ہائے کمبخت اقتدار چیز ہی ایسی ہے․․!!

انسان نے ہمیشہ اپنی زندگی سے محبت کی ہے ،لیکن اب حالات نے پلٹا کھایا اور یہ زندگی جس سے ہر انسان محبت کرتا ہے ،دوسروں کے رحم و کرم پر منحصر ہوتی جا رہی ہے ۔ارباب اقتدار طاقت کے نشے میں ہوش کھو بیٹھے ہیں ۔انہیں ملک و قوم کی فکر نہیں بلکہ انہوں نے اپنے من پسند نتائج کے حصول کے لئے کسی بھی معصوم انسانوں کی عظمت کو پامال کرنے کا وتیرہ بنا رکھا ہے ۔ہمیں تاریخ بار بار بتاتی ہے کہ جب کسی قوم پر بحران کے بادل چھاتے ہیں، وہ ہوش کے ناخن نہیں لیتی ہے ۔اس کا تاریخ میں سیاہ باب تو بنتا ہی ہے،مگر اپنے آنے والی نسلوں کے لئے بھی گہری دلدل کھود جاتی ہے ،جہاں سے ان کا نکلنا نا ممکن ہو جاتا ہے ۔چہرے تبدیل ہوتے ہیں،بہانے تراشے جاتے ہیں ۔لیکن ان میں کوئی نیا پن نہیں ہوتا۔

حکومت اور ارباب اقتدار پر کڑی تنقید کی جاتی ہے ۔کیا ان پر تنقید کرنے سے معاشرے کی تعمیر ہوئی ․․․کوئی قومی ترقی ہو گئی․․․معاشرے کی زبوں حالی دور کی جا سکی․․؟جواب ’’نہیں‘‘میں ملتا ہے ۔

جمہوریت کا راگ آلاپنے والوں پر حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں اندھیروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ،یہاں جمہوریت کا سورج کبھی نظر نہیں آیا۔کیونکہ یہاں الیکشن تو ہوتے ہیں،لیکن عوام کو جمہوریت نہیں ملتی ہے ۔عمران خان کی حکومت کا مشکل وقت شروع ہونے جا رہا ہے ۔ایسے وقت پر اپنے آپ کو دانا سمجھنے والے سنگین غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں ۔جیسے عمران خان نے مشرف دور والے حربے اختیار کرنے شروع کر دیے ہیں۔عدلیہ پر شب خون مارنے کے لئے عمران خان کی ہدایت پر معزز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دو ہائی کورٹ ججزکے خلاف ریفرنس بنایے گئے ہیں ۔اس ریفرنس کی وکلاء براردری نے شدید مذمت کی ہے اور ایک فیصلہ کن تحریک چلانے کا عندیہ بھی دیا ہے ۔اس وقت سب کی نظریں وکلاء کی مجوزہ تحریک پر ہیں ۔جس میں ماضی میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں شامل بیشتر سینئر وکلاء رہنماؤں نے حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔حکومت بھی مقابلے پر ڈٹ چکی ہے اور ریفرنس واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی بلکہ وکلاء کی تحریک کو پوری تیاری سے کاؤنٹر کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کر رہی ہے اور مشرف دور کی حکمت عملی کو اپناتے ہوئے ’’تقسیم کرو‘‘ کے فارمولے پر عمل کیا جا رہا ہے ۔لیکن وکلاء نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ اظہار یکجہتی کا فیصلہ کر لیا ہے ۔سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل اس معاملے میں ایک ساتھ کھڑی ہیں ۔14جون کو اسلام آباد میں وکلاء کا اکٹھ ہونے جا رہا ہے ۔

