صبح سے عید کی چھٹیاں تھی۔ یہ سوچ کر کہ یونیورسٹی نہیں
جانا،میں سونے کی بجائے اپنے کمپیوٹر پر بیٹھا کچھ کام کر رہا تھا۔ تقریباً
بارہ بجے آدھی رات کے وقت کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے سوچا،
شاید آج کسی نے مین گیٹ بند نہیں کیا جو کوئی اندر آ کر دروازے سے زور
آزمائی کر رہا ہے۔ اٹھا، دروازہ کھولا تو وہ نوجوان جو میرے گھر میں میرے
پاس پچھلے دس سال سے رہ رہا ہے ، کھڑا رو رہا تھا۔’’ میں مر رہا ہوں۔ شدید
درد ہے ، میرا کچھ کریں‘‘۔میں نے جلدی سے گاڑی کی چابی پکڑی اسے بٹھایا اور
جناح ہسپتال لے آیا۔دس سال پہلے جب میں یہ گھر بنا رہا تھا تو یہ اٹھارہ
انیس سال کا نوجوان مزدوری کرتا تھا ۔ راج اور مزدور آتے جاتے رہے مگر یہ
میرے پاس ہی رہا۔ چار پانچ سال پہلے اس کی شادی ہوئی تو بھی بمع بیگم واپس
میرے پاس ہی آیا۔ آج کل راج کا کام کرتا ہے اور میرے گھر میں ہی ایک طرف دو
کمروں میں اپنی بیوی اور بچی کے ساتھ رہ رہا ہے۔ مجھے فائدہ ہے کہ کہیں آنا
جانا ہو گھر میں ایک اعتباری شخص بلکہ خاندان ہر وقت موجود ہوتا ہے ا ور آج
کل جیسے حالات میں مجھے گھر سے اپنی غیر موجودگی میں گھر کی فکر نہیں ہوتی۔
پچھلے دس دن سے اس نوجوان کے پیٹ میں درد تھا۔ اس نے ارد گرد کے تما م حکیم،
وید، سنیاسی آزمائے۔ میں اسے کہتا رہا کہ کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤ مگر وہ بضد
تھا کہ جدید دوائیں اس پر بے اثر ہیں، اسے ہمیشہ آرام انہیں عطائیوں سے آتا
ہے۔ کچھ نامور پیروں فقیروں سے اس نے دم بھی کرایا مگر سب بے سود۔ میں نے
سمجھایا کہ بھائی جب شہر میں آ گئے ہو تو گاؤں کی جہالت کو وہیں چھوڑ آؤ ،
مگر وہ ماننے کو تیار نہ تھا۔ ویسے بھی عطائیوں کے پاس جانا گاؤں والوں کی
مجبوری ہے جوان کی عادت بن چکی ہے۔انہیں عطائی ہر محلے اور ہر گلی میں
آسانی سے مل جاتا ہے اور ڈاکٹر کو چراغ لے کر ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ہماری
حکومتیں آج تک ایسی پالیسی بنانے میں ناکام ہیں کہ ہمارے نوجوان ڈاکٹر
چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی کام کرنے لگیں۔ پسماندہ علاقے کے لئے ایک
خاص معقول الاؤنس اور کچھ دیگر سہولتیں۔ مگر یہ حکومت کی ترجیحات میں شامل
ہی نہیں۔
وہ نوجوان میرے سمجھانے پر مجبوری میں اپنی عادت کے خلاف قریب ہی ایک
پرائیویٹ ہسپتال گیا۔ انہوں نے درد کو دور کرنے کی کچھ دوائیاں دیں اور
بس۔ساتھ ہی ایک ٹیچنگ ہسپتال ہے، اگلے دن وہاں سپیشلٹ ڈاکٹر کو دکھایا، جس
نے معدہ خراب قرار دے کر دواؤں کا ایک نیا بنڈل تھما دیا مگر سارے علاج کے
باوجود درد ٹھیک نہیں ہو رہی تھی۔ آج آدھی رات کو انتہائی تکلیف کی حالت
میں وہ میرے ساتھ جناح ہسپتال پہنچا ۔ بغیر کچھ دئیے پرچی بنی اور اسے
