پاکستان انڈیا کو شکست دے پائے گا؟ اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

کرکٹ ورلڈ کپ 2019 کے اہم میچ میں روایتی حریف انڈیا اور پاکستان اتوار کے روز اولڈ ٹریفرڈ کے میدان میں آمنے سامنے ہوں گے۔ انڈیا اور پاکستان کے مابین ورلڈ کپ مقابلوں میں اب تک انڈیا ناقابلِ شکست رہا ہے۔

image


دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے ایک روزہ میچوں کے اعداد وشمار ایک دلچسپ کہانی بتاتے ہیں جو پچھلی ایک دہائی سے مشکلات میں گھری پاکستان کرکٹ کی روداد بھی ہے۔ لیکن دونوں ٹیموں میں ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو اپنے ہی بل بوتے پر میچ کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔

تو دیکھتے ہیں کہ اگر بابر اعظم ’پاکستان کے وراٹ کوہلی‘ ہیں تو انڈیا کا محمد عامر کون بنے گا؟

انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ کون جیتے گا؟
اب تک ورلڈ کپ مقابلوں میں یہ دونوں ٹیمیں چھ مرتبہ آمنے سامنے آئیں ہیں لیکن پاکستان اب تک ان میں سے کوئی میچ نہیں جیت پایا۔

دونوں ٹیموں کے درمیان اب تک کھیلے گئے 131 میچوں میں پاکستان نے 73 جبکہ انڈیا نے 54 میچوں میں فتح حاصل کی ہے جبکہ چار میچ بےنتیجہ رہے۔

ان میچوں میں ہدف کا تعاقب کرتے پاکستان کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے چھ میں سے پانچ ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان نے چھ میں سے پانچ میچ ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے ہارے ہیں۔

ورلڈ کپ مقابلوں میں آج تک پاکستان کا انڈیا کے خلاف سب سے زیادہ مجموعی سکور 273 رہا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان اولڈ ٹریفرڈ میں اس سے پہلے ایک ہی میچ کھیلا گیا ہے اور اتفاق سے یہ سنہ 1999 کے کرکٹ ورلڈ کپ کا وہ میچ تھا جس میں انڈیا نے پاکستان کو 47 رنز سے شکست دی تھی۔
 

image


انڈیا کی اوپننگ شراکت کمزور
انڈیا کی بیٹنگ میں اکلوتا نقص مایہ ناز اوپننگ بلے باز شکھر دھون کا انگلی پر چوٹ کے باعث ٹیم سے باہر ہونا ہے۔ شکھر دھون اور روہت شرما کی جوڑی گذشتہ کئی سالوں سے بھارت کی فتوحات کا ایک اہم جز رہی ہے۔

اب جبکہ شکھر دھون نہیں ہیں تو ان کی جگہ لوکیش راہل سے اننگز اوپن کرانے کا امکان ہے۔

یہ راہل کا پاکستان کے خلاف پہلا ایک روزہ میچ ہو گا اور انھوں نے روہت شرما کے ساتھ بھی کبھی اننگز کا آغاز نہیں کیا۔ راہل ویسے تو ایک سٹائلش بلے باز ہیں لیکن ان کی ناتجربہ کاری اور متعدد مرتبہ بولڈ اور ایل بی ڈبلیو ہونا انڈیا کے لیے آغاز میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

دوسری طرف روہت شرما کے کندھوں پر انڈیا کو اچھا آغاز دینے کی بھاری زمہ داری ہے۔

شارٹ پچ گیندوں کو عمدگی سے کھیلنے والے روہت کو اپنی پہلی 20 گیندوں میں آگے پڑتی ہوئی گیندوں کے خلاف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ انھیں بائیں ہاتھ کے تیز گیند بازوں کے خلاف بھی خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
 

image


فخر اور امام کو محتاط آغاز کی ضرورت
پاکستان کی طرف سے فخر زمان اور امام الحق کے درمیان اب تک پانچ نصف سنچری جبکہ چار سنچری شراکتیں ہو چکی ہیں۔ لیکن حالیہ میچوں میں فخر کو جلدی آؤٹ کرنے کی یہ ترکیب سامنے آئی ہے کہ انھیں آف سٹمپ کے باہر گیند کرائی جائے۔ آسٹریلیا کے خلاف میچ میں بھی وہ ایسے ہی آؤٹ ہوئے تھے۔

جبکہ دوسری طرف امام الحق نے لیگ سٹمپ کے باہر کی گئی شارٹ پچ گیندوں پر آؤٹ ہونے کی عادت ڈال لی ہے۔ وہ اس ورلڈ کپ میں دو مرتبہ اس انداز میں آؤٹ ہو چکے ہیں۔

امام کو پچھلے میچ کے بعد اپنے سست کھیل پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ایک محتاط آغاز ہی پاکستان کے لیے ایک بڑے ہدف کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
 

image


وراٹ کوہلی بمقابلہ بابر اعظم
پاکستانی ٹیم میں حالیہ سالوں میں جب بھی کوئی اچھا بلے باز سامنے آیا ہے تو اس کا موازنہ وراٹ کوہلی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ گذشتہ ماہ آسٹریلیا کے سابق کپتان مائیکل کلارک نے پاکستان کے ابھرتے ہوئے بابر اعظم 'پاکستان کے وراٹ کوہلی' کا لقب دیا تھا۔

اگر دونوں کھلاڑیوں کے کریئرز پر نظر دوڑائی جائے تو 24 سالہ بابر نے اب تک 67 میچوں میں 50 اعشاریہ 9 کی اوسط سے اب تک 2854 رنز بنائے ہیں۔ ان کے مقابلے میں کوہلی نے اتنے ہی میچوں میں 45 کی اوسط سے 2531 رنز بنائے تھے۔

