محمد اسمٰعیل بدایونی
یہ اس زمانہ کی بات ہے جب اسپین میں عیسائیوں کی حکومت تھی۔ مسلمانوں کی
آمد سے قبل اندلس میں یہ دستور تھا کہ امراء سلطنت اور گورنر اپنے بچوں کو
شاہی آداب سیکھنے کے لئے شاہی محل بھیجا کرتے تھے۔ اندلس کا ایک اہم علاقہ
سبتہ تھا جس کا گورنر کاؤنٹ جولین تھا۔ کاؤنٹ جولین نے اپنی بیٹی فلورنڈا
کو طیطلہ میں شاہ راڈرک کے محل میں تعلیم و تربیت کے لئے بھیج دیا تھا۔ جب
وہ جوان ہوئی تو راڈرک اس کے حسن و جمال پر فریفتہ ہوگیا اور بادشاہت کے
غرور اور طاقت کے نشہ میں چور ہوکر لڑکی کے دامن عصمت کو تار تار کردیا۔
فلورنڈا نے بڑی مشکل سے یہ اطلاع اپنے باپ کاؤنٹ جولین کو دی۔ جولین اس بے
عزتی پر بادشاہ کا دشمن ہوگیا اور اس سے انتقام اور اپنی باعفت بیٹی
فلورنڈا کے حق کے لئے مسلمان والی موسیٰ بن نضیر سے امداد کی درخواست کی۔
اس وقت شمالی افریقہ پر مسلمانوں کا اقتدار قائم ہوچکا تھا۔
۱۹ھ میں موسیٰ بن نضیر اور طارق بن زیاد کی کوششوں سے اندلس پر حملہ ہوا
جسے مسلمانوں نے فتح کر کے رعایا کو مظالم سے نجات دلائی جن مظالم کو
برداشت کرنے کی اب ان میں طاقت نہ تھی۔
عزیزان گرامی!
غور کیجئے۔
معاملہ کسی مسلمان دوشیزہ کی عفت و عصمت کا نہیں۔۔۔
ایک عیسائی بادشاہ نے اپنی ہی رعایا کی کوئی عام سی لڑکی کو نہیں بلکہ
گورنر کی بیٹی کو ہوس کا نشانہ بنایا تو عام لڑکیوں کی عفت و عصمت کے
نگینوں کو کیسے پامال کیا جاتا ہوگا۔ قلم لکھتے ہوئے کانپ جاتا ہے۔
لیکن یہ اسلام تھا جس نے مظلوموں کی حمایت میں اپنے فرزند ظالموں کے مقابلے
میں اتار دیئے۔
ایک عیسائی دوشیزہ کی عصمت بھی مسلمانوں کے نزدیک ویسے ہی تھی جیسے ایک
مسلمان دوشیزہ کی عصمت اور دور مت جائیے برصغیر کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھئے
جب عقیدہ اور عقیدت کے نام پر مندروں میں دیوداسیوں کا ناچ ہوتا تھا اور
پھر پروہت عقیدتوں کے اس توشہ سے اپنی ہوس کا پیٹ بھرتے تو تب بھی محمود
غزنوی کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ہندوستان کے لوگوں کو چین و سکون ملا اور ہندو
دوشیزاؤں کی عفت و عصمت کو تحفظ میسر آیا۔
مگر آج جب میری نگاہیں ابوغریب کی فاطمہ اور بگرام کی ڈاکٹر عافیہ کی جانب
اٹھتی ہیں تو ایک ہوک سی اٹھنے لگتی ہے ایک طوفان بے بسی کی دیواروں سے سر
پھوڑ کر رہ جاتا ہے اور غم و آہ کی شدت خاموش چیخوں کی طرح سینوں میں گھٹ
کر رہ جاتی ہے۔
عزیزان گرامی!
قلم دماغ کے افکار کی ترجمانی تو کرسکتا ہے لیکن جذبات کی تعبیر اس کی قدرت
سے باہر ہے‘ میں اس کو کیسے لکھوں؟
ڈاکٹر عافیہ کون تھی؟
ایک مسلمان عورت جو نام نہاد وار آن ٹیرر کی بھینٹ چڑھ گئی اور امریکہ
مہادیو کے حضور بھینٹ چڑھانے والے اسے کوئی غیر نہ تھے بلکہ ہوس اقتدار کے
وہ سیاسی پنڈت تھے جن کے نزدیک عفت و عصمت اور غیرت کے لفظ کی کوئی اہمیت
نہیں۔ انہیں اپنے مفادات کے لئے اگر اپنی ماؤں اور بیٹیوں کو بازاروں میں
لاکر بیچنا پڑے تو یہ اس سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سکوں
کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں اپنی ماؤں کو اٹھا لاتے ہیں‘ بازاروں میں یہ ان
کے اتحادی ہیں جن کو نیند اس وقت تک نہیں آتی جب تک مسلمانوں کے بیٹوں اور
بیٹیوں سے ان کے عقوبت خانے چیخ نہ اٹھیں۔
یہ ان کے بازو ہیں جن کے لئے مظلوموں کی چیخیں‘ آہیں اور سسکیاں ساز اور سر
کا کام دیتی ہیں۔
اے نبی کریمﷺ کے نام لیوا مسلمانوں!