ایمرجنسی میں بھیج دیا گیا۔ضرورت اور کام کے لحاظ سے بہت چھوٹی اور ناکافی
ایمرجنسی مگر ڈاکٹر اور نرسیں انتہائی مستعد۔ ایمرجنسی میں ہر بیڈ پر دو دو
مریض موجود۔ پہلا مرحلہ خالی بیڈحاصل کرنا تھا۔ایک ڈاکٹر سے جو شاید ہاؤس
جاب کر رہا تھا، میں نے یہ بتا کر کہ ایک استاد ہوں، کوئی خالی بستر مہیا
کرنے کا کہا کیونکہ بستر پر لیٹے بغیر وہ مریض نہیں دیکھتے۔ اس نے کچھ دیر
انتظار کا کہا اور ڈاکٹرز کی کرسیوں کا ساتھ پڑے بنچ پر وقتی طور پر مریض
کو بٹھا دیا۔
میں نے دیکھا ہے کہ ہسپتالوں میں حکمرانی کرنے والا اور لوگوں بد تمیزی
کرنے والا اصل طبقہ وہاں کے چھوٹے ملازمین ہوتے ہیں جن کو شاید کوئی پوچھ
نہیں سکتا۔چنانچہ حسب روایت ایمر جنسی کے گیٹ پر کھڑا چوکیدار وارڈ کے اندر
آیا اوربنچ پر بیٹھے مریض کو وہاں سے فوراً اٹھنے کا کہا۔میں نے مداخلت کی
اور کہا، ’’بیٹا یہ شدید تکلیف میں ہے کھڑانہیں ہو سکتا۔ کسی بھی بیڈ کے
خالی ہونے تک ڈاکٹر صاحب اسے یہاں بٹھا گئے ہیں‘‘۔جواب ملا، ڈاکٹر کون ہوتا
ہے ، یہ میرا اختیار ہے ۔ پھر زور سے مریض کو کہا اٹھو یہاں سے۔ مجھے بھی
غصہ آیا اور میں نے کہا کہ یہ یہاں سے نہیں اٹھے گا۔ وہ بدتمیزی پر اتر
آیا۔ اتنے میں ایک نرس اور دو صفائی والیاں مدد کو آ گئیں اور انہوں نے اسے
زبر دستی لڑ جھگڑ کر باہر گیٹ پر بھیجا۔ لیکن وہ گارڈ کمال بد تمیز تھا۔
اسے پالنے اور برداشت کرنے والے اس کے افسران بھی لائق تحسین ہیں۔
کچھ دیر میں ایک بستر پر جگہ مل گئی اور علاج شروع ہو گیا۔ساری رات الٹرا
ساؤنڈ، ایکسرے اوربہت سے ٹیسٹ کرواتے گزر گئی ۔ سوائے ہیباٹیٹس کی کٹوں یا
کسی چھوٹی موٹی چیز کے تمام چیزیں ہسپتال نے بالکل فری مہیا کیں۔ پتہ چلا
اسے اپینڈکس تھا اور وہ پھٹ رہا تھا۔ قبل دوپہر دس بجے تک اس کا اپریشن ہو
گیا۔ اس دوران اس کا بھائی بھی گاؤں سے آ گیا۔ دوپہر تک اسے وارڈ میں منتقل
کر دیا گیا۔مجھے خوشی تھی کہ ہمارے سرکاری ہسپتال شاندار کارکردگی کے حامل
ہوتے جا رہے ہیں ۔جناح ہسپتال کی انتظامیہ اس پر مبارک باد کی مستحق ہے۔
البتہ عید کے دن وہاں برا حال تھا۔ اس دن جو محدود عملہ تھا انہوں نے پٹیاں
تک لوگوں سے بازار سے منگوائیں۔ اس نوجوان کے پیٹ میں ایک لمبی ٹیوب ڈالی
گئی تھی جسے عید کی صبح نکال دینا چائیے تھا۔ اسے نکالنے کوئی نہ آیا تھا
جس وجہ سے وہ شدید تکلیف میں تھا۔۔ شام کو میں گیا تو صورت حال پتہ چلی۔
میں نے موقع پر موجود سٹاف نرس سے بات کی ۔ اس نے ٹرخادیا کہ اتنی بڑی وارڈ
اور ایک آدھ بندہ کیا کر سکتا ہے۔ سٹور بھی بند ہیں اس لئے چیزیں بازار سے
منگوانا پڑتی ہیں۔ میرے یہ کہنے پر کہ کوئی بات نہیں کل کوئی سینئر آئے گا
تو اس سے بات کروں گا۔وہ تیزی سے ایک طرف گئی ۔ چند لمحوں ایک ڈاکٹر کے
