلم کا شکار سمجھتی ہے۔ کہیں پسند کی شادی کا معاملہ ہوتا ہے، کہیں بھابیوں سے شکایات، کہیں من پسند ادارہ میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش اور کہیں ملازمت کی تمنا، لیکن وہ خواتین جب اسلام کے زریں اصولوں سے بھٹکی ہوئی مغرب زدہ خواتین کی حرکات، گھروں سے بھاگنے والی لڑکیوں کے حالات اور جن گھروں سے وہ بھاگی ہوتی ہیں ان گھروں اور ماں باپ کے حالات سنتی ہیں تو اللہ کے حضور شکر بجا لاتی ہیں کہ وہ جذبات کی رو میں بہکنے اور اس کے مابعد اثرات سے بچ گئیں، کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے جو لڑکیاں اپنا گھر بار، ماں باپ اور بہن بھائیوں کو چھوڑنے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی عزت کا جنازہ نکال کر کسی اور کو ”اپنا“ سمجھ کر اس کے ساتھ جاتی ہیں، وہ اپنی ساری کشتیاں جلا چکی ہوتی ہیں اور جب انہیں اسی ”اپنے“ کی طرف سے دھوکے کا شکار ہونا پڑتا ہے تو ان کے لئے کوئی جائے امان (ماسوائے دارالامان) موجود نہیں ہوتی۔ انہیں خواتین یا لڑکیوں کو مزید بہکا کر اور مزید بھڑکا کر، پورے معاشرے سے بدلہ دلوانے کے لئے مغرب کے پیسوں پر چلنی والی این جی اوز اپنے مطلب کے لئے استعمال کرتی ہیں، ان خواتین کو ایک چلتا پھرتا اشتہار بنا دیا جاتا ہے جس سے اسلامی معاشرے میں بگاڑ کا کام لیا جاتا ہے اور حتی الوسع اسلام ،مسلمانوں اور پاکستانی معاشرے کو بدنام کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں کام کرنے والی خواتین کے حقوق کی اکثر و بیشتر این جی اوز اور مختلف تنظیمیں اپنا اپنا ایجنڈہ اور محرکات رکھتی ہیں۔ کبھی وہ کسی "Love Affair" کی آڑ لے کر بدنامی کے اسباب پیدا کرتی ہیں، کبھی کسی کے ساتھ زیادتی کا سہارا لے کر، کبھی مردوں کے شانہ بشانہ چلانے اور مادر پدر آزادی کے خواب لے کر اور کبھی مردوں کی غلامی سے آزاد کرانے کا نعرہ بلند کر کے اپنے اہداف تک پہنچنے کی کوشش اور سعی میں مصروف نظر آتی ہیں، جہاں اور جس معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا اور دیمک زدہ کرنے کے لئے یہ سب کچھ ہورہا ہو وہاں کے باسیوں اور اس معاشرے کے افراد کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ جب بنیادوں میں بارود بھرا ہو تو ذرا سی چنگاری بھی اس گھر کو ”بھک“ سے اڑانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے گھروں میں اور گھروں سے باہر، پورے معاشرے میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہدایات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔ خواتین کے جو حقوق اسلام نے دئے ہیں ان سے ذرا برابر بھی کم نہ کریں، پیار، محبت اور شفقت کے ساتھ تمام مسائل و معاملات کے حل ڈھونڈیں کیونکہ ظلم کی وجہ سے بغاوت پیدا ہوتی ہے اور ہم پاکستانی معاشرے کے افراد جو پہلے ہی اتنے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، ہر گھر میں بغاوت کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ سب سے بڑا مسئلہ جو درپیش ہوتا ہے وہ شادی بیاہ اور رشتوں کا ہے، اس میں بھی اگر بڑے اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں اور اپنی اولاد سے بھی اس بارے میں رائے لے لیں اور ان کی خوشنودی اور رضا بھی معلوم کرلیں تو پچاس فیصد سے زیادہ وہ معاملات گھر کی چار دیواری سے باہر ہی نہ آئیں جو تنازع کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ حقوق کے لحاظ سے بیٹے اور بیٹی میں جو فرق روا رکھا جاتا ہے اس کو بھی ختم کرنے اور کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کو ایک اسلامی دائرہ اور اپنی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے ہر طرح کی آزادی ہونی چاہئے لیکن مادر پدر آزادی، مخلوط محفلوں اور ان میں جنم لینے والی خرابیوں میں حصہ دار بننے کی نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہم اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں اور حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں اور خواتین و حضرات کے حقوق و فرائض میں وہی توازن قائم رکھیں تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ہوگا اور ہم ابلیس کے چیلوں اور اس معاشرے میں مادر پدر آزادیوں کے ذریعہ ہماری اساس ختم کرنے کے خواہش مند (بزعم خود)ماڈرن اور دانشور قسم کے لوگوں سے اپنی صنف نازک کو بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ایک عورت کو اس طرح کی برائیوں سے بچانے کا مطلب ہے کہ ہم نے پورے خاندان کو بچا لیا.... اللہ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو ہر قسم کے شیطانی چکروں سے بچائے رکھے.... آمین۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222454 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.