سوچو تو سہی جب ہم ٹھنڈے مشروبات سے یہاں اپنی پیاس بجھاتے ہوں گے تو بگرام
کی جیل میں عافیہ پر کیا گزرتی ہوگی۔۔۔ جب ہم یہاں اپنی پسندیدہ اور لذت
بھری غذاؤں سے لطف اندوز ہوتے ہوں گے تو عافیہ کو امریکی فوجی بوٹوں سے
روٹی کے ٹکڑے ملتے ہوں گے۔۔۔
ذرا سوچو تو سہی!
جب ہم اپنے سردیوں کی راتوں میں اپنے گرم بستروں اور لحافوں میں سکون کی
نیند سوتے ہوں گے تو افغانستان کی یخ بستہ راتوں میں عافیہ کس حال میں رات
بسر کرتی ہوگی۔
سوچ اور خدارا سوچو!
جب گرمیوں کی تپتی ہوئی دھوپ میں ہم اپنے کمروں میں ایئرکنڈیشنر کی ٹھنڈی
ہواؤں میں چین کی نیند سوتے ہوں گے تو ہماری یہ بہن گرمیوں کی تپتی ہوئی
لوؤں میں امریکیوں کے سگریٹوں سے داغی جاتی ہوگی اور جب اپنی بیٹیوں اور
بہنوں کو اپنے گھروں میں سکون کی نیند سے سوتا دیکھتے ہوں گے تو عافیہ اور
نہ جانے عافیہ جتنی کتنی مسلمان دوشیزائیں کانٹوں کے بستر پر لوٹتی ہوں گی۔
میرے پاس الفاظ نہیں کہ وحشت و بربریت کی یہ داستان صفحہ قرطاس پر رقم
کرسکوں۔
صرف چند حوالے سن لیجئے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جس میں برطانوی رکن پارلیمنٹ لارڈ نذیر احمد کے
حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس خاتون کو جیل کے عملے کی جانب سے مسلسل جنسی
زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور قیدی نمبر 650 کے نام سے مشہور ہے۔
2005ء میں بگرام جیل سے فرار ہونے والے چار قیدیوں نے ایک ٹیلی ویژن چینل
کو بتایا تھا کہ ہم اکثر کسی عورت کی اندوہناک چیخیں سنتے تھے لیکن ہم نے
اسے کبھی نہیں دیکھا۔
ایشیائی ہیومن رائٹس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ایک برطانوی صحافی ریڈلی کا
حوالہ بھی دیا گیا ہے جس نے اس خاتون کو ’’جیل میں قید ایک بھوت‘‘ سے تشبیہ
دی ہے جس کی کوئی شناخت نہیں لیکن اس کی چیخیں ان لوگوں کا پیچھا کرتی رہتی
ہیں جو انہیں ایک بار سننے کا تجربہ کرچکے ہیں۔
رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بے پناہ اذیتوں کے باعث خاتون ذہنی توازن
کھو چکی ہے اور بیشتر وقت چیخ و پکار کرتی رہتی ہے۔ اس عورت کو مسلسل ذہنی‘
روحانی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
کہاں ہیں ثناء خوان تقدیس مشرق
اے اقوام مغرب! اے انسانیت کے لٹیرو!
اے تہذیب و تمدن کے بھنبھور ڈالنے والے وحشی درندوں!
کب تک خدا کی سرزمین کو اپنے حیوانی غرور سے ناپاک رکھو گے؟
کب تک انصاف ظلم سے اور روشنی تاریکی سے مغلوب رہے گی؟
ہمارے اسلام کی روشن تہذیب دیکھو!