ہمراہ آئی۔ ڈاکٹر نے وہ ٹیوب نکال دی۔ نرس کے پاس اب پٹی بھی تھی جو اس نے
کی ۔نوجوان ہشاش بشاش ہو گیا۔ ان چھوٹی موٹی باتوں کے باوجود اس سرکاری
ہسپتال میں علاج کی پرائیویٹ ہسپتالوں کی نسبت بہت بہتر سہولیات ہیں جن سے
عوام فائدہ اٹھا رہے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ تھوڑی مزید محنت سے سرکاری ہسپتال
لوگوں کی توجہ کا بہترین مرکز بن سکتے ہیں۔
ایک چھوٹی سی خبر تھی ۔ ٓارمی چیف جنرل باجوہ نے عید کا دن اگلے مورچوں پر
اپنے جوانوں کے ساتھ گزارا۔یہ بھی ایک قربانی ہے۔ کس کا جی نہیں چاہتا کہ
عید اپنے خاندان اور بچوں کے ساتھ گزارے۔ مگر فوجی لوگ جی پر جبر کرتے ہیں۔
ہر چیز پر دیوٹی کو ترجیح دیتے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ ہسپتال میں عید کے روز بے
سروسامانی کا سبب ہمارے سیاستدانوں کی غفلت ہے ۔ ان کو احساس ہی نہیں ان کے
اگلے مورچے ایسے ادارے ہیں۔وہ عید کا دن بھر پور انداز میں دنیا اور مافیا
سے بے خبر اپنے خاندان کے ساتھ گزارتے ہیں۔ گھر میں وہ سارا دن اس آس پر
ہوتے ہیں کہ عید پر لوگ بڑے بڑے تحفے ، عید کیک اور مٹھایاں لے کر ان کے در
دولت پر حاضری د یں۔ وہ اگر اپنے اگلے مورچوں کا چکر لگا لیں، کسی ایک آھ
ہسپتال یا ایسے ہی کسی ادارے کو دیکھ لیں، تو نا اہل کیسے کہلائیں۔ سیاست
خدمت خلق ہے مگر افسوس ہماری سیاسی بساط کے سب مہرے اس فن سے نا آشنا ہیں۔
سیاسی بت پرستوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ فوج کے خلاف بولتا ہے، گالیاں دیتا
ہے کہ فوج ہر جگہ مداخلت کرتی ہے۔ سیدھی سی بات ہے جب آپ کے سول ادارے
ناکام ہوتے ہیں تو آپ خود فوج کی مدد کے محتاج ہوتے ہو۔ کوئی ابتلا آئی فوج
بلا لی۔ سیلاب آیا ، لوگوں کو بچانے فوج کو پکار لیا۔ زلزلہ آیا۔ بحالی
ہمارے بس میں نہیں فوج بلا لی ۔دہشت گردی حد سے بڑھ گئی، بچنے کو فوج بلا
لی۔امن و امان کی صورت خراب ہوئی فوج کو یاد کر لیا۔سیدھی سی بات ہے کہ
جہاں ہمارے سول ادارے ناکام ہوتے ہیں فوج مدد کو آتی ہے۔ سول ادارے اگر
ٹھیک کام کریں تو فوج کو کیا تکلیف ہے کہ خوامخواہ مداخلت کرے۔ایک بات ہم
کو سمجھ لینی ہو گی کہ کسی بھی ملک ،جو ہماری طرح اندرونی اور بیرونی
دشمنوں میں گھرا ہو، کی بقا اس کی باہمت فوج کی مرہون منت ہوتی ہے۔ فوج اس
کی سلامتی کی ضامن ہوتی ہے۔ باقی ہمارے سیاست دان ، ایک سے بڑھ کر ایک
گورباچوف کی نسل سے ہے۔ یہ لوگ نا اہل ہیں، کرپٹ ہیں، خود غرض ہیں۔کوئی
سیاسی شخص اس ملک کی سلامتی کا ضامن نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہر چیز ان پر
چھوڑی جا سکتی ہے۔آج ملک کی جو حالت ہے یہ سب ان نا اہل اور کرپٹ
سیاستدانوں کا ہی کیا دھرہ ہے مگر اس قوم کو سمجھ نہیں آتی۔
|