مشکل راستے قسط نمبر 63

جتنی شرمندگی کا احساس آج مجھے ہوا تھا ۔۔۔ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا ۔۔۔۔۔ چندہ پھو پھو کے ذکی کو ٹوکنے کی وجہ سے میں مزید اس کے چھبتے سوالوں سے بچ گئی تھی ۔۔۔۔ جس کا اطمینان تھا مجھے مگر میں اتنا جھوٹ بولنے پر خود سے بھی شرمندہ ہوگئی تھی ۔۔۔ اس سے پہلے میری زندگی میں جھوٹ کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی ۔۔۔۔ لیکن اب ایک سچ کو چھپانے کے لئے سو جھوٹ کا سہارا لینا پڑھ رہا تھا ۔۔۔۔ ذکی بظاہر خاموش ہوگیا تھا ۔۔۔۔ مگر اب بھی میں اس کی چھبتی نظروں کے حصار میں تھی ۔۔۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ میری ہر حرکت کو بڑے غور سے دیکھ رہا ہو ۔۔۔۔ کھانا سرو ہونے کے بعد کتنی مشکل سے کھایا تھا میں نے یہ میرا دل ہی جانتا تھا ۔۔۔۔۔ یا میرا اللہ ۔۔۔۔۔ خیر واپس گھر آنے کے بعد میں جب اوپر اپنے کمرے میں جانے لگی تبھی شاہدہ نے پیچھے سے پکارا تھا مجھے ۔۔۔۔۔

نائلہ باجی ۔۔۔۔۔ وہ جی خالہ بی آپ کو اپنے کمرے میں بلارہی ہیں ۔۔۔۔

ہممم ۔۔۔ اچھا ۔۔۔

میں اسے کہہ کر اپنے کمرے میں جانے کی بجائے خالہ بی کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔

آجاؤ نائلہ ۔۔۔۔۔

ان کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹانے پر ان کی نرم آواز اندر سے آئی تھی ۔۔۔۔میں اندر داخل ہوگئی ۔۔۔۔

اسلام علیکم خالہ بی ۔۔۔۔

وعلیکم اسلام ۔۔۔۔ دروازے پر کیوں کھڑی ہو اندر آجاؤ بیٹی ۔۔۔۔۔

وہ اپنی مخصوص چئیر پر بیٹھی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ قرآن مجید ان کی گود میں رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ شاید سورہ بقرہ کی طلاوت کر رہی تھیں ۔۔۔ میں ان کے قریب آکر ان کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔

کیسی رہی ہوٹلنگ ۔۔ کھانا کیسا لگا تمہیں ۔۔۔۔۔

اچھا تھا ۔۔۔۔۔

امید ہے کے تمہیں بور نہیں ہونے دیا گیا ہوگا ۔۔۔۔۔

جی ۔۔۔۔

میں ان کے پوچھنے پر اتنا ہی بول پائی ۔۔۔ اب انہیں کیا کہتی کہ ان کے نواسے کی وجہ سے میں کتنی کوفت میں رہی تمام وقت ۔۔۔۔

بیٹا مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں ۔۔۔۔ مگر وعدہ کرو تم صبر اور تحمل سے میری باتیں سنوگی ۔۔۔۔

میں نے چونک کر دیکھا تھا انہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے غور سے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔۔

جی آپ اطمینان رکھیں خالہ بی میں آپ کی کسی بات پر کسی قسم کا ری ایکٹ نہیں کرونگی ۔۔۔۔ کیا کوئی خاص بات کرنی ہے آپ کو مجھ سے ۔۔۔۔

ہاں ۔۔۔ بیٹا یہ بات میں تم سے نہیں کرنا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔ مگر مجھے لگتا ہے کے یہ بات تمہارے علم میں ہونی چاہئے ۔۔

جی کہئے ۔۔۔۔

بیٹا تمہارے جانے کے بعد تمہاری والدہ فاطمہ اور نانی صاحبہ حوریہ یہاں آئی تھیں ۔۔۔۔

میں جو سر جھکائے ان کے سامنے بیٹھی تھی ۔۔۔۔ ایک دم جھکا سر اُٹھا کر انہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔

×××××××××××××××××××

وقت اور حالات بہت تیزی سے بدل رہے تھے ۔۔۔۔ ان کی زندگی میں راحتیں کم حادثات کی بھرمار زیادہ ہوگئی تھی ۔۔۔ ایک طویل عرصہ دشمن کی قید میں گزارا تھا انہوں نے ۔۔۔۔ اس سے پہلے اپنوں کے دئے زخم دل پر سہے تھے ۔۔۔ اور جب سب ٹھیک ہونے چلا تھا تب اپنی سب سے محبوب ہستی کی جدائی کا درد سہنے کو ملا ۔۔۔۔ جمال جو ان کی اولین خواہش تھے ۔۔۔ جنہیں اللہ نے ان کی زندگی بنا دیا تھا ۔۔۔۔ ان کی موت ایک عظیم دھچکے سے کم نہ تھی ۔۔۔ وہ بیچاری کھل کر سوگ بھی نہ منا سکیں ۔۔۔۔ ان کے والد عمر اور دادا سردار یوسف اللہ کے دشمنوں سے کئی جنگیں کرچکے تھے ۔۔۔۔۔ ان کے قبیلے کے کئی جنات ان جنگوں میں شہادت نوش کرچکے تھے ۔۔۔۔ مگر جذبہ ایمانی کمزور نہیں پڑا تھا ۔۔۔۔ پورا قبیلہ ہی دین کی سربلندی کے لئے شیاطین سے جنگ کرنے پر ہمہ وقت تیار رہتا تھا ۔۔۔ مگر شیاطین کی تعداد ان سے کئی گُنا زیادہ تھی ۔۔۔۔۔ ان کے قبیلے کے علاوہ دیگر مسلم جنات کے قبیلے اتنے طاقت ور نہ یں تھے ۔۔۔ شاید ویسا جذبہ ہی نہیں رکھتے تھے ۔۔۔ انسانوں کی طرح کئی فرقوں میں بٹے ہوئے تھے ۔۔۔۔ اور پھر ان قبائل میں شرانگیزی بھی زیادہ تھی ۔۔۔۔۔ جس سے اللہ نے ان کے قبیلے کو بچائے رکھا تھا ابھی تک ۔۔۔۔ انہیں واپس اپنوں میں آکر اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا ۔۔۔۔ پھر فاطمہ کا دکھ بھی انہیں کھائے جا رہا تھا ۔۔۔۔ ان کی معصوم بیٹی کئی دکھ اپنے دل میں لئے پھر رہی تھیں ۔۔۔۔ جب انہیں یہ پتہ چلا فاطمہ کی شادی شاہ جی محمد عمار بلوچ کے بیٹے سے ہوئی تھی ۔۔۔۔ تو انہیں کسی قسم کی حیرت نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔ حوریہ بی بی کی حقیقت شاہ جی کو پتہ تھی ۔۔۔ ان کا رویہ حوریہ بی بی کے ساتھ ایک بڑے بھائی جیسا تھا ۔۔۔۔ صلاح الدین کی پیدائش پر شاہ جی سے زیادہ جمال شاہ خوش تھے ۔۔۔۔ زلیخا بھابھی کو بڑے خلوص سے انہوں نے مبارک باد دی تھی ۔۔۔۔ اور پھر ٹھیک ایک سال بعد اللہ نے انہیں بھی صاحب اولاد کردیا ۔۔۔۔ اللہ نے فاطہ جیسی سنہری گڑیا ان کی جھولی میں ڈال دی ۔۔۔ انہیں لگا ان کی زندگی مکمل ہوگئی ہے ۔۔۔ مگر افسوس جمال شاہ کے شک کے ناگ نے ان کی زندگی ان سے چھین لی فاطمہ اور جمال سے دور شیاطین کی قید میں وہ ماہ و سال انہوں نے کاٹے جو انہیں اپنوں کے ساتھ گزارنے تھے ۔۔۔۔ انہیں اتنا تو پتہ چل گیا تھا کہ صلاح الدین مر چکا ہے مگر ابھی تک فاطمہ کے ساتھ کس قسم کے حادثات پیش آئے وہ ان سے بے خبر تھیں ۔۔۔۔ وہ جاننا چاہتی تھیں مگر اس لئے پوچھنے سے کترا رہی تھیں کے فاطمہ کو وہ اذیت ناک ماضی دہرانے سے مزید اذیت اور تکلیف نہ ہو ۔۔۔۔ نماز عصر سے فراغت کے بعد وہ وہیں بیٹھی اپنی بیٹی کے بارے میں سوچ رہی تھیں ۔۔۔ ان کی خوبصورت آنکھوں میں ایک عجیب سا دکھ اتر گیا تھا ۔۔۔۔کسی کام سے ان کے کمرے میں داخل ہوتی فاطمہ بی بی نے بھی اپنی ماں کو یوں مصلے پر اداس سر جھکائے بیٹھے دیکھا تو ان کے قریب جاکر بیٹھ گئیں ۔۔۔۔ اور آہستہ سے بڑے پیار سے اپنا سر ان کے کاندھے پر رکھا تھا ۔۔۔۔


