آسماں ہو گا سحر کے نور سے آٸینہ پوش - قسط 5

ایسی لڑکی کی کہانی جو کشمیر کی آزادی کی خاطر اپنے لہو کی قربانی دے کر ہمیشہ کیلۓ امر ہو گٸ۔۔۔

کشمیر ہماری شہہ رگ ہے ۔۔ہم بن شہہ رگ کے زندہ ہیں۔۔

ویسے مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آٸ زینی ۔۔ مریم اپنی گردن کو داٸیں باٸیں ہلاتے ہوۓ زینی سے پوچھنے لگی۔۔۔ جب ہاسٹل کا فارم فل کر تے ہیں تو یہ آپ کی سہولیات اور عادات سے متعلق پوچھتے ہیں ۔۔۔اور آپ کی عادات کو مدِنظر رکھ کر ہاسٹل روم اور دیگر سہولیات مہیا کرتے ہیں۔۔۔؟
کیا تم نےاپنا فارم خود فل نہیں کیا تھا ۔۔۔؟ زینی مریم کی بات پر چونکی ۔۔۔اور کہنے لگی ۔۔نیہا نے ہی میرا اور اپنا فارم فل کیا تھا ۔۔۔فارم فل کرتے وقت وہ مجھے بھی ساتھ ساتھ بتا رہی تھی۔۔۔ چند سوالات جیسے آپ ڈرنک کرتے ہیں
اور بھی کٸ ایسے سوالات تھے جن کے جواب اس نے سیرٸس ہو کے نہیں دیۓ تھے ۔۔۔شاٸد اس وجہ سے ایسا ہوا ہے۔۔ اس نے ڈرنک ، بواۓفرینڈ اور اسموکنگ کے بارے پوچھے گۓ سوالات کا جواب غیر سنجیدہ انداز میں دیا تھا ۔۔۔تو ہاسٹل انتظا میہ مجھے دوسری قسم کی لڑکی سمجھی ہو گی۔۔۔۔ اس وجہ سے انہوں نے روم میٹ بھی لڑکے کو بنا دیا۔۔۔ زینی نے پریشان لہجے میں مریم کو بتایا۔۔۔
اوہ چلو اب تو ہو جو ہونا تھا ہو گیا ۔۔
اب داٶد کر وادے گا روم چینج تم پریشان نہ ہو۔۔۔مریم کے تسلی دینے پر زینی نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن وہ دونوں ١٠ بجے کے قریب یونی پہنچیں۔۔۔اپنی کلاسسز اور ٹاٸم ٹیبل کے بارے پتہ کیا ۔۔اور ہاسٹل واپس آگٸیں ۔۔۔ابھی کلاسسز شروع ہونے میں دو دن باقی تھے۔۔۔۔
کچھ دیر تک داٶد بھی آ گیا تھا۔۔۔اس نے کچھ فارم مریم کو پکڑاۓ ۔۔۔مریم اور زینی نے فارم فل کر کے دیۓ ۔۔۔۔فاٸنلی روم چینج ہو گیا ہے ۔۔۔۔زینی اب تم میرے ساتھ رہو گی ۔۔۔مریم ہنستے ہوۓ زینی کے گلے لگ گٸ۔۔۔۔
کچھ دیر تک داٶد بھی کافی پی کر رخصت ہو گیا۔۔۔ یاررر ایک تو یہ جو میرا کزن ہے نہ بے حد سڑیل مزاج ہے ۔۔۔مجھ سے کہنے کو تو چار سال بڑا ہے۔
لیکن مجھے تو لگتا ہے مجھ سے چالیس سال بڑا ہو۔۔۔ایسے رعب ڈالتا ہے کی بس۔۔۔اب اسے پتہ ہے نہ ہم دو دن فارغ ہیں ۔۔ایک دفعہ بھی انگلینڈ گھمانے کی آفر نہیں کی۔۔۔مریم آنکھوں کو گول گول گھماتے ہوۓ داٶد کے بارے بتا رہی تھی۔۔۔
زینی کو مریم کے انداز پہ ہنسی آٸ ۔۔۔وہ ریکس میں سے دو نیوکلیٸر فزکس کی بکس اٹھا کے لاٸ۔۔۔ایک مریم کو تھماٸ اور کہنے لگی ۔۔۔اب تم فارغ نہیں رہو گی ۔۔۔۔تمہارے لیۓ مصروفیت ڈھونڈ لی ہے مریم۔۔۔
مریم نے برا سا منہ بنا کے کتاب زینی کی طرف اچھالی اور کہا۔۔۔ایسی مصروفیت آپ ہی کو مبارک ہو زینی بی بی ۔۔۔۔اور بلینکٹ سر تک تان کر سو گٸ۔۔۔
زینی نے ہنستے ہوۓ کتاب کھولی اور پڑھنے لگی۔۔۔زینی کتاب میں محو تھی۔۔۔مریم نے اس کو آواز دی لیکن زینی اس قدر محو تھی کہ اسے مریم کی آواز سناٸ نہ دی۔۔مریم نے اٹھ کر زینی کا بازو ہلایا اور کہا۔۔۔۔اس قدر مگن ہو تم اتنی خشک کتاب میں پچھلے ٣ گھنٹے سے گھسی ہو۔۔۔۔افففف میں تو کورس بکس بھی بڑی مشکل سے پڑھتی ہوں ۔۔۔۔