ملک کی دو بڑی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ تمام حزب اختلاف کی دیگر پارٹیوں نے بھی حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان کر رکھا ہے ۔مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی وطن واپسی نے سیاسی اکھاڑے میں روشنی بڑھا دی ہے ۔اب وکلاء اور سیاسی پارٹیاں اگر مل جاتیں ہیں تو فیصلہ بہت جلد سامنے آ سکتا ہے۔لیکن کچھ سینئر وکلاء کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر سیاسی اور وکلاء نے مل کر تحریک چلائی تو اس کے نتائج زیادہ خراب بھی آ سکتے ہیں ۔ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ جب پی این اے کی تحریک چلی تھی اس کا نتیجہ مارشل لاء کی صورت میں سامنے آیا تھا ۔لہذا ہر قدم احتیاط سے اٹھانا چاہیے ۔ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت ،حزب اختلاف اور وکلاء کو لڑوا کر کوئی اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے ماحول بنا رہا ہو۔لیکن منجھے ہوئے وکلاء رہنماؤں کا خیال ہے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مشترکہ تحریک چلائیں ۔14جون کے بعد باخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ تحریک کا رخ کس سمت جا رہا ہے ۔پی ٹی آئی حکومت کی سب سے بڑی غلطی یہی رہی ہے کہ انہوں نے بے لاک احتساب کی بجائے شخصیت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔ان کا مقصد بے لاگ احتساب کبھی بھی نہیں رہا۔عید کی چھٹیاں ختم ہو تے ہی نیب دوبارہ بھر پور ایکشن میں آ گیا ہے ۔آصف علی زرداری کو جیل میں ڈالنے کی خواہش کے ساتھ ساتھ میاں برادران کو بھی دباؤ میں لانے کے لئے سر توڑ کوششیں ہوں گی ،مگر تحریک انصاف کی نومولد حکومت ابتدا سے ہی بہت سے بحرانوں کی لپیٹ میں رہی ہے ،سب سے بڑا بحران ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ تھا ،مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔جس نے حکومت اور عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔وزارتِ خزانہ کی نا اہلی کہا جائے یا حکومتی مؤثر لائحہ عمل کا فقدان ۔کچھ بھی ہو یہ وزیر اعظم اورکابینہ کی نا اہلی کا کھلا ثبوت کئی وزراء کو فارغ اور کچھ کو از خود مستعفی ہونا پڑا۔لیکن اب اس حکومت کا بڑا بلنڈرسامنے آیا ہے اورعمران خان کو ایسے مشورے کون دے رہا ہے ۔ایک تو ہر حکمران اپنے اردگرد نادان دوستوں کو پسند کرتا ہے ،وہ مستقل خوشامدی ہوتے ہیں اور وہی بات کرتے ہیں جو اسے پسند ہو خواہ اس کے لئے نقصان دہ ہو ۔یہ بحران بھی انہیں دوستوں کی مہربانی سے ہو رہا ہے ۔دوسری وجہ امپائر کے اشارے پر بھی اس وقت یہ بیوقوفانہ حرکت کی جا سکتی ہے۔کہ معزز ججز کے خلاف خفیہ انداز میں ریفرنس دائر کئے جائیں ،جس کے متعلق ججز کو علم ہی نہ ہواور شبہ ہو کہ ریفرنس معزز ججز کے حالیہ فیصلوں سے متعلق ہے ۔

سیاسی بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن)،پیپلز پارٹی ،جے یو آئی ایف سمیت کئی جماعتوں کی حمایت وکلاء تحریک کو حاصل ہے ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ ماضی کی وکلاء تحریک جیسی نہیں ہو گی،کیونکہ اب وکلاء دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں ،مگر یہ چنگاری بڑھکتی آگ بنتے دیر نہیں لگائے گی ۔تحریک انصاف نے ملک کا بیڑہ غرق تو کر دیا ہے،حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں کسی نہ کسی طریقے سے مارشل لاء لگانے کا ماحول بن جائے ۔لیکن ابھی ایسا ماحول بنتا نظر نہیں آتا۔کیونکہ اس حکومت کی نا اہلی ،نا تجربہ کاری اور بغیر کسی سوچ و بچار کے کام کرنے کی عادت نے ملک کے ساتھ انہیں بھی اس نہج پر پہنچا دیا ہے ۔جہاں رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملنے والا۔کیونکہ جسٹس قاضی فائز کو حکومت کسی صورت نہیں نکال سکتی ۔جوڈیشل کونسل کا معاملہ ہے وہاں شاید پہلی تاریخ میں معاملہ ختم ہو جائے کیونکہ چیف جسٹس نے بھی کھلے الفاظ میں انہیں خیالات کا اظہار کیا ہے۔پھر عمران خان کے پاس شرمندگی کے سوا کیا باقی بچنا ہے ۔لیکن یہ وکلاء تحریک سے شروع ہونے والا معاملہ حکومت کو لے کر ہی ختم ہو گا۔عوام بد ہواس ہو چکے ہے ۔’’گو عمران گو‘‘ کے نعرے لگ رہے ہیں ۔اپوزیشن دور میں عمران خان کہتے تھے کہ مجھے عوام ’’گو‘‘کا نعرے لگائے تو میں اسی وقت اقتدار کو چھوڑ دوں گا، مگر یہ کمبخت اقتدار چیز ہی ایسی ہے ۔چھوڑنے سے نہیں چھوٹتی ،غیرت،وقار ،عزت نفس سب ختم ہو کر رہ جاتا ہے ،ایک عوامی نعرہ کیا ہے ۔

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95147 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.