آج اس ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پانی کی فراہمی پر
نظر ڈالی جائے تو یہاں پانی کی قلت کی صورتحال پاکستان میں سب سے زیادہ
خطرناک شکل اختیارکرچکی ہے ،کراچی کے باسی سمندر کے قریب رہنے کے
باوجودپانی کو ترس رہے ہیں،یعنی دیگر آبادیوں کے علاوہ جزیروں کے اوپر جیسا
کہ منوڑہ ، بابا آئرلینڈ یہاں پانی کی قلت کا انداز ہی نہیں ہے کہ عوام کس
طرح سے بوند بوند پانی کو ترس رہی ہے ، صاف پانی کے پلانٹ جو سندھ حکومت نے
لگائے ہیں وہ کئی عرصے سے چل نہیں رہے ہیں ، صالح آباد ، کیماڑی میں بھی
پلانٹ لگے ہوئے ہیں لیکن وہ چل نہیں رہے جبکہ حکومت ایسا بھی کرسکتی ہے کہ
وہ اگر ان پلانٹس کو چلا نہیں سکتی تو اسے کسی پرائیویٹ ادارے کے حوالے ہی
کر دیا جائے؟۔ کیونکہ ان پلانٹس پر کروڑوں روپے کی لاگت لگی ہوئی مگر یہ
ایک طویل عرصے سے بند پڑے ہیں، دوسری جانب کے فور کا جو پروجیکٹ ہے وہ بھی
بلکل بند پڑا ہوا ہے اس پر بھی اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں،یعنی بات سندھ
حکمرانوں کی عدم توجہی اور غیر سنجیدہ رویوں کی جانب چل نکلتی ہے ،جس کے
باعث شہرقائد میں صرف متوسقط طبقوں میں ہی نہیں بلکہ پانی کی شدید قلت باقی
علاقوں میں بھی اتنی ہی ہے جتنی کے کسی غریب بستی میں ہوسکتی ہے فرق اتناہے
کہ ایک امیر آدمی ساری عمر بھی پانی کو خرید کر زندگی گرارسکتاہے اور غریب
لوگ اسی طرح پانی کے خالی ڈبے لیے سڑکوں پرگھومتے رہیں گے ،کیونکہ زندہ
رہنے کے لیے پانی کی ضرورت ہے اور جب یہ ہی پانی سونے اور چاندی کے بھاؤ
بکے گا تو بھلا یہ ہی آدمی پھر کیسے زندہ رہ سکتاہے،سندھ حکومت نے پانی کا
اگر کوئی منصوبہ لگایابھی ہے تو اس میں اربوں اور کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں
جس میں من پسند ٹھیکوں کو لیکر اپنے قریبی لوگوں کو تو خوش کردیا جاتاہے
مگر جس مقصد کے لیے وہ منصوبہ بنایا ہوتاہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا جن
پلانٹس کی میں بات کررہاہوں وہ تو الگ ہیں جبکہ پورے سندھ میں سینکڑوں ایسے
منصوبے ہیں جن کی لاگت اربوں روپے مالیت کی ہے مگر ان منصوبوں کو زنگ لگ
چکاہے یعنی وہ نہ صرف بند پڑیں ہیں بلکہ حکومت کو بھی اس بات کی کوئی پرواہ
نہیں ہے جبکہ اس تحریر میں صاحب اقتدارلوگوں کے لیے چند مفید تجاویز بھی
ہیں جس پر عملدرآمد سے ہم اس مشکل سے نکل سکتے ہیں،شہر میں پانی کی کمی کو
پورا کرنے کے لیے سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ دستیاب پانی کی منصفانہ تقسیم
کرے ، پہلے تو یہ کہ اگر ہم اس وقت ڈی سیلینیشن پلانٹ لگا لیں تو اس کی جو
کاسٹ نکلتی ہے وہ ساٹھ پیسے سے ستر پیسے فی گیلن نکلتی ہے، اس کے علاوہ
شہروں میں اپارٹمنٹ میں پانی کے کنکشن کے میٹر لگانا ضروری ہیں کیونکہ کوئی
ایک بالٹی استعمال کرتا ہے نہانے کے لیئے جبکہ کوئی سو بالٹیوں سے گاڑیاں
دھو رہا ہے اس لیے میرے خیال سے ہر ایک کے لیئے الگ الگ میٹر ہونا چاہئے
تاکہ پانی کے بے جا اصراف سے بچا جاسکے جبکہ جو لوگ ٹینکروں سے پانی ڈلواتے
ہیں ان کو فی گیلن ایک روپے سے دو روپے فی گیلن پڑتا ہے اور اگر ان کو میٹر
لگا کر حکومتی سطح پر پانی کی فراہمی کو یقنی بنایا جائے تو یہی پانی ان کو
ساٹھ سے ستر پیسے فی گیلن ملے،جس سے حکومت کو بھی ریونیو ملے گا اور جو
جتنا استعما ل کریں گے اتنا ہی ان کا بل آئے گا، دوسری چیز یہ ہے کہ
انڈسٹریل ایریاز میں ہلکی کوالٹی کا پانی میٹر کے حساب سے دیا جائے تو
انڈسٹریز کی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی کیونکہ انڈسٹریل ایریاز میں میٹر
نہیں ہیں اور اگر ہیں تو وہ خراب پڑیں ہیں جس سے کروڑوں روپے کا پانی