مریم بیزار دکھاٸ دے رہی تھی۔۔۔۔ایک تو گھر سے دوری اوپر سے ماما بابا یاد آ رہے ۔۔۔۔دو دن اسی روم میں سڑتے رہے نہ میں فوت ہو جاٶں گی یار ۔۔۔۔مر یم روہانسی ہو گٸ۔۔۔یو لگتا تھا ابھی ر و پڑے گی۔۔۔
زینی نے بکس بند کی دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا کر اپنا چہرہ ا میں ٹکایا ۔۔۔۔اور محویت سے مریم کو دیکھنے لگی۔۔
کس قدر معصومیت اور بے نیازی تھی ۔۔۔بے فکری تھی ۔۔۔جو صرف بور ہونے اور ممی کی یاد آنے پر رونے والی ہو گٸ تھی ۔۔۔کیا فرق ہے ہم دونوں میں زینی باغی دل پھر بغاوت پر اتر آیا تھا ۔۔۔بہت فرق ہے زینی ۔۔۔وہ آزاد دنیا کی فرد ہے اور تم ایک غلام دنیا کی۔۔۔۔وہ اس لیۓ بے فکر اور آزاد ہے اور تم۔۔۔۔۔۔۔۔غلام غلام ۔۔۔۔۔۔غلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا دل چیخ رہا تھا ۔۔۔اس نے دل کی سنی کب تھی جو اب سنتی۔۔۔۔۔اس نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پہ رکھے اور بھاگتے ہوۓ روم سے باہر نکل گٸ۔۔۔۔
مریم جو اس کی حرکت پر دنگ کھڑی تھی ہوش آنے پہ زینی کے پیچھے بھاگی۔۔۔
زینی ہاسٹل کے سب سے آخری گراٶنڈ کی سیڑھیوں پہ گھٹنوں میں سر دیۓ بیٹھی تھی۔۔۔
مریم ڈھونڈتے ڈھونڈتے آخر کار زینی تک پہنچ گٸ۔۔۔۔
کیا ہوا زینی ۔۔۔سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔۔
زینی نے مریم کی آواز سن کر سر اوپر اٹھایا۔۔۔مریم نے زینی کا ہاتھ پکڑا تو وہ اسے برف کی طرح سرد محسوس ہوا ۔۔۔زینی کچھ پوچھ رہی ہوں بتاٶ یارر۔مریم اپنی بوریت بھول چکی تھی ۔۔۔اب زینی کیلۓ پریشان کھڑی تھی۔۔۔
مریم کو پریشان ہوتا دیکھ کر ۔۔۔زینی نے اپنی حالت پر قابو پایا۔۔۔۔اٹھ کر ایک بازو زینی کے گلے میں ڈال کر اسے کہنے لگی ۔۔۔کچھ نہیں مجھے بھی ماں اور بابا یاد آرہے ہیں ۔۔۔۔
پاگل کہیں کی مجھے ڈرا کے رکھ دیا تم نے کتنی دیر سے ڈھونڈ رہی ہوں تمہیں ۔۔۔ایسے بھی کوٸ ری ایکٹ کرتا ہے ۔۔۔۔ایک ہاتھ سے زینی کا کان کھنچتے ہوۓ مریم نے اس کی کلاس لے ڈالی۔۔
زینی زبردستی مسکراتے ہوۓ اسکے ساتھ روم کی طرف بڑھ گٸ۔۔۔
پھر کیا پروگرام ہے زینی چلیں آٶٹنگ پہ باہر۔۔؟
نوڈلز منہ میں میں ڈالتے ہوۓ مریم نے زینی سے پوچھا۔۔۔
آج تو کچھ طبیعت بھی ٹھیک نہیں کل چلیں گےاورمیں نے سنا تھا کہ کیمپس سے کچھ ہی فاصلے پر ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہے۔۔۔سوچ رہی پارٹ ٹاٸم جاب کر لوں ۔۔۔
آگے ریسرچ اور تھیسس ورک بھی آسان ہو جاۓ گا اور نیو کلیٸر فزکس کے بارے پریکٹیکلی بھی بہت کچھ سیکھ لوں گی۔۔۔
مریم اس کی بات پر پُر سوچ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ جاری ہے۔
 

Sara Rahman
About the Author: Sara Rahman Read More Articles by Sara Rahman: 19 Articles with 25781 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.