اپنے اور اپنے صلیبی مذہب کی وحشت و بربریت کی جاگتی آنکھوں سے مشاہدہ کرو
تمہیں تو تہذیب چھو کر بھی نہیں گزری ہے۔ تمہیں اپنے باپ کے نام تک معلوم
نہیں تم کو تہذیب کی پہچان ہو بھی تو کیسے۔۔۔ خاندان کسے کہتے ہیں۔۔۔
انسانیت کیا ہوتی ہے۔۔۔ تمہارے ہاں تو شادی بعد میں اور بچوں کی پیدائش
پہلے عمل میں آتی ہے۔۔۔ یہ ہے تمہاری ننگی تہذیب۔
تم اور تمہارے اتحادی بھیڑیوں کی اسلام اور فرزندان اسلام کو مٹانے کی
خواہش اب خفیہ نہیں رہی بلکہ طشت از بام ہوچکی ہے۔ خواہ تہذیبی اور ثقافتی
ہو یا اقتصادی و معاشی اور چاہے عراق اور افغانستان پر بمباری کر کے۔ یہ
تمہاری اس پرانی اور جھوٹی مسیحی وصیت کی تبلیغ و تکمیل ہے جس کو سینٹ لوقا
نے مسیح کے حوالے سے سنایا تھا کہ: میرے وہ دشمن جو نہیں چاہتے کہ میں ان
پر حکمرانی کروں ان کو یہاں لاؤ اور میرے قدموں کے آگے ذبح کردو۔
(انجیل لوقا باب ۱۹ آیت ۲۷)
یہ ہے تمہاری ننگی قوموں کے قدرتی قوانین کا احترام‘ انسانیت کا احترام‘
خواتین کا احترام‘ یہ تم نہ پہلے جانتے تھے اور نہ آج جانتے ہو۔
اپنی امداد پر حقوق نسواں کی تنظیم کو پالنے والوں نادان عورتوں کو اسلام
کے خلاف استعمال کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ عورت کے حقوق کیا ہوتے ہیں
انہیں تو تمہاری تاریخ بیان بھی نہیں کرسکتی۔
ہاں اگر تمہارے ہاں کوئی شے قابل توجہ ہے تو صرف یہ ہے کہ مغرب کی صلیبی
حکومتیں ایک دوسرے پر بازی نہ لے جائیں جسم اسلام اور فرزندان اسلام کی اس
طرح بوٹیاں نوچی جائیں کہ ہر بھیڑیئے کے منہ میں مساوی تقسیم کے ساتھ ایک
ایک لقمہ آجائے۔
اے عافیہ اور فاطمہ پر سراپا ماتم آنکھوں!
میں وہ صور کہاں سے لاؤں جس کی آواز ملت اسلامیہ کو بیدار کردے۔۔۔ میں اپنے
ہاتھوں میں وہ قوت کیسے پیدا کروں جن کی سینہ کوبی سے خواب غفلت میں ڈوبے
ہوئے ہوشیار ہوجائیں۔۔۔
آہ! آج کہاں ہیں وہ آنکھیں جو درد ملت میں خون بہاتی ہیں وہ دل جو آج زوال
ملت پر ماتم کناں ہیں۔۔۔ کہاں ہیں وہ جگر جو آتش غیرت و حمیت کی آگ میں جل
رہے ہیں۔۔۔ اور پھر کہاں ہیں اس برباد شدہ قافلہ کے ماتم گسار اور اس کشتی
طوفان کے مایوس مسافر جس کی موت و حیات کے آخری لمحے جلدی جلدی گزر رہے ہیں
اور وہ بے خبر ہیں یا خاموش۔۔۔ روتے ہیں یا مایوسی سے چپ عافیہ کی چیخیں۔۔۔
وطن عزیز کے دن بدن بگڑتی ہوئی صورتحال خودکش دھماکوں کی گونج اپنے ہی خون
میں نہا رہے ہیں یہ کون سا جہاد ہو رہا ہے یا پھر ان خودکش دھماکوں میں
صلیبوں کا ہی کوئی ہاتھ ہے۔
حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں مگر نہ ان کے ہاتھوں میں اضطراب ہے
اور نہ پاؤں میں حرکت نہ ہمتوں میں اقدام ہے اور نہ ارادوں میں عمل اور اہل
شہر رونے میں مصروف ہیں۔
عزیزان گرامی!
جب کسی کے گھر میں آگ لگتی ہے تو محلہ کے سبھی لوگ پانی کے لئے دوڑتے ہیں
لیکن اے رونے کو ہمت اور مایوسی کو زندگی سمجھنے والوں! یہ کیا ہے ہمارے
گھر میں آگ لگ چکی ہے ہوا تیز ہے اور شعلوں کی بھڑک سخت مگر ہم میں سے کوئی
نہیں جس کے ہاتھ میں پانی ہو۔
پھر اگر اسی وقت کے منتظر تھے تو کیا نہیں سنتے کہ وہ وقت آگیا ہے؟
اگر ہم کشتی ڈوبنے کا انتظار کررہے ہیں تو یقین جانیے اب اس میں دیر نہیں۔
ملت اسلامیہ پر تڑپتے ہوئے اشکبار لوگوں!