روزانہ کی بنیادپر چوری ہو رہا ہے، جزیروں کے لوگ جو کہ سمندر کے ساحل پر
رہتے ہیں ان کے پاس تو پینے کا پانی بھی نہیں ہے ،ڈرم اور بالٹیاں بھر بھر
لے کے آتے ہیں جس سے پورادن گزانے کی کوشش کرتے ہیں اور صبح سویرے کسی ایک
مقام پر لمبی لمبی لائنوں میں دھوپ میں کھڑے سڑ رہے ہوتے ہیں ، شہر قائد
میں ملیر ،لیاری ،کورنگی ،اورنگی ،ناظم آباد، ایف سی ایریا،گلستان
جوہر،کھارا در ،نیو کراچی،ماڈل کالونی ،سائٹ ایریا،بلدیہ ٹاؤن جیسے اور بھی
بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں پانی کے لیے خواتین اور بچوں کو آپ صبح سویرے
ہی لمبی لمبی لائنوں میں کھڑے دیکھیں گے یہ وہ لوگ ہیں جن کا جہاں گزراوقات
بہت مشکل سے ہوتاہے وہاں یہ لوگ پانی جیسی عظیم نعمت سے بھی بلکل ہی محروم
ہیں اور یہ تمام تر صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ،،حکومت کو ان لوگوں
پر بھی پر خاص توجہ دینی ہوگی جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ، کچھ سال پہلے
میئر کراچی ان کے لیے پانی لے کر گئے تھے اب وہاں پر پائپ لائن ڈلا ہوا ہے
مگر بات وہی ہے کہ اس پائپ لائن میں پانی موجود نہیں ہے۔ایک مشورہ یہ بھی
ہے کہ دبئی میں ایک کمپنی ہے جو مصنوعی بارش کرواتی ہے اور دبئی کے کئی
علاقوں میں مصنوعی بارش ہو رہی ہے اور انہوں نے پاکستان کو بھی آفر کی ہے
کہ وہ مصنوعی بارش کرنے کے لیے تیار ہیں، اس سے ہم اپنے ڈیم بھروا لیں جو
کہ بیس پیسے فی گیلن پڑے گااس پر سنا تو یہ ہے کہ اس معاملے میں مذاکرات چل
رہے ہیں دعا ہے کہ یہ مزاکرات کامیاب ہوجائیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق کراچی
شہر کو یومیہ بارہ سو ملین گیلن کی اشد ضرورت ہے جبکہ اس کو میسر ہونے والا
پانی پانچ سو پچاس ملین گیلن ہے اس شدید کمی کی وجہ سے کراچی اور سندھ بھر
میں جہاں گھریلوں اور صنعتی لوگوں کا جینا محال ہے وہاں کاشت کاری کے لیے
بھی سخت ازیت کا سامناہے،شہر کے لوگوں کے لیے پانی کی کمی کو پورا کرنے کے
لیے بورنگ کا سہارا تھا مگر اب وہ ناکام دکھائی دیتاہے بورنگ کے پانی کے
استعمال سے شہر بھر میں مختلف بیماریوں نے جنم لیا مگر لوگ مرتے کیا نہ
کرتے اس پانی کو نہانے اور پینے دونوں کے لیے ہی استعمال میں لانے کے لیے
مجبور رہے ہیں ،کیونکہ وہ مہنگے داموں ٹینکر مافیا کے ہاتھوں لٹ بھی نہیں
سکتے کیونکہ اس مقصد کے لیے بھی ان کی جیبوں میں ہزاروں روپے کا ہونا بہت
ضروری ہے ، اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ سندھ حکومت ان غریب لوگوں کی ان
تمام پریشانیوں کا بخوبی علم بھی رکھتی ہے فرق صرف نیتوں کا ہے کہ سب کچھ
ہوتے ہوئے بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔اس کے علاوہ اگر ہم پاکستان
بھر کی بات کریں تو کراچی سمیت پنجاب اور دیگر صوبوں میں بھی عوام کی حالت
کچھ مختلف نظر نہیں آتی،اور یہ ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ پاکستان بہت جلد
پانی کی ایک بڑی قلت کا شکار ہونے والا ہے کیونکہ گزشتہ حکومت نے سب کچھ
جانتے ہوئے بھی اس مسئلے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی ہے ،بھارت جگہ جگہ
ہمارے دریاؤں پر ڈیم بناتارہاہے مگر افسوس اس کی روک تھام کے لیے کسی بھی
قسم کی آواز کو نہ اٹھایا گیا،خیر یہ اس مسئلے پر کیا توجہ دیتے کیونکہ
پاکستان کا تو آبپاشی نیٹ ورک بھی وہ ہی ہے جو انگریز چھوڑ کر گئے تھے یہ
ہی وجہ ہے کہ بین الالقوامی ممالک کے مطابق پاکستان پانی کی قلت کے معاملے
میں ایسی مقام پر آلرکھڑ ا ہوچکاہے جس کا اگر کوئی فوری حل نہ نکالا
گیاتوآنے والے وقتوں میں پاکستان پانی کی قلت والے ممالک میں سرفہرست پر
آسکتاہے ۔ختم شد۔
|