حور مما ۔۔۔۔ آپ اتنی اداس نہ رہا کریں ۔۔۔۔

یہ اداسیت تو اب جی کا روگ بن چکی ہے بیٹے ۔۔۔۔۔ تمہارے والد کی وفات ۔۔۔۔ پھر تمہارا اور عائیشہ کا غم ۔۔۔۔ پتہ نہیں کب تک ۔۔۔۔ کب تک یہ دکھ کے بادل ہماری زندگیوں پر چھائے رہینگے ۔۔۔۔

ان کی اس بات پر ایک زخمی سی مسکراہٹ فاطمہ بی بی کے سبیح چہرے پر بکھری تھی ۔۔۔۔

حور مما ۔۔۔۔ بس آپ عائشہ کے لئے دعا کریں ۔۔۔۔۔ اللہ اسے ان آفات سے بچائے رکھے ۔۔۔۔ وہ اس اذیت سے نہ گزرے جس سے میں گزر چکی ہوں ۔۔۔۔

فاطمہ بیٹی ایسا کیا ہوا تھا ۔۔۔اور آخر عائیشہ کو تم نے خود سے کیوں جدا کیا ۔۔۔۔ اور شاہ جی ان کی والدہ اور زلیخا بھابی کہاں ہیں ۔۔۔۔۔

آپ کی زندگی جس ایک وجہ سے تباہ ہوئی وہی وجہ میری زندگی کی تباہی کا بھی باعث بنی ۔۔۔۔ شک کے ناگ نے مجھے بھی ڈسا ۔۔۔ مگر ابو جی کی طرح صلاح الدین نہیں تھے وہ مرتے دم تک میری ڈھال بنے رہے ۔۔۔ انہیں مجھ پر خود سے زیادہ اعتبار تھا ۔۔۔۔ شاہ جی بھی آخری وقت تک میرا دفع کرتے رہے ۔۔۔۔ مگر

مگر کیا فاطمہ ۔۔۔۔

وہ بے تابی سے پوچھنے لگیں تو فاطمہ بی بی نے اداس نظروں سے انہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔

مگر میرے پیارے ابوجی نے مجھ پر اعتبار نہیں کیا ۔۔۔۔ مجھے زندہ درگور کردیا ۔۔۔۔

حوریہ خاموش اداس نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔

میں تمہارے ماضی کو کریدنا نہیں چاہتی ۔۔۔۔ مگر اگر تمہیں لگے کے مجھے بتانے سے دل کا بوجھ تمہارا ہلکا ہوسکتا ہے تو بیٹا اپنی ماں سے کچھ مت چھپانا تمہارے ساتھ کیا ہوا ۔۔۔۔

فاطمہ بی بی کچھ پل تو اپنی والدہ کو دیکھتی رہیں پھر سر ان کی گود میں رکھ کر ایک کروٹ پر لیٹ گئیں ۔۔۔

حور مما یہ خوشیاں اتنی مختصر کیوں ہوتی ہیں ۔۔۔چند پل آپ کے آنگن میں ٹھہر کر پھر اسے سونا کرجاتی ہیں ۔۔۔۔
میری زندگی میں صلاح الدین بھی اسی طرح میری اولین خوشی بن گیا تھا ۔۔۔۔ مانا کے پہلے پہل اس رشتے پر جو ہمارے بڑوں نے باندھا تھا ۔۔۔۔ ہم دونوں ہی اس پر دل سے راضی نہ تھے ۔۔۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس مقدس تعلق نے ہمیں ایک دوسرے کا عادی بنا دیا ۔۔۔۔۔ ہم ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہنے لگے تھے ۔۔۔۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میری حقیقت اس پر آشکار ہوئی تھی ۔۔۔۔

یہ کہتے ہوئے انہوں نے آنکھیں موند لیں ۔۔۔۔ اور بند آنکھوں سے اپنے ماضی میں جھانکنے لگیں ۔۔۔۔

×××××××××××

باقی آئندہ ۔۔۔۔
 

farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 230266 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More