یہ عافیہ کون تھی ان ظالموں کے ہاتھ کیسے لگی؟
ان ظالموں کا ساتھ کس نے دیا؟
اگر یہ سب حکومت کی ناک کے نیچے ہوا تو وہ کون لوگ تھے جو ملت کی بیٹیوں کے
دلال ہیں؟
بازاری دلال بھی اس گالی کو برداشت نہیں کرتے وہ بھی کہتے ہیں کہ ہاں ہم
ضرور اس گھناؤنے پیشے سے وابستہ ہیں مگر خدارا ہم کو یہ گالی مت دو۔ ہم بھی
اپنی بیٹی اور بہن کے دلال نہیں ہوتے ان کو بازاروں میں نہیں لاتے۔
تو سنو یہ حقیقت!
ڈاکٹر عافیہ امریکی تحقیقاتی اداروں کو مطلوب ہیں۔ ان پر القاعدہ کا رکن
ہونے اور امریکہ پر دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام ہے۔
اس کو امریکہ کے غنڈے یہاں گرفتار کرنے نہیں آئے تھے۔ ڈاکٹر عافیہ کو تو
یہاں کے محافظوں نے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ یہ وہ محافظ تھے جنہیں
پوری قوم اپنا پیٹ کاٹ کر ٹیکسوں سے پالتی ہے تاکہ یہ ہماری حفاظت کریں مگر
یہ تو ڈالر کے ایسے بھوکے ہیں کہ خود اپنی کتاب کے انگریزی ایڈیشن میں
لکھتے ہیں کہ ہم نے کئی لوگوں کو امریکہ کے حوالے کر کے اس کے عوض ڈالر لئے
ہیں۔
میں اپنے قلم کا ساتھ دینے سے عاجز آگیا۔ ان بکھرے اور منتشر جملوں کا کہاں
اختتام کروں۔ عرفان صدیقی کے ان الفاظ پر ہی اپنے مضمون کا اختتام کرتا
ہوں۔
’’قیدی نمبر 650 عافیہ ہی ہے تو یہ بھی اچھا ہوا کہ وہ ذہنی توازن کھو
بیٹھی۔ ورنہ وہ ابوغریب والی فاطمہ کی طرح ہمیں خط لکھ بھیجتی تو ہم کیا
کرتے؟ اسے کیسے سمجھاتے کہ بیٹی! ہم تو خود ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے دست وبازو
ہیں؟ اسے کیونکر بتاتے کہ ہم نے خود‘ ماؤں کے لخت جگر کئی کئی سالوں سے
غائب کر رکھے ہیں؟ اسے کیسے بتاتے کہ ہم نے تو ڈالروں کے عوض بردہ فروشی کی
ہے اور گوانتاناموبے کا چڑیا گھر بسایا ہے؟ اسے کس طرح سمجھاتے کہ جس دیو
کے خلاف وہ ہماری مدد چاہتی ہے ہم تو خود اس کے غلام ہیں؟ اسے کیونکر باور
کراتے کہ ہمارے وزیراعظم کے دورہ امریکہ کی کامیابی کے لئے اس ایشو پر مٹی
ڈالنا وسیع تر قومی مفاد میں ہے؟ اسے کیونکر یقین دلاتے کہ ہم سوا ارب راکھ
کا ڈھیر ہیں اور وہ کسی چنگاری کی آرزو میں اس راکھ کو نہ کریدے؟
بگرام جیل میں عافیہ کی موجودگی کی خبر دینے والی برطانوی صحافی ریڈلی بھی
ایک بار طالبان کی قید میں چلی گئی تھی۔ اپنی کتاب میں گیارہ روزہ قید کی
روداد لکھتے ہوئے وہ بتاتی ہے کہ ’’طالبان اسے بہن سمجھتے تھے‘ اسے پہلے
کھانا کھلانے کے بعد خود کھاتے تھے۔ ان کی خواتین اس کے کپڑے دھوتی تھیں‘‘
ریڈلی طالبان کے سلوک سے متاثر ہوکر مسلمان ہوچکی ہے۔ امریکیوں کی قید میں
پڑی عافیہ اور طالبان کی قیدی بننے والی ریڈلی کی کہانیاں بتا رہی ہیں کہ
دراصل دہشت گرد‘ اجڈ گنوار‘ بے دھپ‘ انتہا پسند‘ خونخوار اور آدم خور کون
ہیں۔اگر عافیہ واقعی ذہنی توازن کھو چکی ہے تو ہم سوا کروڑ پاکستانیوں کو
کوئی خطرہ نہیں۔ اسے کچھ یاد نہیں ہوگا۔ وہ محمد بن قاسم والی کہانی بھی
بھول چکی ہوگی لیکن عافیہ کا شجرہ نسب تو محمد عربیﷺ کے رفیق خاص سیدنا
ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے جاملتا ہے۔ اگر روز محشر اس نے نبی کریمﷺ اور
صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے روبرو ہماری شکایت کردی تو ہمارا کیا بنے گا؟" |