لیکن آج کوہلی نے 59 رنز کی اوسط سے 10943 رنز بنا لیے ہیں اور دنیا کے عظیم بلے بازوں میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ بابر کو اس سلسلہ میں ابھی مزید منزلیں طے کرنی ہے۔

کوہلی انگلینڈ میں عام طور آف سٹمپ کے باہر پڑی گیندوں کو کھیلنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ اس لیے آتے ہی کوہلی کے خلاف تیز گیند بازوں سے بولنگ کرانا ضروری ہے اس کے علاوہ ان کے خلاف لیگ سپنرز سے بولنگ کرانا بھی آزمودہ ہو سکتا ہے۔

کچھ بھی لیکن جب یہ دونوں بیٹنگ کرتے ہیں تو لگتا ہے شاعری ہو رہی ہے، اگر اتوار کو ان دونوں نے اپنی بلے بازی کے گر دکھائے تو یہ کرکٹ کا میچ کم اور مشاعرہ زیادہ لگے گا۔
 

image


شاداب یا چہل، بہتر سپنر کون؟
شاداب خان اور یوزویندرا چہل اس وقت دنیا کے بہترین لیگ سپنرز کی فہرست میں شامل ہیں۔ اعداد و شمار کے حساب سے چہل شاداب سے بہتر سپنر ہیں جس کا مظاہرہ انھوں نے اب تک ہونے والے ورلڈ کپ مقابلوں میں کیا ہے۔

شاداب نے 36 ایک روزہ میچوں میں اب تک 49 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ہے جبکہ چہل 43 میچوں میں 73 شکار کر چکے ہیں۔

چہل کی جنوبی افریقہ کے خلاف چار وکٹوں نے ان کی بیٹنگ کی کمر توڑی تھی جبکہ شاداب نے انگلینڈ کے خلاف رائے اور روٹ کی اہم وکٹیں لے کر پاکستان کی فتح یقینی بنائی تھی۔

درمیان کے اوورز میں ان دونوں کی بولنگ انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی، کیونکہ روایتی طور پر دونوں ٹیمیں اننگز کا محتاط آغاز کرتی ہیں۔ اس پسِ منظر میں شاداب کا کردار اس لیے بھی اہم ہو گا کیونکہ کوہلی اور روہت لیگ سپنرز کو اچھا نہیں کھیلتے۔
 

image

پیس یا سوئنگ؟
دہائیوں بعد انڈیا کی ٹیم میں کوئی ایسا بولر آیا ہے جس سے بلے باز صحیح معنوں میں ڈرتے دکھائی دیے ہیں۔ جسپریت بمرا نے اپنے کریئر کا آغاز تو ٹوئنٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے کیا لیکن وہ دیکھتے ہی دیکھتے تینوں فارمیٹس میں چھا گئے۔

نہ صرف ان کی گیند کی رفتار بہت تیز ہے، بلکہ ان کی لائن اور لینتھ بلے بازوں کو ہلنے کا موقع نہیں دیتی۔ ان کا اس ٹورنامنٹ میں جنوبی افریقہ کے خلاف سپیل برسوں یاد رکھا جائے گا جس میں انھوں نے کوئنٹن ڈی کاک اور ہاشم آملہ جیسے کھلاڑیوں کو پویلین لوٹایا۔

بمرا کے لیے چمپیئنز ٹرافی فائنل میں فخر زمان کے خلاف کی جانے والی نو بال کا بدلہ چکانے کا یہ ایک سنہری موقع ہے، البتہ اس مرتبہ بمرا کے خلاف فخر کا جارحانہ انداز شاید کم ہی دیکھنے کو ملے گا۔
 
image

دوسری جانب محمد عامر ہیں جو اس وقت ٹورنامنٹ میں 10 وکٹوں کے ساتھ سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر ہیں۔ عامر کے لیے انگلینڈ میں کھیلنا جذباتی اہمیت بھی رکھتا ہے اور وہاں کی کنڈیشنز بھی ان کی بولنگ کے لیے سازگار ثابت ہوتی ہیں۔

عامر کے نصیب میں آخر وہ وکٹیں آ ہی گئیں جن کا پاکستانی شائقین کو پچھلے دو برسوں سے انتظار تھا۔ عامر پاکستان کے لیے اس لیے بھی اہم ہیں کیوں وہ اس سے پہلے بھی انڈیا کی اس مضبوط بیٹنگ کو پچھاڑ چکے ہیں۔ خاص طور پر وراٹ کوہلی اور روہت شرما کو جلدی آؤٹ کرنا بہت اہم ہو گا۔

اعداد و شمار بہت کچھ بتاتے ہیں جیسے یہ کہ پچھلی دہائی میں دونوں ٹیموں کے درمیان ہونے والے 18 مقابلوں میں پاکستان صرف سات میں ہی فتح حاصل ہو پائی تھی اور یہ بھی کہ ہم ہدف کے تعاقب میں اکثر چوک جاتے ہیں۔

اعداد وشمار جو بھی کہیں لیکن اگر پاکستان نےاپنی پل میں تولہ پل میں ماشہ کی روایت قائم رکھی تو وہ انگلینڈ کی طرح ٹورنامنٹ کی دوسری مضبوط ترین ٹیم کو بھی ہرا سکتے ہیں حالانکہ ایسا سنہ 1992 کے ورلڈ کپ میں کیا کسی بھی ورلڈکپ میں نہیں ہوا۔

Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: